امریکی خلائی ایجنسی ناسا کی ربوٹک گاڑی ’کیوروسٹی‘ مریخی پتھروں کو معائنے کی غرض سے توڑنے کے لیے تیار ہے۔
Nasa’s Curiosity rover prepares to zap Martian rocks
کیوراسٹی کے قریب پڑے پتھر کی سطح کو شعاعوں سے بخارات میں تبدیل کر دیا جائے گا تاکہ اس کی بنیادی کیمیات معلوم کی جاسکیں۔
اس پتھر کو این ون سکس فائیو کا نام دیا گیا ہے اور اس کی سائنسی اہمیت نہیں بلکہ اس تجربے سے صرف یہ اندازہ ہوگا کہ شعاعوں کا آلہ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
محقق راجر وینز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے خیال میں یہ ایک عام مریخی سیاہ سنگ مرمر ہے اور یہ زمین پر بھی زیرسمندر عام پایا جاتا ہے۔ ہم کوئی حیران کن دریافت کی توقع نہیں کر رہے۔‘
کیوروسٹی کو دو ہفتے پہلے مریخ پر اتارا گیا ہے۔
اس مشن کو خلائی تاریخ کا ایک انتہائی جرات مندانہ مشن قرار دیا جاتا ہے اور یہ ایک ٹن وزنی روبوٹک گاڑی سیارے پر اپنے دو سالہ قیام کے دوران یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے گی کہ آیا کبھی مریخ پر زندگی کے آثار موجود تھے یا نہیں۔
کیوروسٹی میں ویسے تو اور بھی آلات ہیں لیکن کم کیم سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے کیوں کہ یہ گاڑی کے اوپر لگا ہوا ہے اور اس کے شعاعیں تئیس فٹ کے فاصلے پر پڑے پتھروں تک پہنچتی ہے۔
آلے سے نکلنے والی انفرا رڈ شعاعیں ہدف پر ایک ملین واٹ توانائی کے ساتھ پڑتی ہیں اور وہ بھی ایک سیکنڈ کے اربویں حصے سے کم وقت کے لیے۔
اس سے چنگاری پیدا ہوتی ہے اور یہ آلہ دوربین کے ذریعے معائنہ کرتا ہے۔ اور پھر سائنسدان رنگوں سے معلوم کرتے ہیں کہ کس قسم کے کیمیائی عناصر پتھر میں موجود ہیں۔
مریخ پر کیوروسٹی کے دو سالہ قیام کے دوران کم کیم تجربات کے لیے نمونے اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
اگراس آلے کی شعاعیں ایک دلچسپ پتھر کو ڈھونڈ لے گی تو کیوروسٹی اس پتھر کے قریب ہو جائے گی اور تفصیلی معائنہ کرنے کے لیے دوسرے آلات کا استعمال شروع کر دے گی۔
اگر این ون سکس فائیو پتھر پر تجربہ کامیاب رہا تو کم کیم سائنسی تجربات کے لیے دوسرے مواد کا معائنہ شروع کر دے گی۔
کیوروسٹی کے پروجیکٹ سائنسندان جان گروزنگر نے کہا کہ ’مٹی کے نیچے پتھروں کے دلچسپ رنگ ہیں، کچھ ہلکے اور تیز رنگ کے ہیں۔ اب سائنسدانوں کی ٹیم اس پر غور کر رہی ہے کہ یہ پتھر کس طرح بنے اور ان یہ کون کون سے عناصر سے بنا ہے۔ آگے کم کیم مزید اچھی معیار کی تصویریں بھیجے گا۔‘
کیوروسٹی چھ اگست کو اترنے کے بعد ابھی تک اپنی جگہ سے نہیں ہلی چند دنوں میں اسے آگے اور پیچے کی طرف چلایا جائے گا۔
سائنسدان چاہتے ہیں کہ اسے کئی کلو میٹر چلا کرگیل نامی گھڑے کے درمیان پہاڑ کے دامن پر لے جائے تاکہ وہاں پڑے مواد کا معائنہ ہو سکے۔ لیکن اس سفر کے لیے شاید کئی مہینے انتظار کرنا پڑے۔