مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام شمع بزم ہدایت پر لاکھوں سلام کتنا پیار کتنی انسیت اور کتنی عقیدت و محبت کا بحر بیکراں چھپا ہے اس جذبے میں جس جذبے کے تحت یہ شعر لکھا گیا ہے۔ اہل حق یوں ہی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کیا کرتے ہیں۔ کتنی دھوم ہے کتنی یگانگت اور محبت کا جوش و خروش ہے مدینے سے دف بجاتی لڑکیاں نکل آئیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آ رہے ہیں۔ کیسا والہانہ جذبہ شگفتگی ہے۔ بیکل اتساہی عرض کرتے ہیں۔ مہک اٹھی دیوار سے در تک نور بھری انگنائی ہے آج مرے گھر عید ہے یارو یاد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آئی ہے
یہ سب محبت کی باتیں ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کریگا اللہ عزوجل نے اپنی محبت کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پر منحصر کر رکھا ہے یعنی جسکو جس قدر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہو گی سمجھو اتنی ہی اسکو اللہ عزوجل سے محبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فنا فی اللہ سے پہلے فنا فی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قید ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی اور اللہ عزوجل سے محبت۔ اللہ وتبارک تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے معیار محبت کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے منسلک کر دیا ہے۔
ارشاد باری ہے۔ ترجمہ: اللہ سے اگر دوستی چاہتے ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرو اللہ عزوجل تمہیں دوست بنا لیگا۔ بغیر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوستی کیے،رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاہے، اللہ عزوجل سے دوستی ممکن ہی نہیں اور جو جس کی پیروی کرتا ہے اس سے محبت بھی کرتا ہے۔ اسکو دوست بھی رکھتا ہے اور جو جس کو دوست رکھتا ہے جس سے محبت کرتا ہے اسے برا نہیں کہتا۔
jaan bhi kurban
رسول دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اپنی امت کو محبت کا طور طریقہ بتانے کیلئے یہ کہا تھا کہ اے عمررضی اللہ عنہ! جب تک لوگ مجھے اپنے ماں، باپ، بھائی، بہن، آل اولاد اور دنیا بھر کی ہر چیز سے زیادہ نہیں چاہینگے تب تک وہ کامل مومن نہیں ہو سکتے۔ (بخاری اول)
کیا اسوقت رسول کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ جب دنیا و مافیا ہر چیز سے زیادہ بندے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاہینگے تو پھر اللہ عزوجل کی محبت کیلئے دل کا کونسا گوشہ باقی رہا؟۔ معلوم یہ ہوا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہی اللہ عزوجل کی محبت ہے۔
جب بندہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ماں باپ آل اولاد اور دنیا کی ہر چیز سے زیادہ چاہیگا تو مطلب یہ ہوا کہ وہ بندہ اپنے اللہ کو اپنے ماں باپ ، آل اولاد اور دنیا بھر کی ہر شئے سے زیادہ چاہ رہا ہے۔ اس حقیقت کو صحابہ رضی اللہ عنہم نے سمجھ لیا تھا اور وہ تن من دھن سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نچھاور تھے۔
یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ اگر خداوند قدوس خود قرآن کی حفاظت کا ذمہ نہیں لے لیتا تو قرآن مجید میں بھی تبدیلی آ جاتی جسطرح یہود و نصاریٰ کے پیشواؤں نے توریت و زبور اور انجیل مقدس میں تحریف کر دیا۔ قرآن مجید میں ترجمے کی تحریف یہ ثابت کر رہی ہے کہ اگر ان باغیانِ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بس میں ہوتا تو ضرور قرآن مجید کی آئیتوں میں بھی یہ گھٹا بڑھا دیتے۔