نوشتہِ دیوار (عطاء اللہ شاہ بخاری کے یوم پیدائش 23 ستمبرکیلئے خصوصی مضمون)
Syed Ata Ullah Shah Bukhari
سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی پیدائش 23 ستمبر 1882کو گجرات کے علاقے ناگڑیاں شریف میں حافظ سید ضیاء الدین کے ہاں ہوئی ۔جو خود بھی ایک بڑے عالمِ دین تھے۔ایک دینی گھرانے میںپیدا ہونے والے عطاء اللہ شاہ بخاری نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے زیر نگرانی حاصل کی دس سال کی عمر میں حفظ قرآن کیا ۔ 22 سال کی عمر میں 1914 میں امرتسر تشریف لے گئے جہاں انہوں علوم کے بقیہ مدارج طے کئے۔اس کے بعد ضلع سہارن میں مدرسہ دیو بند سے منسلک ہو گئے۔وہ انگریزی زبان سے نفرت کرتے تھے ا ور اس کو غیر اسلامی قرار دیتے تھے ۔ اس نفرت کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے ہندوستان کے لوگوں کو بے پناہ تکالیف کا شکار بنا دیا تھا اور ہندوستان کے مسلمانوں کو تو تباہی کے گڑھے پر پہنچا دیا تھا۔تمام اسلامی مکاتب کو برباد کر دیا تھا۔جبکہ عطاء اللہ شاہ بخاری اسلامی علوم کی ترویج کے دل سے خواہاں تھے۔
انہوں نے اپنے کیریر کا آغاز امرتسر سے کیا جہاں ایک چھوٹی سی مسجد میں دینی علوم پڑھانانا شروع کیا۔ان کی تقاریر میں اس قدر اثر تھا کہ لوگ دور دراز علاقوں سے ان کا خطاب سنے کیلئے آتے تھے اور تقریر کے دوران لوگوں کی خاموشی سحر انگیز ہوا کرتی تھی،جس میں بے حد اثرپذیری بھی تھی۔ان کی قراء ت میں بلا کا سوز اور خوبصورتی تھی۔وہ یہاں 40 سال تک درس قرآن دیتے رہے اورقرآنی علوم پڑھاتے رہے۔ان کے تعلقات سوشلسوٹ اور کمیونسٹ نظریات کے لوگوں سے رہے مگر کبھی بھی اسلامی اقدار پر ان کو حاوی نہیں ہونے دیا اور نہ ہی ان کے نظریئے کو کبھی تسلیم کی،ہمیشہ ان کی رہنمائی کا منبع قرآن پاک ہی رہا۔مٹریلزم یا سوشلزم نے انہیں کبھی بھی متاثر نہ کیا۔
1916میں انہوں نے اپنے مذہبی اور سیاسی سفر کا آغاز کیا تووہ عربی،فارسی اور سرائکی زبانوں میں پر مغز اور بہترین تقاریر کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت بر طانیہ کے خاتمہ کے ساتھ ہی ہندوستان کے لوگوں کی غربت و افلاس کا خاتمہ ہوجائے گا۔حکومت مخالف تقاریر کرنے پر انہیں قید و بند میں ڈال دیا گیا۔ اس دوران انہوں نے بخاری شریف کا گہرا مطالعہ جاری رکھا۔1919 کے جلیاں والا باغ کے واقعے سے وہ شدید متاثر تھے۔انہوں نے پہلا سیاسی اقدام 1921 میں اٹھایا جب انہوں کانگرس کے پلیٹ فارم سے کولکتہ میں لوگوں کو اپنی سحر انگیزتقریر سے متاثر کیا۔27 مارچ 1921 کوان کی انگریز کے خلاف جارحانہ تقریر کے نتیجے میں انہیں پھر گرفتار کر لیا گیا۔ اب وہ ان انڈین نیشنل کانگرس کے متحرک رکن کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔
نہرورپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے 29 دسمبر 1929میں کل ہند مجلس احرار اسلام کی بنیاد رکھ دی۔جس کو مجلس احرار کے مختصر نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔یہ ہندوستان کے سنی مسلمانوں کی تنظیم تھی جس کا بڑی حد تک تعلق مدرسہ دیوبند سے تھا۔ یہ جماعت انگریز دور حکومت میں ہی منظر عام پر آئی تھی۔ گوکہ کانگرس اور مسلم لیگ کی بنیادیں اس سے کئی سالوں پہلے رکھی جا چکی تھیں۔کہا جاتا ہے کہ مجلس احرار قائد اعظم کے مخالفین کی سپورٹر تھی۔یہ جماعت احمدیوں کی شدت سے مخالف رہی ہے جبکہ بعض احمدی مسلم لیگ کے ساتھ کام بھی کر رہے تھے جیسے سر ظفر اللہ جو جو امور خارہ سے بھی منسلک رہے۔مرزا بشیر الدین محمود ،مرزا غلام احمد قادیانی کا جانشین تھا اس گروہ کے لوگوں نے تحریک پاکستان کے دوران مشرقی پنجاب کے علاقوں کو با قاعدہ ہندوستان میں شامل کرانے کی دستاویز لکھ کر بائوںڈری کمیشن سر سرائیل ریڈکلف کودیدی تھی ۔جس کے نتیجے میںمشرقی پنجاب کے کئی مسلم اکثریتی اضلاع مثلاََزیرہ کی تحصیل اور جالندھر کے علاقے۔ جن کو سرائل ریڈ کلف نے ہندوستاں کو غیر منصافانہ طریقے پر دیدیئے تھے۔جس پر قائد اعظم کا احتجاج بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے۔تقسیم ہند کے بعد اس جماعت نے اپنی تبلیغ کا مرکز لاہور کو بنا لیا تھا۔1953 کی قادیانت کے خلاف جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی گروہوں کی تحریک کے پیچھے مجلس احرار اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔یہ ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ بعد کے سالوں میں قادیانیوں کو با قاعدہ آئینی طور پر غیر مسلم ڈکلیئر کر دیا گیا۔
مجلس احرار کے قیام کے ساتھ ہی عطاء اللہ شاہ بخاری اس کے بانی صدر رہے انکی صدارت کا دورانیہ 1929 تا1934 تک رہا۔اس کے بعد چوہدری افضل حق مجلس احرار کے صدر 1934 تا 1942 رہے۔جو مجلس قانون ساز کے رکن بھی تھے۔مجلس احرار کے تیسرصدر حبیب الرحمان لدھیانوی بنائے گئے جن کی صدارت کا دورانیہ نہایت مختصر 1942تا 1944رہا۔مجلس احرار کے چوتھے صد ر ماسٹر تاج الدین بنائے گئے جن کا دورانیہ 1953 تا 1965رہا۔مجلس احرار جب معدوم ہونے لگی تو 1958 میں اظہر علی اظہر جو اسمبلی کر رکن بھی تھے نے احرار کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کی ۔
پاکستان کے بابائے سیاست نواب زادہ نصر اللہ خان کا تعلق بھی مجلسِ احرار سے رہا ہے۔آپ1945 میں مجلس احرار کے سیکریٹری جنرل بنا دیئے گئے تھے۔ صحافت کی دنیا کا عظیم نام آغا شورش کاشمیری کا تعلق بھی مجلس احرار سے ہی تھا۔جو 1945میں پنجاب مجلس احرار کے سیکریٹری جنرل بنا دیئے گئے تھے۔ شیخ حسام الدین کو 1953 میں سیکریٹری جنرل مجلس احرار بنا دیا گیا تھا۔ان کے علاوہ عبداللطیف خالد چیمہ مجلس کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر کام کرتے رہے تھے۔
ماسٹر تاج الدین انصاری بر صغیر کی ایک تاریخ ساز شخصیت تھے۔قیامِ پاکستان اور تقسیم ہند کے بعد انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔مگر عطاء اللہ شاہ بخاری تحریک ختمِ نبوت کے سلسلے میں جدوجہد میں مسلسل شریک رہے۔پھر دوبارہ مجلس احرار کے سربراہ بنا دیئے گئے۔1953 کی تحریک ختمِ نبوت کیلئے انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ 1958میں مجلس احرار کی ایک مرتبہ پھر تنظیمِ نو کی گئی۔جس میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو مجلس احرار کا صدر ایک مرتبہ پھر بنا دیا گیا۔مجلس احرار کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا کہ قادیانیوکو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ کیونکہ غلام احمد قادیانیہ انگریز کا پیدا کردہ جھوٹا نبی تھا۔جس نے ختم نبوت کے عقیدے کی تذلیل کرنے کی کوشش کی تھی۔کیونکہ بقو ل ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کے کچھ مولوی اور کچھ پیروں کو خرید لیا تھا ۔جو انگریز کے مقصد کی تکمیل میں ان کے معاون ثابت ہوے۔
وہ ساری زندگی جھوٹے نبیوں اور اسلام کا حلیہ بگاڑنے والے ملائوں کے مخالف رہے۔اور ساری زندگی ختم نبوت کیلئے جہاد کیا ۔عطاء اللہ شاہ بخاری ایک بہترین مقرر ، قاری کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شاعر بھی تھے۔ 1956میں ان کا مجموعہ کلام “سواتی الالحام “کے نام سے ان کے بڑے صاحب زادے سید ابو زر بخاری نے شائع کرایا۔اس مردِ حق پرست کا انتقال21 اگست 1961 کوملتان میں ہوا ۔کہا جاتا ہے کہ ان کی نماز جناہ میں دو لاکھ سے زیادہ افراد نے شرکت کی ۔جن میں بہت سی پاکستان کی نامور شخصیات بھی شامل تھیں