دو بھائی تھے، اللہ رکھا اور اللہ دتا۔ دونوں ریاست پٹیالہ کے باشندے تھے۔ انکے آباؤاجداد البتہ لاہور کے تھے مگر جب ان دو بھائیوں کا دادا ملازمت کی تلاش میں پٹیالہ آیا تو وہیں کا ہو رہا۔
اللہ رکھا اور اللہ دتا دونوں سرکاری ملازم تھے۔ ایک چیف سیکرٹری صاحب بہادر کا اردلی تھا۔ دوسرا کنٹرولر آف سٹورز کے دفتر کا چپڑاسی۔
دونوں بھائی ایکساتھ رہتے تھے تاکہ خرچ کم ہو۔ بڑی اچھی گزر رہی تھی۔ ایک صرف اللہ رکھا کو جو بڑا تھا، اپنے چھوٹے بھائی کے چال چلن کے متعلق شکایت تھی۔ وہ شراب پیتا تھا، رشوت لیتا تھا اور کبھی کبھار کسی غریب اور نادار عورت کو پھانس بھی لیا کرتا تھا مگر اللہ رکھا نے ہمیشہ چشم پوشی سے کام لیا تھا کہ گھر کا امن و سکون درہم برہم نہ ہو۔
دونوں شادی شدہ تھے۔ اللہ رکھا کی دو لڑکیاں تھیں۔ ایک بیاہی جا چکی تھی اور اپنے گھر میں خوش تھی۔ دوسری کا نام صغریٰ تھا۔ تیرہ برس کی تھی اور پرائمری سکول میں پڑھتی تھی۔
اللہ دتا کی ایک لڑکی تھی۔ زینب اسکی شادی ہو چکی تھی مگر اپنے گھر میں کوئی اتنی خوش نہیں تھی۔ اسلیے کہ اسکا خاوند اوباش تھا۔ پھر بھی وہ جوں توں نبھائے جا رہی تھی۔
زینب اپنے بھائی طفیل سے تین سال بڑی تھی۔ اس حساب سے طفیل کی عمر اٹھارہ انیس برس کے قریب ہوتی تھی۔ وہ لوہے کے ایک چھوٹے سے کارخانے میں کام سیکھ رہا تھا۔ لڑکا ذہین تھا، چنانچہ کام سیکھنے کے دوران میں بھی پندرہ روپے ماہوار اسے مل جاتے تھے۔
دونوں بھائیوں کی بیویاں بڑی اطاعت شعار، محنتی اور عبادت گزار عورتیں تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہروں کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا تھا۔
زندگی بڑی ہموار گزر رہی تھی کہ ایکا ایکی ہندو مسلم فساد شروع ہو گئے۔ دونوں بھائیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انکے مال و جان اور عزت و آبرو پر حملہ ہو گا اور انہیں افراتفری اور کسمپرسی کے عالم میں ریاست پٹیالہ چھوڑنا پڑیگی، مگر ایسا ہوا۔
Spitting a library in 1947
دونوں بھائیوں کو قطعاً معلوم نہیں کہ اس خونی طوفان میں کون سا درخت گرا، کون سے درخت سے کون سی ٹہنی ٹوٹی جب ہوش و حواس کسی قدر درست ہوئے تو چند حقیقتیں سامنے آئیں اور وہ لرز گئے۔
اللہ رکھا کی بڑی لڑکی کا شوہر شہید کر دیا گیا تھا اور اسکی بیوی کو بلوائیوں نے بڑی بیدردی سے ہلاک کر دیا تھا۔
اللہ دتا کی بیوی کو بھی سکھوں نے کرپانوں سے کاٹ ڈالا تھا۔ اسکی لڑکی زینب کا بدچلن شوہر بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔
رونا دھونا بیکار تھا۔ صبر شکر کر کے بیٹھ رہے۔ پہلے تو کیمپوں میں گلتے سڑتے رہے۔ پھر گلی کوچوں میں بھیک مانگا کیے۔ آخر خدا نے سنی، اللہ دتا کو گوجرانوالہ میں ایک چھوٹا سا شکستہ مکان سر چھپانے کو مل گیا۔ طفیل نے دوڑ دھوپ کی تو اسے کام مل گیا۔ اللہ رکھا لاہور ہی میں دیر تک دربدر پھرتا رہا۔ جوان لڑکی ساتھ تھی، گویا ایک پہاڑ کا پہاڑ اسکے سر پر کھڑا تھا۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ اس غریب نے کسطرح ڈیڑھ برس گزارا۔
بیوی اور بڑی لڑکی کا غم وہ بھول چکا تھا۔ قریب تھا کہ وہ کوئی خطرناک قدم اٹھائے کہ اسے ریاست پٹیالہ کے ایک بڑے افسر مل گئے جو اسکے بڑے مہربان تھے۔ اس نے انکو اپنی حالت زار الف سے لیکر ے تک کہہ سنائی ۔ آدمی رحمدل تھا۔ اسکو بڑی دقتوں کیبعد لاہور کے ایک عارضی دفتر میں اچھی ملازمت مل گئی تھی۔ چنانچہ انہوں نے دوسرے ہی روز اسکو چالیس روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا اور ایک چھوٹا سا کوارٹر بھی رہائش کیلئے دلوا دیا۔
mitti ki handi
اللہ رکھا نے خدا کا شکر ادا کیا جس نے اسکی مشکلات دور کیں۔ اب وہ آرام سے سانس لے سکتا تھا اور مستقبل کے متعلق اطمینان سے سوچ سکتا تھا۔ صغریٰ بڑے سلیقے والی سگھڑ لڑکی تھی۔ سارا دن گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی۔ ادھر ادھر سے لکڑیاں چن کے لاتی۔ چوہلا سلگاتی اور مٹی کی ہنڈیا میں ہر روز اتنا سالن پکاتی جو دو وقت کیلئے پورا ہو جائے۔ آٹا گوندھتی، پاس ہی تنور تھا، وہاں جا کر روٹیاں لگوا لیتی۔
تنہائی میں آدمی کیا کچھ نہیں سوچتا۔ طرح طرح کے خیالات آتے تھے۔ صغریٰ عام طور پر دن میں تنہا ہتی تھی اور اپنی بہن اور ماں کو یاد کر کے آنسو بہاتی رہتی تھی، پر جب باپ آتا تو وہ اپنی آنکھوں کے سارے آنسو خشک کر لیتی تھی تاکہ اسکے زخم ہرے نہ ہوں لیکن وہ اتنا جانتی تھی کہ اسکا باپ اندر ہی اندر گھلا جا رہا ہے۔ اسکا دل ہر وقت روتا رہتا ہے مگر وہ کسی سے کہتا نہیں۔ صغریٰ سے بھی اس نے کبھی اسکی ماں اور بہن کا ذکر نہیں کیا تھا۔
اندگی افتاں و خیزاں گزر رہی تھی۔ ادھر گوجرانوالہ میں اللہ دتا اپنے بھائی کے مقابلے میں کس قدر خوش حال تھا کیونکہ اسے بھی ملازمت مل گئی تھی اور زینب بھی تھوڑا بہت سلائی کا کام کر لیتی تھی۔ مل ملا کے کوئی سو روپے ماہوار ہو جاتے تھے جو تینوں کیلئے بہت کافی تھے۔
مکان چھوٹا تھا مگر ٹھیک تھا۔ اوپر کی منزل میں طفیل رہتا تھا، نچلی منزل میں زینب اور اسکا باپ۔ دونوں ایکدوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اللہ دتا اسے زیادہ کام نہیں کرنے دیتا تھا چنانچہ منہ اندھیرے اٹھ کر وہ صحن میں جھاڑو دیکر چولہا سلگا دیتا تھا کہ زینب کا کام کچھ ہلکا ہو جائے۔ وقت ملتا تو وہ دو تین گھڑے بھر کر گھڑونچی پر رکھ دیتا تھا۔
زینب نے اپنے شہید خاوند کو کبی یاد نہیں کیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اسکی زندگی میں کبھی تھا ہی نہیں۔ وہ خوش تھی۔ اپنے باپ کیساتھ بہت خوش تھی۔ بعض اوقات وہ اس سے لپٹ جاتی تھی۔ طفیل کے سامنے بھی، اور اسکو خوب چومتی تھی۔
صغریٰ اپنے باپ سے ایسے چہل نہیں کرتی تھی اگر ممکن ہوتا تو وہ اس سے پردہ کرتی۔ اس لیے نہیں کہ وہ کوئی نامحرم تھا۔ نہیں۔ صرف احترام کیلئے، اسکے دل سے کئی دفعہ یہ دعا اٹھتی تھی۔ یاپروردگار، میرا باپ میرا جنازہ اٹھائے۔
بعض اوقات کئی دعائیں الٹی ثابت ہوتی ہیں جو خدا کو منظور تھا، وہی ہونا تھا۔غریب صغریٰ کے سر پر غم و اندوہ کا ایک پہاڑ ٹوٹنا تھا۔
جون کے مہینے دوپہر کو دفتر کے کسی کام پر جاتے ہوئے تپتی ہوئی سڑک پر اللہ رکھا کو ایسی لو لگی کہ بیہوش ہو کر گر پڑا۔ لوگوں نے اٹھایا، ہسپتال پہنچایا مگر دوا دارو نے کوئی کام نہ کیا۔
صغریٰ باپ کی موت کے صدمے سے نیم پاگل ہو گئی۔ اس نے قریب قریب اپنے آدھے بال نوچ ڈالے۔ ہمسائیوں نے بہت دم دلاسا دیا مگر یہ کارگر کیسے ہوتا۔ وہ تو ایسی کشتی کے مانند تھی، جس کا بادبان ہو نہ کوئی پتوار اور بیچ منجدھار کے آن پھنسی ہو۔
dead body
پٹیالہ کے وہ افسر جنہوں نے مرحوم اللہ رکھا کو ملازمت دلوائی تھی، فرشتہ رحمت ثابت ہوئے۔ انکو جب اطلاع ملی تو دوڑے آئے۔ سب سے پہلے انہوں نے یہ کام کیا کہ صغریٰ کو موٹر میں بٹھا کر گھر چھوڑ آئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ وہ اس کا خیال رکھے۔ پھر ہسپتال جا کر انہوں نے اللہ رکھا کے غسل وغیرہ کا وہیں انتظام کیا اور دفتر والوں سے کہا کہ وہ اسکو دفنا آئیں۔
اللہ دتا کو اپنے بھائی کے انتقال کی خبر بڑی دیر کیبعد ملی، بہرحال وہ لاہور آیا اور پوچھتا پاچھتا وہاں پہنچ گیا جہاں صغریٰ تھی۔ اس نے اپنی بھتیجی کو بہت دم دلاسا دیا، بہلایا، سینے کیساتھ لگایا، پیار کیا، دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا۔ بہادر بننے کو کہا مگر صغریٰ کے پھٹے ہوئے دل پر ان تمام باتوں کا کیا اثر ہوتا۔ غریب خاموش اپنے آنسو دوپٹے میں خشک کرتی رہی۔
اللہ دتا نے افسر صاحب سے آخر میں کہا، میں آپکا بہت شکرگزار ہوں۔ میری گردن آپکے احسانوں تلے ہمیشہ جھکی رہیگی۔ مرحوم کی تجہیزوتکفین کا آپ نے بندوبست کیا۔ پھر یہ بچی جو بالکل بے آسرا رہ گئی تھی اسکو آپ نے اپنے گھر میں جگہ دی۔ خدا آپکو اسکا اجر دے۔ اب میں اسے اپنے ساتھ لیے جاتا ہوں۔ میرے بھائی کی بڑی قیمتی نشانی ہے۔
افسر صاحب نے کہا، ٹھیک ہے، لیکن تم اسے کچھ دیر اور یہاں رہنے دو۔ طبیعت سنبھل جائے تو لے جانا۔
اللہ دتا نے کہا، حضور میں نے ارادہ کیا ہے کہ اسکی شادی اپنے لڑکے سے کرونگا اور بہت جلد۔
افسر صاحب بہت خوش ہوئے۔ بڑا نیک ارادہ ہے لیکن اس صورت میں جب کہ تم اسکی شادی اپنے لڑکے سے کرنیوالے ہو اسکا اس گھر میں رہنا مناسب نہیں۔ تم شادی کا بندوبست کرو، مجھے تاریخ سے مطلع کر دینا۔ خدا کے فضل و کرم سے سب ٹھیک ہو جائیگا۔
بات درست تھی۔ اللہ دتا واپس گوجرانوالہ چلا گیا۔ زینت اسکی غیر موجودگی میں بہت اداس ہو گئی۔ جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اس سے لپٹ گئی اور کہنے لگی کہ اس نے اتنی دیر کیوں لگائی۔
اللہ دتا نے پیار سے اسے ایکطرف ہٹایا، ارے بابا، آنا جانا کیا ہے، قبر پر فاتح پڑھنی تھی۔ صغریٰ سے ملنا تھا، اسے یہاں لانا تھا۔
زینت نامعلوم کیا سوچنے لگی، صغریٰ کو یہاں لانا تھا، ایک دم چونک کر، ہاں صغریٰ کو یہاں لانا تھا۔ پر وہ کہاں ہے؟
وہیں ہے۔ پٹیالے کے ایک بڑے نیک دل افسر ہیں، انکے پاس ہے۔ انہوں نے کہا جب تم اسکی شادی کا بندوبست کر لو گے تو لے جانا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے بیڑی سلگائی۔
زینب نے بڑی دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔ اسکی شادی کا بندوبست کر رہے ہو۔ کوئی لڑکا ہے تمہاری نظر میں؟
اللہ دتا نے زور کا کش لیا۔ ارے بھئی اپنا طفیل۔ میرے بڑے بھائی کی صرف ایک ہی نشانی تو ہے۔ میں اسے کیا غیروں کے حوالے کر دونگا۔
زینب نے ٹھنڈی سانس بھری۔ تو صغریٰ کی شادی تم طفیل سے کرو گے؟
اللہ دتا نے جواب دیا، ہاں، کیا تمہیں کوئی اعتراض ہے؟
زینب نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا، ہاں اور تم جانتے ہو، کیوں ہے؟ یہ شادی ہرگز نہیں ہو گی۔
اللہ دتا مسکرایا۔ زینب کی تھوڑی پکڑ کر اس نے اسکا منہ موچا۔ پگلی ہر بات پر شک کرتی ہے اور باتوں کو چھوڑ، آخر میں تمہارا باپ ہوں۔
زینب نے بڑے زور سے ہونہہ کی باپ، اور اندر کمرے میں جاکر رونے لگی۔
اللہ دتا اسکے پیچھے گیا اور اسکے پچکارنے لگا۔
دن گزرتے گئے۔ طفیل فرمانبردار لڑکا تھا۔ جب اسکے باپ نے صغریٰ کی بات کی تو وہ فوراً مان گیا۔ آخر تین چار مہینے کیبعد تاریخ مقرر ہو گئی۔ افسر صاحب نے فوراً صغریٰ کیلئے ایک بڑا اچھا جوڑا سلوایا جو اسے شادی کے دن پہننا تھا۔ ایک انگوٹھی بھی لے دی۔ پھر اس نے محلے والوں سے اپیل کی کہ وہ ایک یتیم لڑکی کی شادی کے لیے جو بالکل بے سہارا ہے، حسب توفیق کچھ دیں۔
صغریٰ کو قریب قریب سبھی جانتے تھے اور اسکے حالات سے واقف تھے چنانچہ انہوں نے مل ملا کر اسکے لیے بڑا اچھا جہیز تیار کر دیا۔
mehndi wale hath
صغریٰ دلہن بنی تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ تمام دکھ جمع ہو گئے ہیں اور اسکو پیس رہے ہیں۔ بہرحال وہ اپنے سسرال پہنچی جہاں اسکا استقبال زینب نے کیا۔ کچھ اسطرح کہ صغریٰ کو اسی وقت معلوم ہو گیا کہ وہ اسکے ساتھ بہنوں کا سا سلوک نہیں کریگی بلکہ ساس کیطرح پیش آئیگی۔
صغریٰ کا اندیشہ درست تھا۔ اسکے ہاتھوں کی مہندی ابھی اچھی طرح اترنے بھی نہیں پائی تھی کہ زینب نے اس سے نوکروں کے کام لینے شروع کر دیے۔ جھاڑو دیتی، برتن وہ مانجھتی، چولہا وہ جونکتی، پانی وہ بھرتی، یہ سب کام وہ بڑی پھرتی اور بڑے سلیقے سے کرتی لیکن پھر بھی زینب خوش نہ ہوتی۔ بات بات پر اسکو ڈانٹتی ڈپٹتی، جھڑکتی رہتی۔
صغریٰ نے دل میں تہیہ کر لیا تھا وہ یہ سب کچھ برداشت کریگی اور کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیگی، کیونکہ اگر اسے یہاں سے دھکا مل گیا تو اسکے لیے اور کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
اللہ دتا کہ سلوک البتہ اس سے برا نہیں تھا۔ زینب کی نظر بچا کر کبھی کبھی وہ اسکو پیار کر لیتا تھا اور کہتا تھا کہ وہ کچھ فکر نہ کرے سب ٹھیک ہو جائیگا۔
صغریٰ کو اس سے بہت ڈھارس ہوتی۔ زینب جب کبھی اپنی کسی سہیلی کے ہاں جاتی اور اللہ دتا اتفاق سے گھر پر ہوتا تو اس سے دل کھول کر پیار کرتا۔ اس سے بڑی میٹھی میٹھی باتیں کرتا۔ کام میں اسکا ہاتھ بٹاتا۔ اسکے واسطے اس نے جو چیزیں چھپا کر رکھی ہوتی تھیں، دیتا اور سینے کیساتھ لگا کر اس سے کہتا، صغریٰ تم بڑی پیاری ہو۔
صغریٰ جھینپ جاتی۔ دراصل وہ اتنے پرجوش پیار کی عادی نہیں تھی۔ اسکا مرحوم باپ اگر کبھی اسے پیار کرنا چاہتا تھا تو صرف اسکے سر پر ہاتھ پھیر دیا کرتا تھا یا اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا دیا کرتا تھا، خدا میری بیٹی کے نصیب اچھے کرے۔
صغریٰ طفیل سے بہت خوش تھی۔ وہ بڑا اچھا خاوند تھا۔ جو کماتا تھا اسکے حوالے کر دیتا تھا مگر صغریٰ زینب کو دیدیتی تھی۔ اسلیے کہ وہ اسکے قہر و غضب سے ڈرتی تھی۔
طفیل سے صغریٰ نے زینب کی بدسلوکی اور اسکے ساس اسیے برتاؤ کا کبھی ذکر نہیں کیا تھا۔ وہ صلح کل تھی، وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکے باعث گھر میں کسی قسم کی بدمزگی پیدا ہو۔
اور بھی کئی باتیں تھیں جو وہ طفیل سے کہنا چاہتی تھی کہہ دیتی مگر اسے ڈر تھا کہ طوفان برپا ہو جائیگا اور تو اس میں سے بچ کر نکل جائینگے مگر وہ اکیلی اس میں پھنس جائیگی، اور اسکی تاب نہ لا سکے گی۔
یہ خاص باتیں اسے چند روز ہوئے معلوم ہوئی تھیں اور وہ کانپ کانپ گئی تھی۔ اب اللہ دتا اسے پیار کرنا چاہتا تو وہ الگ ہٹ جاتی، یا دوڑ کر اوپر چلی جاتی جہاں وہ اور طفیل رہتے تھے۔
طفیل کو جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی۔ اللہ دتا کو اتوار کو۔ زینب کہیں باہر گئی ہوتی تو وہ جلدی جلدی کام کاج ختم کر کے اوپر چلی جاتی۔ اگر اتفاق سے اتوار کو زینب کہیں باہر گئی ہوتی تو صغریٰ کی جان پر بنی رہتی۔ ڈر کے مارے اس سے کام نہ ہوتا، لیکن زینت کا خیال آتا تو اسے مجبوراً کانپتے ہاتھوں اور دھڑکتے دل سے طوعا و کرہا سب کچھ کرنا پڑتا۔ اگر وہ کھانا وقت پر نہ پکائے تو اسکا خاوند بھوکا رہے کیونکہ وہ ٹھیک بارہ بجے اپنا شاگرد روٹی کیلئے بھیج دیتا تھا۔
ایک دن اتوار کو جب کہ زینب گھر پر نہیں تھی اور وہ آٹا گوند رہی تھی، اللہ دتا پیچھے سے دبے پاؤں آیا اور کھلنڈرے انداز میں اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے۔ وہ تڑپ کر اٹھی مگر اللہ دتا نے اسے اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا۔
صغریٰ نے چیخنا شروع کر دیا مگر وہاں سننے والا کون تھا۔ اللہ دتا نے کہا، شور مت مچاؤ، یہ سب بے فائدہ ہے چلو آؤ۔
وہ چاہتا تھا کہ صغریٰ کو اٹھا کر اندر لے جائے، کمزور تھی مگر خدا جانے اس میں کہاں سے اتنی طاقت آ گئی کہ اللہ دتا کی گرفت سے نکل گئی اور ہانپتی کانپتی اوپر پہنچ گئی۔ کمرے میں داخل ہو کر اس نے اندر سے کنڈی چڑھا دی۔
تھوڑی دیر کیبعد زینب آ گئی۔ اللہ دتا کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ اندر کمرے میں لیٹ کر اس نے زینب کو پکارا۔ وہ آئی تو اس سے کہا۔ ادھر آؤ میری ٹانگیں دباؤ۔ زینب اچک کر پلنگ پر بیٹھ گئی اور اپنے باپ کی ٹانگیں دبانے لگی، تھوڑی دیر کیبعد دونوں کے سانس تیز تیز چلنے لگے۔
زینب نے اللہ دتا سے پوچھا۔ کیا بات ہے؟ آج تم اپنے آپ میں نہیں ہو۔
اللہ دتا نے سوچا زینب سے چھپانا فضول ہے، چنانچہ اس نے سارا ماجرا بیان کر دیا۔ زینب آگ بگولہ ہو گئی۔ کیا ایک کافی نہیں تھی۔ تمہیں تو شرم نہ آئی، پر اب تو آنی چاہیے تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ ایسا ہو گا، اسی لیے میں شادی کیخلاف تھی۔ اب سن لو کہ صغریٰ اس گھر میں نہیں رہیگی۔
اللہ دتا نے بڑے مسکین لیجے میں پوچھا کیوں؟
زینب نے کھلے طور پر کہا، میں اس گھر میں اپنی سوت دیکھنا نہیں چاہتی۔
اللہ دتا کا حلق خشک ہو گیا۔ اسکے منہ سے کوئی بات نکل نہ سکی۔
زینب باہر نکلی تو اس نے دیکھا کہ صغریٰ صحن میں جھاڑو دے رہی ہے۔ چاہتی تھی کہ اس سے کچھ کہے مگر خاموش رہی۔
اس واقعے کو دو مہینے گزر گئے، صغریٰ نے محسوس کیا کہ طفیل اس سے کھچا کھچا رہتا تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر اسکو شک کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ آخر ایک دن آیا کہ اس نے طلاق نامہ اسکے ہاتھ میں دیا اور گھر سے باہر نکال دیا۔