ہمارے حکمرانوں نے عوامی تکالیف اور مفادات کا خون کرتے ہوئے ملک بھر میں ایک بار پھریکم ستمبر سے پیٹرولیم مصنوعات اور سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے ملک کے 95 فیصد غریب عوام کو مہنگائی کی دودھاری چھری سے ذبح کردیا ہے اورجو باقی بچے ہیں وہ بیچارے عوام حکومت کے اِس ظالمانہ اقدام سے زندہ درگور ہوگئے ہیں ایسے میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوںکو اگر اپنے عوام سے ذرابھی محبت ہوتی تو شاید یہ ایسے اقدامات ہرگز نہ کرتے بلکہ عوامی مفادات کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے پڑوسی ملک بھارت کے عوام دوست حکمرانوں کی طرح اپنے یہاں پیٹرولیم مصنوعات اور سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ قطعاََ نہیں کرتے مگر افسوس ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور اِن کے کاندھوں پر قائم حکومتی ڈھانچے اور اِن کی اوگرانامی لونڈی کو اپنے عوام کی تکالیف اور اِس کے مفادات میں کئے جانے والے کسی بھی فیصلے سے کوئی غرض نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ یہ آئے روز ایسے اقدامات کرتے رہتے ہیں جس سے عوام جیتے جی مررہے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے اور ایسے میں اَب عوام میں اپنے حکمرانوں کے خلاف نفرت کا رجحان پیدا ہونا یک لازمی امرہے اور اِن کا اپنے حکمرانوں کے خلاف احتجاجوں اور مظاہروں کے لئے سٹرکوں پر نکلنا کیا یہ اِن کا حق نہیں ہے…؟ اور کیایہ اَب اِس طرح اپنے احتجاجوں اور مظاہروں سے اپنی موجودگی اور اپنے اُوپر ہونے والے حکومتی ظلم کابھی احساس نہ دلائیں…؟ اگرچہ اِس میں کوئی شک نہیںکہ اِس طرح ملک میں مہنگائی کو ہوادینے والے حکومتی اقدامات سے ایک طرف تو ہمارے ملک اور معاشرے میں مسائل ضرور پیداہوں گے تو وہیں نقصِ امان کا بھی خدشہ یقینا باقی رہے گا مگر یہاں اِس سارے پس منظر میں ہمیں یہ بات بھی تسلیم کرلینی چاہئے کہ اِس قسم کے حکومتی اقدامات سے دنیا کے کسی بھی ملک اور معاشرے میں جنتی بھی اُلجھنیں اور بُرائیاں پیداہوتی ہیں اِن کی ذمہ دار بھی خود حکومتیں ہی ہواکرتی ہیں ۔
Asif ali zardari
کیوں کہ ”من سی اس ”ایک ایسا دانا گزراہے جس نے اپنے تجربات کی روشنی میں جہاں اور بہت سی باتیں کہیں ہیں تو اُن ہی بے شمار باتوں میں سے اِس نے ایک یہ بات بھی ٹھوک بجا کر کہہ دی ہے کہ ”معاشرے کی اُلجھنیں اور برائیاں اِنسانوں کی بری فطرت کے باعث پیدانہیں ہوتیں دراصل کسی بھی معاشرے میں جتنی بھی الجھنیں اور برائیاں پیداہوتیں ہیں اُن کی بڑی وجہ حکومتیں ہی ہوا کرتی ہیں”گو کہ یہ بات ہمارے لئے نئی اور اچھوتی ضرور ہے مگر حقیقت تو یہی ہے جس کے بارے میں ایک دانا نے کہہ دیا ہے اور اَب من سی اس کے اِس قول کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ ہم بحیثیت اپنے معاشرے کے ایک رُکن اور اکائی ہونے کے اپنے ہی معاشرے کے کسی فرد کو کسی بھی بابت شک کی نگاہ سے دیکھیں اور اِس سے متعلق بدگمانی میں مبتل اہوکر اِس کا دائرہ کار بڑھاتے جائیں ۔
پھرکسی فرد میں پائی جانے والی کسی برائی یا اُلجھن کے خلاف ہوجائیں جبکہ اَب ہمیں من سی اس کے اِس قول کے بعد اِس بات کا پورایقین کرلین اچاہئے کہ ہمارے معاشرے میں جتنی بھی اُلجھنیں اور بڑائیاں جنم لیتی ہیں اِس کیذمہ دار میں یا آپ نہیں ہوتے ہیں…؟ بلکہاِن کی جڑ حکومتیں ہی ہواکرتی ہیںکیوںکہ اِس نے اپنے فرائض سے یقیناغفلت برتی اور اپنی رِٹ قائم کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں اُلجھنیں اور برائیاں پیداہوئیں۔
یوں اَب ہمیں اِس بات پر متفق ہوجانا چاہئے کہ ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں اِس میں پائی جانے والی ہر اُلجھن اور بُرائی کی ذمہ دار ہماری حکومتیں ہیں پھراِس کے بعد ہمیں خود سے اِس بات پر آمادہ کرناہواکہ اپنے معاشرے کے کسی فردمیں پائی جانے والی کسی بُرائی کو دیکھ کرہمیں اِس سے لڑناجھگڑنااور اُلجھنانہیں چاہئے اور یہ سوچ کر خاموش رہ جاناچاہئے کہ آج جس فرد سے اِس کی کسی بُرائی یا اُلجھن کی وجہ سے ہم دستِ گریبان ہورہے ہیں اِس میں اِس کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ اِس کی ذمہ دار تو ہماری حکومتیں ہیں جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی برتی اور معاشرے میں طرح طرح کی اُلجھنیں اور بُرائیاں پیداہوئیں جس کا شکار معاشرے کا ہر فرد ہے۔
بہرحال …!اَب یہ اور بات ہے کہ آپ ”من سی اس” کے اِس قول سے کتنے متفق ہوتے ہیں…؟مگرکوئی ہم سے پوچھے تو ہم تو من سی اس ” کے اِس قول سے سوفیصد متفق ہیں آج تب ہی تو ہم نے اِس کی حمایت اور آپ سمیت اپنے ملک کو سمجھانے کے لئے من سی اس کے اِس قول کے پرچار کے خاطراپنایہ کالم لکھ دیاہے۔ اَب یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ آج دنیا کے جن ممالک میں حکومتیںاپنی آنکھ، اور کان کھول کراور دماغ کا استعمال کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہی ہیں اُن ممالک میں اُلجھنوںاور بُرائیوں کا تناسب ہمارے ملک (پاکستان) سمیت دیگر ممالک کی اُن حکومتوں کے مقابلے میں قدرے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں جو عوامی مسائل سے اپنی آنکھ اورکان بنداور دماغ وعقل کا استعمال ترک کر کے اپنے مفادات کے لئے متحرک رہتی ہیںاگرآج ہم اپنے معاشرے میں پائی جانے والی کسی ایک بھی اُلجھن یا بُرائی کو اُٹھاکر دیکھ لیں تو یقینااِس کے ڈانڈے حکومت سے ہی جا ملیں گے۔
Load Shedding
یعنی ہمارے ملک اور معاشرے میں لوڈشیڈنگ،توانائی کا بحران، آئے روز پیٹرولیم مصنوعات اور سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ، مہنگائی، ملک بھر میں بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی اوربھوک و افلاس سمیت دیگر حوالوں سے پیداہونے والی جتنی بھی اُلجھنیں اور بُرائیاںجنم لے چکی ہیں اِن سب کی ذمہ داربھی ہماری ہی حکومت ہے۔اور ایسے میں جب ملک اور معاشرے میں حکومتی بے حسی اور نااہلی کی وجہ سے پہلے ہی بے شمار اُلجھنیں اور بُرائیاں جنم لے چکی ہیں تواَب حکومت کا یکم ستمبر سے پیٹرولیم مصنوعات اور سی این جی کی قیمتوں میں کیاجانے والااضافہ کیا ملک میں نئے انتشار اور مسائل کو جنم نہیںدے گا۔تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم