پرانے وقتوں بلکہ بہترین وقتوں کے لوگ اپنے ادوار کی باتیں بتلاتے ہوئے ایک بات ضرور بتاتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں دھرتی پہ کہیں کوئی بے خطا انسان کسی قاتل کے ہاتھوں قتل ہوتا تو آسماں پہ سرخی چھا جایا کرتی یا سرخ آندھی فضائوں کو اپنی آغوش میں چھپالیتی تو ہم سمجھ جایا کرتے کہ آج زمین پہ لہو بہا ہے اور اس خدشے کی کچھ دنوں بعد تصدیق بھی ہو جایا کرتی….پھر وقت کی جھیل میں وحشت تیزی سے بہنے لگی تو قتل بھی بڑھنے لگے ، جھیل نے دریا اور پھر سمندر کی صورت اختیار کی تو اس دھرتی پہ قتل ِ عام کا نہ رکنے والا ایک سلسلہ شروع ہو گیا آسماں آئے روز کے قتل عام سے اکتا چکا تھا ۔
اس لئے اس نے سرخ آنچل کو اپنے شانوں پہ لہرانا ترک کر دیا ،پھر لوگوں کو قتل کئے جانے کی نوعیت تبدیل ہو گئی کیونکہ سابق آمر ضیاالحق نے اس دھرتی پہ فرقہ واریت کی فصل کاشت کرنا شروع کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس قتل و غارت نے دھرتی کو بربادیوں کا برزخ بنا دیا ، وحشت کے لبادوں میں ان پڑھ اور جاہل لوگ پڑھے لکھے ڈاکٹروں،ججوں،وکلاء تاجروں،اور علماء کو چن،چن کر قتل کرنے لگے ،پھر جنرل مشرف کا دور آیا تو اس نے ضیا کی کاشت کی ہوئی خونخوار فصل کو تلف کرنے کی کافی کوشش کی کچھ تنظیموں کو بین بھی کیا گیا ۔
مگر درندگی حد سے تجاوز کر چکی تھی اور اس درندگی نے خود کش حملوں کی صورت اختیار کر لی ، مساجد ،مجالس، سکولوں، تھانوں، ہسپتالوں، سیاسی جلسوں، ماتمی جلوسوں اور پاک فوج پہ پے در پے خود کش حملوں کی ریت روز بروز زور پکڑتی رہی اور اب صورتحال یہ ہے کہ ملک میں ہر طرف بد امنی ،افراتفری،خوف و دہشت اور ظلم و شقاوت کا راج ہے جس کا جب جی چاہتا ہے قتل و غارت کے بازار سجا کر بے خطا لوگوں کو پل دو پل میں موت کے ماتھے پہ سجا دیتا ہے۔ فرقہ واریت کا دیوبپھر چکا ہے،ٹارگٹ کلنگ آپے سے باہر ہو چکی ہے،سٹریٹ کرائم میں حد درجہ اضافہ ہو چکا ہے،ملک کے گوشے،گوشے میں فرقہ پرست اور دہشت گرد شاہانہ انداز میں کاروائیاں کرنے میں مصروف ہیں،چور اور ڈاکو سر عام لوگوں کو لوٹ مار رہے ہیںمگر حکومت خاموش تماشائی بنے بیان بازیوں کی بلاغت تک محدود ہے۔
Target killing
خود کش حملوں میں ذرا کمی آئی تو ٹارگٹ کلنگ کی گرہیں کھلنے لگیں اور یہ گرہیں کھلتے ہی گلگت،بلتستان میں تباہی پہ مامور ہو گئیںوہاں شیعہ مسلک کے لوگوں کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ چیک کر کے یا سینوں پہ ماتمی نشان دیکھ کر مارا جانے لگا جس کا نام،علی،حسن،حسین، عباس یا آل محمدۖ سے منسوب ہوتا اسے بس سے نیچے اتار کر گولیاں اس کے سینے میں اتار دی جاتیں۔
وہاں کے بلاکش لوگوں کو آئے روز بسوں سے اتارکر مارنے کا سلسلہ طول پکڑنے لگا،شیعہ نسل کشی پہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے پاکستان میں شیعہ نسل کشی کا نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا کہ حکومت شیعہ فرقے کے تحفظ میں کیوں ناکام ہے؟اس کے بعد ایم کیو ایم کے الطاف بھائی نے گلگت و بلتستان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ پہ اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے لبوں کو یوں جنبش دی کہ حکومت کہاں اور کدھر ہے ؟قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں،سیکورٹی ادارے کدھر ہیں،آئی ایس آئی،آئی بی،ایم آئی یا دیگر ملکی ایجنسیاں کہاں ہیں جو اس ٹارگٹ کلنگ کو روکنے میں یکسر ناکام ہیں،الطاف بھائی نے تو اس بات کا بھی اظہار کیا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی شیعہ تھے۔
ان کا نمازہ جنازہ شیعہ عالم دین علامہ انیس الحسنین نے پڑھایا تھا اور کسی شیعہ کو قتل کرنا قائد اعظم کو قتل کرنے کے مترادف اور قائد اعظم کو قتل کرنا پاکستان کو قتل کرنے کے برابر ہے۔الطاف بھائی نے کہا یہ سب کچھ اب سے صرف ساڑھے چار ماہ قبل بنوں جیل سے فرار ہونے والے طالبان کی وجہ سے ہے تحریک طالبان کے تقریباََ دو سو سے زائد مسلح دہشت گردوںنے بنوں جیل پہ دھاوا بول کر اپنے تین سو تراسی ساتھیوں کو چھڑا یا تھا اور اس وقت سے دہشت گردانہ کاروائیوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہیالطاف بھائی کے بعد مسلم لیگ ن کے نواز شریف نے بھی شیعہ نسل کشی پہ اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کی گمشدگی پہ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گلگت آج قتل گاہ بنا ہوا ہے آخر حکومت کیا کر رہی ہے ،خفیہ ہاتھوں کا ڈھنڈورا پیٹنے والے حکمران حقائق عوام کے سامنے لائیں ،عوام قتل کے فتوے دینے والے علماء کا محاسبہ کریں ۔
Nawaz sharif and imran khan
نواز شریف کے بعد تحریک انصاف کے عمران خان نے اس قتل و دہشت پہ اپنی تشویش پہ یوں ہونٹوں کو حرکت دی کہ چیف جسٹس شیعہ ٹارگٹ کلنگ پہ از خود نوٹس لیں ،عمران خان کے اس بیان سے پہلے سوشل میڈیا پہ شیعہ نوجوانوں نے اس ٹارگٹ کلنگ پہ چیف جسٹس کو نوٹس نہ لینے پہ قتل و غارت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور انہی نوجوانوں نے ملک کے ممتاز کالم نگاروں کو ایس ایم ایس کئے کہ آپ کے قلم اس قتل و وحشت پہ کیوں گونگے بنے ہوئے ہیںکیا آج تک پاکستان میں کسی شیعہ عالم نے قتل کا فتویٰ دیاہے کیا کسی شیعہ تنظیم نے حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں۔
کیا کوئی خود کش بمبار شیعہ ثابت ہوا ہے،کیا کبھی شیعہ عالم بھی مسجد میں زنا یا لڑکے سے زیادتی کرتے ہوئے پکڑا گیا، کیا آج تک کسی شیعہ مدرسے میں حکومت نے آپریشن کیا؟یہ وہ سوال تھے جو قلم کاروں سے پوچھے گئے یوں تقریباََ ہر اس کالم نگار نے ، ہر اس اینکر پرسن نے،ہر اس سیاسی لیڈر نے اور ہر اس اہل درد نے جس کی رگوں میں انسانیت رواں دواں ہے اس قتل و غارت پہ اپنی زباں بھی کھولی اور اپنے قلم بھی حرکت میں لائے اب حکومت کا کام ہے وہ اس قتل و تباہی کا نہ صرف تدبر سے تدارک کرے بلکہ شیعہ مسلمانوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ملک میں بسنے والے 14لاکھ ہندوئوں ،12لاکھ70ہزارعیسائیوں،1لاکھ25ہزار 681احمدیوں،33ہزار بہائیوں،6ہزار146سکھوں،4ہزار زرتشتوں،اور 15سوبدھ مت کے پیروکاروں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا ہو گا،کیونکہ پاکستان کے پرچم میں سفید حصے کا مقصد اقلیت کی آبیاری کیلئے مختص کیا گیا تھا ،اور سب سے بڑھکر ہمارے نبی ۖ کو تمام عالمین کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے اور رسول صلی اللیہ علیہ واٰلہ وسلم رحمت محسن ِ انسانیت نے ہر مذہب کے پیروکارسے ہمیں اخلاقیات کا درس دیا ہے ۔
حکومت اور علماء کو اس درس کا دائرہ کار بڑھانا ہو گا ورنہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب یہاں کے خبارات اور ٹی وی چینلز اپنے ملک کے بم بلاسٹ کے مناظر دکھائیں گے تو ہمیں محسوس ہو گا کہ ہم عراق اور افغانستان کی تباہ کاریوں کے مناظر دیکھ رہے ہیںحکومت اگر یونہی خاموش اور مصلحت کی مملکت پہ برجمان رہی تو نہ صرف اس دھرتی پہ قانون بکھر کر خانہ جنگی کی صورت میں بدل جائے گا بلکہ لوگوں کی ہجرت میں بے پناہ اضافہ بھی ہو جائے گا اور اگرخانہ جنگی شروع ہوئی تو ہمارے دشمن ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ہم پہ دھاوا بول دیں گے اور بے چارہ پاکستان اندرونی اور بیرونی دونوں اطراف سے دشمن کے نرغے میں ہو گا چنانچہ دھرتی کو دونوں دشمنوں سے بچانے کیلئے حکومت اور علماء کو اپنی سوچ پہ لگے تالے کھولنے ہونگے ،کیونکہ ہم تو شیعہ ،سنی کی تفریق میں تقسیم ہو ئے ہوئے ہیں لیکن دشمن کیلئے ہم صرف مسلمان ہیں ،عراق اور افغانستان یا پاکستان میں امریکی ڈرون طیارے شیعہ سنی نہیں مسلمانوں کو مار ر ہے ہیں۔