سپریم کورٹ(جیوڈیسک)چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ آزاد عدلیہ جمہوری معاشرے کی ضرورت ہے۔ قانون سخت اور غیر لچکدار نہیں اسکو بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ تبدیل ہونا چاہیے۔
سکھر میں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کے زیر صدارت لا کانفرنس جاری ہے ۔وفاقی شریعت کورٹ کے چیف جسٹس آغا رفیق ، سپریم کورٹ کے جج صاحبان ، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم اور سندھ ہائی کورٹ کے ججز کے علاوہ ملک کے ماہر قانون دان عبدالحفیظ پیرزادہ ، سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر یاسین آزاد، سندھ ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر انور منصور خان، فرخ نسیم ، ماتحت عدالتوں کے ججز اور سندھ بھر سے وکلاء کی بڑی تعداد شریک ہے۔
لا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ انصاف کی فراہمی کے لیئے قانونی تعلیم بنیاد اور ابتدائی ڈھانچہ فراہم کرتی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح پورے ملک میں عام تعلیم کا معیار تنزلی کا شکار ہے اسی طرح قانونی تعلیم کا معیار بھی متاثر ہوا ہے ، ترقی یافتہ ممالک اور حتی کہ بعض ترقی پذیر اقوام نے قانونی تعلیم کے معیار کو بڑھانے میں پیش قدمی کی ہے، اسکے برخلاف پاکستان میں قانونی تعلیم کے معیار کی صورتحال زوال پذیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کا بنیادی مقصد طرز عمل اور رویوں کے لیے بنیادی اصول فراہم کرنا اور معاشرے کو ایک منظم اور ترتیب سے چلانا ہوتا ہے۔
قانون سخت اور غیر لچکدارنہیں ، اسکو بدلتے حالات کے ساتھ تبدیل ہونا چاہیے اور اسے وقت اور زندگی کے نشیب وفراز کے ساتھ عہدہ برا ہونا چاہئے۔ اس کا مقصد سماجی معاشی اور سیاسی تضادات اور مسائل کا حل ہونا چاہیے۔آئین کے مقرر کردہ پیمانے کے تحت کوئی بھی انتظامی حکم یا قانون اگر بنیادی قانون سے خلاف یا متصادم ہوا تو اسے منسوخ کرے۔ لوگ عدالتوں سے اپنے تضادات اور تنازعات کے حل کے لیے رجوع کرتے ہیں تاکہ ان کی تکالیف اور ان کے ساتھ ناانصافی کا ازالہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ایک پیشہ ورانہ بار کی مدد کے بغیر عدلیہ اپنے بلند مرتبہ آئینی نصب العین کو حقیقی جامہ نہیں پہنا سکتی۔ اچھی حکمرانی اور شفاف انتظامیہ کے مقاصد کے حصول کے لیئے عدلیہ کی مضبوطی اور ایک آزاد پیشہ ورانہ اور مکمل تربیت یافتہ بار بہت اہم ہیں۔ کیونکہ بینچ اور بار دو ایسے ستون ہیں جن پر انصاف کی شاندار عمار کھڑی ہے۔انہوں نے کہا کہ سب سے اہم سفر ہم نے 2007 میں شروع کیا بغیر کسی خوف اور کسی مخصوص کلاس یا گروہ کی حمایت کے ابھی تک جاری ہے، جو کہ ہم نے آئین کے تحت حلف اٹھاتے ہوئے شروع کیا تھا۔