پروین بابی ہوں یا راجش کھنہ یا پھر حال ہی اس دنیا کو الوداع کہنے والے اداکار اے کے ہنگل، فلمی دنیا نے اپنے ان ستاروں کو ان کے آخری وقت میں یاد نہیں رکھا اور انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا۔
اے کے ہنگل اس مہینے کی چھبیس تاریخ کو انتقال کرگئے تھے۔ ڈھائی سو سے زائد فلموں میں کام کر چکے اے کے ہنگل کی آخری رسومات ممبئی کے جوہو ورسووا علاقے میں ہوئی جہاں سے کچھ ہی فاصلے پر بیشتر فلمی ہستیاں رہتی ہیں لیکن بہت کم فنکاروں نے ان کی آخری رسومات میں شرکت کی۔
لیکن تقریبا دو ماہ قبل بالی وڈ کے پہلے سپر سٹار کہے جانے والے راجیش کھنہ کا انتقال ہوا تھا اور ان کی آخری رسومات میں سبھی چھوٹے بڑے اداکار اور فلمی ہستیوں نے شرکت کی تھی یہ الگ بات ہے کہ جب وہ فلموں میں کام نہیں کر رہے تھے تو ان کے دوستوں کی فہرست مختصر ہوگئی تھی۔
گزشتہ کچھ برس قبل ستر اور اسی کی دہائی کے مشہور اداکار پروین بابی ممبئی میں واقع اپنے فلیٹ میں مردہ پائی گئی تھیں۔ انتقال سے کئی برس پہلے ہی انہوں نے ہندی فلم انڈسٹری سے کنارہ کر لیا تھا۔
چوبیس فروری انیس سو اٹھانوے کو ہندی فلموں کی شاید سب سے غیر مقبول ساس یعنی اداکارہ للتا پوار پونے میں واقع اپنے گھر میں مردہ پائی گئی تھیں۔ مرتے وقت ان کے پاس کوئی نہیں تھا اور جب ان کی لاش ملی تو اس سے بدبو آ رہی تھی۔
یہ فہرست اور طویل ہو سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ فلم انڈسٹری اتنی خود غرض جگہ ہے جہاں لوگ آسانی سے اپنے سپرسٹارز اور اداکاروں کو بھول جاتے ہیں؟
اے کے ہنگل نے آخری وقت میں معاشی تنگی دیکھی اور حالات یہ ہوگئے تھے کہ ان کے بیٹوں نے ان کے علاج کے لیے بالی وڈ سے مالی امداد کی اپیل کی تھی۔
Rajesh Khanna death ceremony
راجیش کھنہ کی آخری رسومات میں سبھی چھوٹے بڑے اداکار اور فلمی ہستیوں نے شرکت کی تھی
اے کے ہنگل کو خراجِ عقیدت پیش کرنے پہنچے اداکار رضا مراد انڈسٹری کے اس چلن سے بے حد خفا ہیں انہوں نے اپنی ناراضگی کا کھل کر اظہار کیا۔
رضا مراد کا کہنا ہے بہت شرم کی بات ہے کہ جس اداکار نے انڈسٹری کی پچاس سال خدمت کی اسے یہ بڑے ستارے آخری وقت میں پچاس منٹ بھی نہیں دے پائے۔ ہنگل صاحب طویل عرصے سے بیمار تھے۔ ان کو دیکھنے بھی کوئی بڑا ستارہ نہیں پہنچا تھا۔ صرف ائرکنڈیشنڈ کمرے سے ٹوئٹر کے ذریعے افسوس ظاہر کرنا کافی نہیں ہوتا۔
فلم ناقد جے پرکاش چوسے کہتے ہیں کہ جب کوئی فنکار اپنی موت سے کافی پہلے فلموں میں کام کرنا بند کر چکا ہوتا ہے تو عام طور پر اس کی موت گمنامی میں ہی ہوتی ہے۔
لیکن راجیش کھنہ نے بھی تو بہت پہلے اداکاری چھوڑ دی تھی تو پھر ان کی آخری رسومات میں اتنی بھیڑ کیوں؟
جے پرکاش کہتے ہیں کہ راجیش کھنہ ہندی فلموں کے پہلے سپر سٹار تھے جبکہ ہنگل صاحب نے زیادہ تر ثانوی کردار ہی کیے۔ راجیش کھنہ سے ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ ان کی فلموں کے ذریعے جڑا تھا لیکن ہنگل صاحب کے ساتھ وہ بات نہیں تھی ساتھ ہی ان کی نسل کے زیادہ تر فنکار اب اس دنیا میں نہیں۔
parveen boby
پروین بابی اپنے گھر میں مردہ پائی گئی تھیں
فلم ناقد نمرتا جوشی کہتی ہیں کہ انڈسٹری میں چڑھتے سورج کو سلام کرنے کی پرانی روایت ہے۔
ان کا کہنا ہے پرانی نسل کے فنکار اپنے پیسوں کو اچھی طرح سے انویسٹ نہیں کرتے تھے۔ آج کی نسل اس معاملے میں ہوشیار ہوگئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پرانے زمانے کے اداکار اپنے آخری وقت میں معاشی تنگی کا شکار ہوتے ہیں۔
رضا مراد پروین بابی کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں پروین نے خود ہی اپنے آپ کو انڈسٹری سے دور کر لیا تھا۔ان کے معاملے میں فلم انڈسٹری کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ وہ ذہنی بیماری کا شکار رہی تھیں۔ ان سے کوئی ملنے بھی جاتا تو وہ ملنے سے انکار کر دیتی۔
نمرتا جوشی کہتی ہیں کہ فلمی دنیا میں کہا جاتا ہے کہ دا شو مسٹ گو آن اور فلم انڈسٹری اس کہاوت کو واقعی بہت سنجیدگی سے لیتی ہے۔