ایک وقت تھا جب ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔انگریز اپنی عیاری و مکاری “پھوٹ ڈالو راج کرو” کی پالیسی پر گامزن تھا اور یہاں کے عوام و خواص اس کے شکار تھے۔اس کے باوجود غلامی کو محسوس کیا جاتا تھا نیز غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے اور ریاست کو آزاد کرانے کے حوصلہ بلند تھے۔اس سعی و جہد میں نہ صرف ملک کے دیگر مذاہب کے لوگ سرگرم عمل تھے بلکہ مسلمان بھی اپنے سروں سے غلامی کے طوق اتار نے اور ملک کو آزاد کرانے میں ہمہ تن مصروف تھے۔پھر ایک وقت آیا کہ ہند سے انگریز کوچ کر گئے۔
ملک آزاد ہو گیا لیکن ساتھ ہی حادثہ عظیم بھی برپا ہوا۔مسلمانوں کی قوت کو پارہ پارہ کیا گیا اور ملک تقسیم ہو گیا۔جس طرح انگریز آزادی سے قبل عیاریوں میں مصروف رہے اسی طرح آزادی کے وقت اور اس سے ذرا قبل ملک کا باشعور عیار طبقہ مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے درپے ہو گیا۔ منافرت پر مبنی سیاست کو فروغ دیا گیا اور عظیم قربانیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے مسلمانوں کی قوت کو منتشر کرنے کی ہر ممکن سعی و جہد کی گئی۔نتیجہ پہلے پاکستان اور بعد میں بنگلہ دیش وجود میں آئے اور ان دونوں ہی ممالک کو بنانے اور قائم کرنے میں اُسی باشعور عیار منافرت پر مبنی سیاست کرنے والا طبقہ سرگرم رہا جو آج بھی مصروفِ عمل ہے۔
مسائل جن سے کل دو چار تھے:ہندوستانی مسلمان جن مسائل سے دو چار ہوئے ان میں آزاد ہند کے مسلمانوں نے ہجرت کو غنیمت سمجھا۔پڑھا لکھا طبقہ اور شعور و صلاحیت کے مالک پاکستان میں پناہ گزیں ہوئے اس کے باوجود وہ ایک طویل عرصہ”مہاجر”کے نام پر ذلیل و خوارکیے گئے۔ان کو وہ حقوق نہیں دیے گئے جو ہندوستان میں آئے مہاجرین کے حصہ میں آئے۔مہاجر حقوق کی بازیابی اور اسلام سے اپنے تعلق کو اُس اسلامی ملک میں حاصل کرنے کی سعی و جہد کرتے رہے جس کی بنا ہی اسلام پر پڑی تھی۔دوسری جانب ہند میں وہ متصل علاقے اور ریاستیں جو مسلم اکثریت پر مبنی تھیں ،مسلمانوں کی ہجرت کے نتیجہ میں ، بقیہ اکثریت نے مسلمانوں کا دل کھول کر قتل عام کیا اور ہر سطح پر اسلام ،اسلامی تشخص،اسلامی آثار اور ساتھ ہی مسلمانوںکو جڑ سے اکھاڑنے کی منظم سعی و جہد کی گئی۔
پھر ان تمام علاقوں میں جہاں مسلمان کسی بھی درجہ پسماندگی کے باوجود زندہ نظر آتے تھے ان کو باقاعدہ اور ایک منصوبہ کے تحت سلسلہ وار فسادات کی آگ میں جھلسایا گیا نیز ان کے جذبات سے کھوب کھلواڑ کی گئی۔اس کے بر خلاف اسلام کے نام پر قائم کردہ ملک میں نہ صرف امریکہ اور اس کی فکر حاوی ہو گئی بلکہ عام و خواص نے مادہ پرستی کی چادر کو اوڑھا بچھونا بنا لیا، ساتھ ہی اُس نعمت ِ عظیم کو پس پشت ڈال دیا جو ان کو ملی تھی۔مغربی تہذیب عام ہوچلی اور اسلام ، اسلام پسند جماعتوں اور افراد کو ہر ممکن زیر کرنے کی وہاں بھی منظم کوششیں شروع ہو گئیں۔امریکہ جو اپنی چالوں میں بہت ہوشیار باش کہلایا وہ اپنی چالوں میں بدمست رہا۔
پہلے اُس نے مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کی اور بعد میں مسلم ممالک پر راست یا بلاواسطہ ناجائز قبضے کیے اور ان جذبات سے کھیلا گیا جن کو پروان چڑھانے میں سب سے زیادہ اگر کسی کا حصہ ہوگا تو وہ ناپاک عزائم رکھنے والے ہی کا تھا۔نتیجہ یہ کہ مادیت میں مدہوش مسلمانوں نے مسلمانوں ہی کے جان و مال سے کھیلنا شروع کر دیا۔اور یہاں ملک عزیز ہند میں چہار طرفہ مسائل میں گھرنے کے باوجودمسلمان اپنے آپ کو قدرے بہتر کو محسوس کرنے لگے۔شاید اسی لیے کہ اس وقت جبکہ مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے انھوں نے ایک جرت مند فیصلہ کیا تھا کہ وہ رہیں گے تو اسی ملک ہند میں رہیں گے،، مصائب اور آلام سے دوچار ہوں گے اس کے باوجود نعمت ِاسلام جو ان کو ملی ہے ۔
Muslims in india
ضائع نہ ہونے دیں گے۔ملک عزیز ہند میں اسلام اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دیں گے اوران لوگوں کے درمیان اسلامی تعلیمات کو عام کریں گے جو درحقیقت اس کے مستحق ہیں۔اس طرح وہ اللہ اور اس کے بندوں کا حق ادا کرتے ہوئے ملک کو امن وامان کا گہوارہ بنانے میں اپنی جانب سے کسی بھی طرح کی کسر روانہ رکھیں گے۔
یہ ہمارا موجودہ دور:گزشتہ دو دہائیوں میں ہندوستانی مسلمانوں نے ایک کے بعد ایک پریشانیوں کا سامنا کیا ہے ۔جن میں خصوصیت کے ساتھ بابری مسجد کی شہادت، گجرات فسادات قابل ذکر ہیں اور اب یہ چند سالوں سے دہشت گردی کے واقعات اور اِس پس منظر میں بڑے پیمانے پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں! یہ وہ واقعات ہیں جنھوں نے ایک طرف مسلمانوں کو اس ملک میں خوف و ہراس میں مبتلا کیا ہے تو وہیں دوسری طرف وہ عدم تحفظ کا شکارہوئے ہیں۔
اس ملک میں گزشتہ پینسٹھ برس سے مسلمان پسماندگی اور امتیازی سلوک کا شکار رہے ہیں جس کی شہادت حکومت کی قائم کردہ سچر کمیٹی رپورٹ پیش کرتی ہے۔یہ وہ رپورٹ تھی جس نے اہل ملک اور خود مسلمانوں کی آنکھوں پر پڑی پٹی کھول دی۔بڑے پیمانہ پر اس پر تبصرے ،سیمنار اور مذاکرے ہوئے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے کیا کچھ ہوا؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے ۔خصوصاً آج کے حالات میں جہاں ایک طرف بنگلہ دیشی کے نام پر آسام میں مسلمانوں کے جان و مال سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔اور افسوس کہ یہ سب اسی حکومت کی پشت پناہی میں ہو رہا ہے جس نے خود سچر کمیٹی کی رپورٹ پر عمل درآمد کی بات کہی تھی۔رپورٹ میںبتایا گیا تھا کہ ملک میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ مزید بتایا کہ مسلمان تعلیمی، سماجی اور اقتصادی طور پربہت زیادہ پچھڑ چکے ہیں۔
سچر کمیٹی کی ہی رپورٹ نے پہلی بار اس بات کا بھی خلاصہ کیا تھا کہ ملک کی جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب سے بہت زیادہ ہے ۔ یعنی پورے ملک میں مسلمانوں کی آبادی جہاں تقریباً 12 فیصد ہے، وہیں جیلوں میں ان کی آبادی تقریباً 22 فیصد ہے۔اس کے باوجود ملک میں قیاس پر مبنی،بلاثبوٹ اور فرضی الزامات کے تحت مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔یہ سب کیا ہے؟ اس کا جواب کون دے گا؟ کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اس پر روک لگائے؟ مزید برآں آج صورتحال یہ ہے کہ سامراجی ممالک کی نقالی کرتے ہوئے ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کو دہشت گردی کے نام پر حراساں کیا جا رہا ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو اس قدر خوف زدہ کر دیا جائے کہ وہ اپنا اسلامی تشخص ہی کھو ڈالیں۔یہ وہ بڑے مسائل ہیں جن سے آج ملک عزیز ہند میں مسلم امہ نبرد آزما ہے۔
خوش آئند پہلوبھی ہیں!مسائل کے باوجود چند خوش آئند پہلو بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔جن میں سب سے اہم اور خاص مسلم امہ کو امت مسلمہ ہونے کا شعور کسی نہ کسی درجہ پروان چڑھناہے۔ یہ وہی احساس ہے جس کی ترجمانی قرآن حکیم میں اس طرح کی گئی ہے:”اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو”(آل عمران:١١٠)۔ اور یہی وہ نکتۂ آغاز ہے جس کے نتیجہ میں نہ صرف مسلمان بلکہ محرمیوں کے شکار بقیہ اہل ملک بھی مسقتبل قریب میں انشا اللہ نجات پائیں گے۔پھر نظر ڈالیںاُن گائوں اور دیہاتوں کے حالات جہاں مسلمانوں کوبہ زور قوت مرتد اور مشرک بنا دیا گیا تھا تو وہ بھی آج کچھ بہتر نظر آتے ہیں ۔آج اُن مقامات پر روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔مسلمانوں کے بچے قرآن پڑھ رہے ہیں،مدرسہ اور اسکول جا رہے ہیں اور بذات خود ان کے اندر مسلمان ہونے کی حمیت و غیرت جاگ اٹھی ہے۔ساتھ ہی وہ قوتیں اور طاقتیںجو کل تک مسلمانوں کو سیاسی میدانوں میں زیر کیے ہوئے تھیں ان کوآج حسرتوں میں ملوث دیکھا جا رہا ہے، اندورنی طور پر وہ خود کشمکش و انتشارکا شکار ہیں۔
جس کے نتیجہ میں ان کے سینہ اندر سے پھٹے جا رہے ہیں۔اس کے برخلاف ملک عزیز ہند میں مسلمانوں کے درمیان ایک بار پھر سطحی صحیح لیکن سیاسی شعور بیدار ہو رہا ہے۔ وہ اپنی قوت اور طاقت کو سمجھنے لگے ہیں اور ان عَلم ، بینروںاور جھنڈوں کو اٹھانے سے گریز کر رہے ہیں جن کا بوجھ وہ گزشتہ پینسٹھ سال سے اٹھاتے آئے ہیں۔ملک کی سیاسی،معاشی، سماجی، معاشرتی اور تمدنی صورتحال بد سے بدتر کی جانب گامزن ہے اور تجزیہ نگاروں کو اسلامی تعلیمات و نظام کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نظر نہیں آتا۔ایسی صورت میں اسلامی تعلیمات و نظام کی راہیں پروان چڑھ رہی ہیں۔تعلیمی، معاشرتی اور تمدنی بنیادوں پر مسلم معاشرہ پروان چڑھ رہا ہے اس کے برخلاف دقیانوسی معاشرہ جوباطل عقائد اور ابہام پر مبنی ہے زیر ہوا چاہتا ہے۔اسلام کا خاندانی نظام مستحکم ہو رہا ہے بصورت دیگر نظام ہائے باطل کا خاندانی نظام مغرب کی اندھی تقلیدکے نتیجہ میںکھوکھلا ہوتا جا رہا ہے۔9/11اور اس طرح کے دیگر واقعات نے نہ صرف بین القوامی سطح پر بلکہ ملک عزیز ہند میں بھی اسلام کی دعوت ، اس کو سمجھنے اور اس کو اختیار کرنے کے مواقع زیادہ کر دیے ہیں۔ مسلم امہ اسلام کے اجتماعی نظام سے ہم آہنگ ہو رہی ہے اور مسلکی اختلافات کم ہوتے جا رہے ہیں۔بین القوامی سطح پر اسلام کا سیاسی نظام کسی حد تک مستحکم ہونے کے نتیجہ میںامت مسلمہ کے فکر و عمل میں بھی مثبت ریوں کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ درحقیقت غلامی کے طوق ،جہالت اور غربت و افلاس نہ صرف جسموں پر بلکہ اس سے کہیں بڑھ کرفکر و نظر پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
آج نہ صرف دنیا کی بلکہ ملک عزیز ہند کی صورتحال بھی تبدیل ہوا چاہتیہے اور توقع کی جاتی ہے کہ اللہ رب رحیم کی رحمتیں مستقبل قریب میں مزید نازل ہوں گی(انشااللہ)۔ شرط بس وہی ہے ،کہا کہ:”نہ تم ظلم کرو ، نہ تم پر ظلم کیا جائے”(البقرہ:٢٧٩)۔اور ساتھ ہی یہ قرآنی ہدایت بھی جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ اْن لوگوں کو ہدایت بخشے جنہوں نے نعمتِ ایمان پا لینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا حالانکہ وہ خود اس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسولۖ حق پر ہے اور ان کے پاس روشن نشانیاں بھی آچکی ہیں۔ اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ ان کے ظلم کا صحیح بدلہ یہی ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی پھٹکار ہے ، اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ا ن کی سزا میں تخفیف ہو گی اور نہ انھیں مہلت دی جائے گی “(آل عمران:٧٦-٧٨)۔پس یہ دو ہدایتیں اہل ایمان کے لیے کافی ہیں ان حالات میں جن سے وہ آج دو چار ہیں۔
ہدایات کی روشنی میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حق و انصاف نہ صرف خود حاصل کریں بلکہ دوسروں کے بھی کام آئیں۔ اسلام جو انسانیت کا بہی خواہ ہے اس کو مکمل طور پر اختیار کریں اور یاد رکھیں اس عمل کے نتیجہ میں وہ اللہ سے مزید قریب ہو جائیں گے۔اللہ کی پشت پناہی ان کو نصیب ہوگی اورجس کی پشت پر اللہ ہو اس سے بڑھ کر کون طاقت ور اورخوش قسمت ہو سکتا ہے! ہدایت کی کہ:”پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں ، اور وہ تمہیں چھوڑ دے ، تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرسکتا ہوِ؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے”(آل عمران:١٥٩)۔لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اسلام کے پیغام کو بے کم و کاست ملک عزیز ہند میںہر سطح پر قائم کردیںساتھ ہی اُس تنبیہ کو یاد رکھیں جس میں انکار نعمت کے نتیجہ میں کہا کہ:” اور وہ تمہیں چھوڑ دے ، تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرسکتا ہوِ؟ “(آل عمران:١٦٠)۔قرآن کریم پر یقین رکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ قیام ِ عدل کے لیے ،حق و انصاف کے لیے اورامن و امان کے لیے اٹھ کھڑے ہو ں اور ثابت کردیں کہ وہ اسلامی تعلیمات پر نہ صرف قول سے بلکہ عمل سے بھی یقین کامل رکھتے ہیں۔