اسلام آباد (جیوڈیسک) حکومت نے سوئس حکام کو خط لکھنے کیلئے رضامندگی ظاہر کردی۔ وزیراعظم نے خط لکھنے کا اختیار وزیرقانون کو دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے وزیر قانون کو سات دن میں خط کا مسودہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا جبکہ سماعت پچیس ستمبر تک ملتوی کردی گئی ہے۔سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیس کی کارروائی شروع ہوئی تو سب سے پہلے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف روسٹرم پرگئے اور اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایاکہ وہ معاملہ حل کرنے میں سنجیدہ ہیں اس لئے وزیر قانون کو کہہ دیا ہے کہ وہ این آر او پر ملک قیوم کا خط واپس لے لیں۔
وزیر اعظم نے مزید بتایا کہ خط سے متعلق وفاق کے تحفظات کو مدنظر رکھا جائے۔ وفاق کے تحفظات آصف علی زرداری کی صدارت کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے لئے اور صدر پاکستان کے لئے ہیں۔اگر عدالت تعاون کرے گی تو معاملہ سلجھ جائے گا۔وزیراعظم نے عدالت میں حاضری سے استثنی کی استدعا بھی کی اور بتایا کہ وزیر قانون ان کی طرف سے حاضر ہواکریں گے۔
وزیراعظم کے دلائل مکمل ہونے پرجسٹس آصف سعیدکھوسہ نے استفسار کیا کہ آپ نے وزیر قانون کوخط لکھنے کا اختیاردیا ، کیا یہ تحریری ہے جس پر وزیراعظم نے کہا کہ وہ تحریری طور پربھی اختیار دیں گے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ ملک قیوم کا خط غیر قانونی تھا،مقدمات پہلے کی سطح پر کھولے جائیں، جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے وزیراعظم سے کہاکہ بیس ستمبر تک خط کا مسودہ لے آئیں استثنی دے دیں گے۔
وزیر قانون نے خط کامسودہ تیارکرنے کے لئے ایک ماہ کی مہلت مانگتے ہوئے کہا کہ وفاق کے کچھ تحفظات ہیں وزیر اعظم کو استثنی دیا جائے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس میں کہاکہ وزیر اعظم کی کوششوں کو سراہتے ہیں کیونکہ وہ اس طویل تنازع کے حل کی جانب بڑھے۔وزیراعظم وزیر قانون کو تحریری اختیار دے کر جلد خط کا مسودہ بھی تیار کرائیں۔سوئس حکام کو خط کی ترسیل اور وصولی کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔ وزیراعظم نے موقع پر ہی وزیر قانون کو عدالت کے تمام احکامات پر عمل کرنے کی ہدایت بھی کی۔سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو مقدمے میں حاضری سے استثنی دیتے ہوئے توہین عدالت کیس کی سماعت پچیس ستمبر تک ملتوی کردی۔