قومی سانحہ پر اب بھی فضا سوگوار ہے، کراچی کے گھر گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے، لواحقین اب بھی پیاروں کی تلاش میں ہیں۔
چند روز پہلے جس فیکٹری میں زندگی رواں دواں تھی آج وہاں دھویں سے اٹی سیاہ دیواریں اور موت کا سکوت ہے۔ شعلے انسانی جسموں سے لپٹے تو کئی گھروں کو بھی بھسم کر دیا۔ پیٹ کی آگ بجھانے والے اندر ایندھن بن کر جلتے رہے۔ آس اور امید کا دامن تھامے تیسرے روز بھی پیاروں کی تلاش میں لوگ فیکٹری کے باہر جمع ہیں۔ سانحہ کی جگہ پر امدادی کارروائیاں معطل دیکھ کر لوگ مشتعل ہو گئے۔ غم و غصے میں بپھرے لوگوں نے حکومت کے خلاف نعرہ بازی کی اور اپنی مدد آپ کے تحت اپنوں کی تلاش شروع کر دی تاہم چودہ گھنٹے معطل رہنے کے بعد آپریشن دوبارہ شروع کر دیا گیا اور تہہ خانے سے پانی نکالا جا رہا ہے۔ ریسکیو حکام کے مطابق بالائی منزل کو کلئیر کر دیا گیا ہے۔ مجموعی طور دو سو نواسی لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔ ایدھی سرد خانے میں موجود اسی لاشوں کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی۔ قابل شناخت لاشوں کو ورثا کے حوالے کر دیا گیا ہے جن کی تدفین کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ دوسری جانب قومی سانحہ میں ناقابل شناخت لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد کی ہدایت پر کراچی میں ناقابل شناخت لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کے کیلئیعباسی شہید، سول اور جناح ہسپتال میں ڈی این اے کیمپوں نے کام شروع کر دیا گیا ہے جہاں لاشوں کے ورثا کو ڈی این اے کی بلامعاوضہ سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ فیکٹری میں جھلسنیوالوں کے ورثا دو دن سے اپنے پیاروں کی شناخت کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ڈی این اے کیمپس میں صبح سے رات گئیتک ڈی این اے ٹیسٹ کئے جائیں گئے۔ کیمپس کی نگرانی ای ڈی او ہیلتھ اور ہسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کررہے ہیں تاکہ کسی متاثرکو کوئی پریشانی نہ ہو۔ دس دن بعد رپورٹس آنے پر لاشیں ورثا کے حوالے کردی جائیں گی۔