علاقائی سیاست

Najeem Shah

Najeem Shah

علاقائی سیاست پر مجھے بہت کم ہی لکھنے کا موقع ملا ہے اور میری قلم کا موضوع زیادہ تر قومی اور بین الاقوامی سیاست ہی رہی ہے۔ اپنے ایک گزشتہ کالم کے اندر میں نے مانسہرہ کے حلقہ این اے 20میں جاری سیاسی سرگرمیوں کو موضوعِ بحث بنایا تھا۔ مانسہرہ کی علاقائی سیاست پر لکھے گئے اس کالم کی قومی اور علاقائی اخبارات میں اشاعت کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی ہے اور تبصرہ نگاروں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اس حلقے میں اصل مقابلہ سردار محمد یوسف اور اعظم خان سواتی میں ہی ہوگا البتہ مختلف جماعتوں سے سیاسی وابستگی رکھنے والے بعض قارئین نے یہ گلہ ضرور کیا ہے کہ میں نے کیسے اس انتخابی حلقے میں اعظم خان سواتی کو فیورٹ قرار دے کر عوامی گلے سے بری الذمہ قرار دے دیا ہے، حالانکہ مانسہرہ کا ضلع ناظم رہتے ہوئے وہ کوئی خاص عوامی خدمت نہیں کر سکے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ اعظم خان سواتی جب مانسہرہ کے ضلع ناظم بنے تھے اُس وقت اُن کی وابستگی کسی سیاسی جماعت سے نہیں تھی اور اب وہ شاید پہلی بار کسی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

ضلعی نظامت کے دور میں اعظم خان سواتی نے مانسہرہ کو جو میگا پراجیکٹ دیئے ان میں ہزارہ یونیورسٹی سرفہرست ہے۔اس میں شبہ نہیں کہ سردار محمد یوسف، اعظم خان سواتی اور کیپٹن (ر) صفدر جوڑ توڑ کی سیاست میں مصروف ہیں لیکن تحریک انصاف کی جانب سے پورے ملک میں اپنے اُمیدواروں کے بارے میں جاری کی گئی جائزہ رپورٹ میں خیبرپختونخواہ کی جن چھتیس میں سے بائیس سیٹوں پر مضبوط اُمیدوار ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے اُن میں حلقہ این اے 20سے اعظم خان سواتی بھی شامل ہیں۔ گزشتہ تیس سال سے مانسہرہ کی سیاست پر راج کرنے والے سردار محمد یوسف یقینا ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں مگر اعظم خان سواتی کے میدان میں اُترنے کے باعث اُن کا مستقبل بھی تاریک دکھائی دیتا ہے۔ اس صورتحال میں سردار محمد یوسف کے لیے ایک ہی راستہ باقی بچا ہے کہ وہ انتخابات سے قبل ہی قاف لیگ کو چھوڑ کر نواز لیگ یا جمعیت علمائے اسلام میں سے کسی ایک جماعت میں شمولیت اختیار کرلیں کیونکہ اس وقت اعظم خان سواتی کو جمعیت اور نواز لیگ دونوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا ہے اور سردار محمد یوسف اس موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھا سکتے ہیں لیکن اس کے بعد اُنہیں صوبہ ہزارہ کی تحریک سے دستبردار ہونا بھی پڑ سکتا ہے جو یقینا اُن کے لیے ایک گھاٹے کا سودا ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں صوبہ ہزارہ کی تشکیل میں اُن کا رول نمایاں رہے۔

حلقہ این اے 20میں قاف لیگ کی طرف سے سردار محمد یوسف یا اُن کے بیٹے سردار شاہجہان یوسف، پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اعظم خان سواتی جبکہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی متوقع اُمیدوار ہیں جبکہ حلقہ این اے 21کے متوقع اُمیدواروں میں جے یو آئی کی طرف سے لائق محمد خان، تحریک انصاف کی جانب سے زرگل خان یا نیاز سرخیلی، مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کیپٹن (ر) صفدر یا صالح محمد خان جبکہ اے این پی کی طرف سے نوابزادہ صلاح الدین شامل ہیں۔ این اے 20میں بلاشبہ اصل مقابلہ سردار محمد یوسف گروپ یا اعظم خان سواتی گروپ کے درمیان ہے مگر اس حلقے میں مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام کا بھی کافی ووٹ بینک ہے۔ گزشتہ انتخابات میں نواز لیگ کے اُمیدوار لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی قاف لیگ کے سردار شاہجہان یوسف کے مقابلے میں صرف چند سو ووٹوں کے معمولی فرق سے ہارے جبکہ 2002ء کے انتخابات میں ایم ایم اے کے اُمیدوار سید غلام نبی شاہ تیسری پوزیشن پر رہے۔ این اے 21میں جے یو آئی کے لائق محمد خان کو ابھی تک مضبوط اُمیدوار قرار دیا جا رہا ہے مگر یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ ضمنی انتخاب میں اُن کو جیت دلوانے میں اعظم خان سواتی نے اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ اب کی بار اے این پی اور تحریک انصاف کے اُمیدوار لائق محمد خان کے راستے میں بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

Najeem Shah

Najeem Shah

آئندہ ہونے والے انتخابات میں این اے 21سے چونکہ تحریک انصاف بھی اپنا اُمیدوار سامنے لائے گی، اس لیے اعظم خان سواتی کی ہمدردیاں یقینا لائق محمد خان کے بجائے اپنی پارٹی کے اُمیدوار سے ہوں گی جبکہ ن لیگ کی طرف سے کیپٹن (ر) صفدر کو پارٹی ٹکٹ ملنے کی صورت میں نظریاتی کارکن بغاوت کر سکتے ہیں کیونکہ کیپٹن (ر) صفدر اور ضلع مانسہرہ کے نظریاتی عہدیداروں و کارکنوں کے درمیان اختلافات کے باعث نظریاتی کارکنوں نے اس حلقہ سے صالح محمد خان کو پارٹی ٹکٹ دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ کیپٹن (ر) صفدر مانسہرہ کے دونوں انتخابی حلقوں میں نواز لیگ کو متحرک کرنے کے لیے نامی گرامی سیاست دانوں کو اپنی جماعت میں شمولیت پر آمادہ کر رہے ہیں مگر پیر صابر شاہ اور سردار مہتاب احمد عباسی کے خلاف بیان بازی کے بعد نواز لیگ نے فی الحال اُن کی رکنیت ختم کر دی ہے اور اب قاف لیگ کو چھوڑ کر نواز لیگ میں شامل ہونے والے انجینئر امیر مقام مانسہرہ میں اپنے پرانے دوستوں کو ساتھ ملانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اگر وہ سردار محمد یوسف گروپ کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر نہ صرف سردار یوسف گروپ کے جیتنے کے سو فیصد چانسز ہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کو بھی مانسہرہ میں بھرپور آکسیجن مل جائے گی۔

کیپٹن (ر) صفدر گزشتہ کچھ عرصہ سے جس طرح متحرک رہے ہیں ،اس سے یہی لگتا ہے کہ وہ ”خادم اعلیٰ پنجاب ” میاں شہباز شریف کی طرح اپنے نام کے ساتھ ”خادم ہزارہ” لگانے کی خواہش رکھتے ہیں اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب پورے ہزارہ میں فیصلوں کا اختیار اُن کے ہاتھ میں ہو۔ شاید اسی وجہ سے وہ ہزارہ کی سیاست میں اپنا اثرورسوخ بڑھا نا چاہتے ہیں مگر مرکزی قیادت کے حالیہ فیصلے کے بعد کیپٹن (ر) صفدر کی یہ خواہش فی الحال ادھوری رہ گئی ہے۔ کیپٹن (ر) صفدر نے پارٹی کی طرف سے ملنے والے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے بظاہر سردار مہتاب عباسی اور پیر صابر شاہ سے معافی مانگ لی ہے مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اس معافی نامے کے ساتھ (ن) لیگ ہزارہ میں جنم لینے والے اختلافات بھی ختم ہو گئے ہیں۔ سردار محمد یوسف بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو جاتے ہیں تو ایسی صورت میں اُنہیں وقتی فائدہ تو پہنچ سکتا ہے مگر جیسے ہی کیپٹن (ر) صفدر ہزارہ بشمول مانسہرہ میں سیاسی طاقت حاصل کرکے تمام فیصلے اپنی مرضی و منشاء کے تابع کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر کسی بھی وقت اُن کا مستقبل تاریک ہو سکتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے وہ مذاکرات کے کئی ادوار ہونے کے باوجود تاحال کوئی فیصلہ نہیں کر سکے جبکہ دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام بھی اعظم خان سواتی کا راستہ روکنے اور مانسہرہ کی دونوں سیٹیں جیتنے کیلئے سردار یوسف سے رابطے میں ہے۔

سردار محمد یوسف ابھی تک اس تذبذب میں مبتلا ہیں کہ وہ جمعیت علمائے اسلام (ف) یا مسلم لیگ (ن) میں سے کس پارٹی میں شمولیت اختیار کریں تاکہ اس حلقہ میں اعظم سواتی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راستہ روکا جا سکے۔ بعض ذرائع سردار محمد یوسف اور جمعیت کے درمیان انتخابی اتحاد کا امکان بھی ظاہر کر رہے ہیں جبکہ یہ تاثر بھی عام ہے کہ جمعیت علمائے اسلام مفتی کفایت اللہ کی صوبائی نشست بچانے کیلئے قومی اسمبلی کی نشست پر اعظم خان سواتی کی حمایت کر سکتی ہے یا پھر مفتی کفایت اللہ کو این اے 21سے الیکشن میں کھڑا کرکے اعظم سواتی کی حمایت حاصل کی جائے گی۔ سردار یوسف اپنے حلقے کے ووٹروں میں ابھی تک کسی اور جماعت میں باقاعدہ شمولیت نہ کرنے کا یہ جواز بتا رہے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے وزیرِ مملکت بیٹے کے ذریعے فنڈز لے کر حلقے میں تعمیراتی کاموں کا جال بچھانا چاہتے ہیں مگر ووٹروں کی اکثریت کے مطابق سردار محمد یوسف کو نظرانداز علاقوں کا خیال تب آنا شروع ہوا جب اعظم خان سواتی نے اس حلقہ سے الیکشن لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ این اے 20کے ووٹرز یہ گلہ بھی کرتے ہیں کہ سردار محمد یوسف کے تیس سالہ دور اقتدار میں کوئی میگا پراجیکٹ سامنے نہیں آیا اور اس عرصہ میں انہوں نے صرف اپنی برادری اور آبائی گائوں جالگلی پر ہی توجہ دی جبکہ اب اعظم خان سواتی کے متحرک ہونے کے بعد سردار یوسف نے بھی نظرانداز علاقوں کا رُخ شروع کر دیا ہے۔

سردار محمد یوسف نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 1979ء میں ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر کی حیثیت سے کیا۔ اسکے بعد وہ دو بار ممبر صوبائی اسمبلی اور پھر تین بار ممبر قومی اسمبلی بنے جبکہ بعد میں جیسے ہی پرویز مشرف حکومت نے ممبرانِ اسمبلی کیلئے گریجویشن کی شرط رکھی تو اس شرط پر پورا نہ اُترنے کے باعث انہوں نے اپنے بیٹے شاہجہان یوسف کو میدان میں اُتار لیا جو 2002ء اور 2008ء میں اس حلقہ سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ خود سردار محمد یوسف بعد میں ضلع ناظم بھی رہے اور تاحال مانسہرہ کی سیاست میں سرگرم ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ سردار محمد یوسف کا اپنی برادری میں کافی اثرورسوخ ہے اور اگر کوئی گجر برادری سے اُن کے مقابلے میں الیکشن لڑے تو پہلے اُسے اپنے حق میں دستبردار کرانے پر مجبور کیا جاتا ہے بصورت دیگر اُس کی سخت مخالفت شروع ہو جاتی ہے۔

pakistan elections

pakistan elections

سردار محمد یوسف کی کامیاب سیاست کا محور بھی یہی ہے کہ اگر وہ خود یا اُن کے بیٹے شاہجہان یوسف قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑتے ہیں تو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ایسے اُمیدواروں کی حمایت کی جاتی ہے جن کا تعلق گجر برادری سے نہ ہو تاکہ وہ غیر برادری کے ووٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ ضلع مانسہرہ کے دونوں انتخابی حلقوں کی موجودہ صورتحال کے مطابق فی الحال این اے 20سے اعظم خان سواتی جبکہ این اے 21سے لائق محمد خان جیت کے لیے انتہائی مضبوط اُمیدوار سمجھے جاتے ہیں مگر ان دونوں حلقوں سے قاف لیگ کے سردار محمد یوسف اور اے این پی نوابزادہ صلاح الدین بھی پانسہ پلٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔تحریر: نجیم شاہ