الیاسف اس قرئیے میں آخری آدمی تھا، اس نے عہد کیا تھا کہ معبودی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور میں آدمی ہی کی جون میں مروں گا اور اس نے آدمی کی جون میں رہنے کی آخر دم تک کوشش کی، اور اس قرئیے سے تین دن پہلے بندر غائب ہوگئے تھے، لوگ حیران ہوئے اور پھر خوشی منائی کہ بندر جو فصلیں برباد اور باغ خراب کرتے تھے نابود ہوگئے، پر اس شخص نے جوا نہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا کرتا تھا، کہا کہ بندر تو تمہارے درمیان موجود ہیں، مگر یہ کہ تم دیکھتے نہیں، لوگوں نے اس کا برا مانا اور کہا کیا تو ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے اور اسنے کہا کہ بے شک ٹھٹھا تم نے خدا سے کیا کہ اس نے سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا اور تم نے سبت کے دن مچھلیوں کا شکار کیا اور جان لو کہ وہ تم سے بڑا ٹھٹھا کرنے والا ہے ۔
اس کے تیسرے دن یوں ہوا کہ الیعذر کی لونڈی گجروم الیعذر کی خواب گاہ میں داخل ہوئی اور سہمی ہوئی الیعذر کی جورو کے پاس الٹے پاؤں آئی، پھر الیعذر کی جورو خواب گاہ میں گئی اور حیران و پریشان واپس آئی پھر یہ خبر دور دور تک پھیل گئی تھی اور دور دور سے لوگ الیعذر کے گھر آتے اور اس کی خواب گاہ تک جا کر ٹھٹھک گئے کہ الیعذ رکی خواب گاہ میں الیعذر کی بجائے ایک بڑا بندر آرام کرتا تھا اور الیعذر نے پچھلے سبت کے دن سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑی تھیں۔
پھر یوں ہوا کہ ایک دوسرے کو خبر دی کہ اے عزیز العیذر بندر بن گیا ہے اس پر دوسرا زور سے ہنسا تو نے مجھے سے ٹھٹھا کیا اور وہ ہنستا ہی چلا گیا حتی کہ منہ سرخ پڑگیا،
smiling monkey
اور دانت نکل آئے اور چہرے کے خدوخال کھنچتے چلے گئے اور وہ بندر بن گیا، تب پہلا کمال حیران ہوا منہ اس کا کھلا کا کھلا رہ گیا اور آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں اور پھر وہ بھی بندر بن گیا۔
اور الیاب ابن زبلون کو دیکھ کر ڈرا اور یوں بولا کہ اے زبلون کے بیٹے تجھے کیا ہوا کہ تیرا چہرہ بگڑ گیا اب زبلون نے اس بات کا برا مانا اور غصے سے دانت کچکچانے لگا تب الیاب مزید ڈرا اور چلا کر بولا اے زبلون تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، ضرور تجھے کچھ ہوگیا ہے۔ اس پر ابن زبلون کا منہ غصہ سے لال ہوگیا اور دانت بھینچ کر الیاب پر جھپٹا ۔ تب الیاب پر خوف سے لرزہ طاری ہوا اور ابن زبلون کا چہرہ غصے سے اور الیاب کا چہرہ خوف سے بگڑتا چلا گیا ۔
ابن زبلون غصے سے آپ سے باہر ہوا اور الیاب خوف سے اپنے آپ میں سکڑتا چلا گیا اور وہ دونوں ایک مجسم غصہ اور ایک خوف کی پوتھ تھے آپس میں گتھ گئے، انکے چہرے بگڑتے چلے گئے پھر ان کے اعضا بگڑے پھر ان کی آوازیں بگڑیں کہ الفاط آپس میں مد غم ہوتے چلے گئے اور غیر ملفوظ آوازیں بن گئے پھر وہ غیر ملفوظ آوازیں وحشیانہ چیخ بن گئیں اور پھر وہ بندر بن گئے۔
الیاسف نے کہ ان سب میں عقل مند تھا اور سب سے آخر تک آدمی بنا رہا، تشویش سے کہا کہ لوگو! ضرور ہمیں کچھ ہوگیا ہے، آؤ ہم اس شخص سے رجوع کریں جو ہمیں سبت کے دن مچھیلیاں پکڑنے سے منع کرتا ہے، پھر الیاسف لوگوں کو ہمراہ لے کر اس شخص کے گھر گیا اور حلقہ زن ہو کے دیر تک پکارا کیا۔ تب وہ وہاں سے مایوس پھرا اور بڑی آواز سے بولا کہ اے لوگو! وہ شخص جو ہمیں سبت کے دن مچھیلیاں پکڑنے سے منع کرتا تھا آج ہمیں چھوڑکر چلا گیا ہے اور اگر سوچو تو اس میں ہمارے لئے خرابی ہے۔ لوگوں نے یہ سنا اور دہل گئے ایک بڑے خوف نے انہیں آلیا۔
دہشت سے صورتیں ان کی چپٹی ہونے لگیں اور خدوخال مسخ ہوتے چلے گئے اور الیاسف نے گھوم کر دیکھا اور اپنے پیچھے بندروں کے سوا کسی کو نہ پایا۔
gathering of monkey
جاننا چاہیے کہ وہ بستی ایک بستی تھی۔ سمندر کے کنارے اونچے پر جوں اور بڑے دروازوں والی حویلیوں کی بستی، بازاروں میں کھوئے سے کھوا چھلتا تھا کٹورا بجتا تھا، پر دم کے دم میں بازار ویران اور اونچی ڈیوڑھیاں سونی ہوگئیں اور اونچے برجوں میں عالی شان چھتوں پر بندر ہی بندر نظر آنے لگے۔
اور الیاسف نے ہر اس سے چاروں طرف نظر دوڑائی اور سوچا میں اکیلا آدمی ہوں اور اس خیال سے وہ ایسا ڈرا کہ اس کا خوف جمنے لگا لیکن اسے الیاب یاد آیا کہ خوف سے کس طرح اسکا چہرہ بگڑتا چلا گیا تھا تب الیاسف نے اپنے خوف پر غلبہ پایا اور عزم باندھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور آدمی کی جون میں ہی مروں گا اور اس نے ایک احساس برتری کیساتھ اپنے مسخ صورت ہم جنسوں کو دیکھا اور کہا۔ تحقیق میں ان میں سے نہیں ہوں کہ وہ بندر ہیں اور میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا اور الیاسف نے اہم ہم جنسوں سے نفرت کی۔
اس نے ان کی لال بھبھوکا صورتوں اور بالوں سے ڈھکے ہوئے جسموں کو دیکھا اور نفرت سے چہرہ اسکا بگڑنے لگا مگر اسے اچانک زبان کا خیال آیا کہ نفرت کی شدت سے صورت اس کی مسخ ہوگئی تھی، اس نے کہا کہ الیاسف نفرت مت کرو کہ نفرت سے آدمی کی کایا بدل جاتی ہے، اور الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا۔
الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا اور کہا بے شک میں ان ہی میں سے تھا اور وہ دو دن یاد کئے، جب ون ان میں سے تھا اور دل اس کا محبت کے جوش سے امنڈنے لگا اسے بنت الاخضر کی یاد آئی کے فرعون کے رتھ کی دودھیا گھوڑیوں میں سے ایک گھوڑی کی مانند تھی، اور اسکے برے گھر کے در سروکے کڑیاں صنوبر کی تھیں۔ اس یاد کے ساتھ الیاسف کو بیتے دن یاد آ گئے کہ وہ سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے مکان میں عقب سے گیا تھا اور چھپر کھٹ کیلئے اسے ٹٹولا جس کیلئے اس کا جی چاہتا تھا اور اس نے دیکھا۔
لمبے بال اس کی رات کی بوندوں سے بھیگے ہوئے ہیں اور چھاتیاں ہرن کی بچوں کے موافق تڑپتی ہیں اور پیٹ اس کا گندم کی ڈیوڑھی کی مانند ہے اور پاس اس کے صندل کا گول پیالہ ہے اور الیاسف نے بنت الاخضر کو یاد کیا اور ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کے تصویر میں سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے گھر تک گیا ساس نے خالی مکان کو دیکھا اور چھپر کھٹ پر اسے ٹٹولا جسکے لیے اس کا جی چاہتا تھا اور پکارا کہ اے بنت الاحضر! تو کہاں ہے اور اے وہ کہ جس کیلئے میرا جی چاہتا ہے۔ دیکھ موسم کا بھاری مہینہ گزرگیا اور پھولوں کی کیاریاں ہری بھری ہوگئیں اور قمریاں اونچی شاخوں پھڑپھڑاتی ہیں، تو کہاں ہے اے خضر کی بیٹی اے اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر آرام کرنے والی تجھے دشت میں دوڑتی ہوئی ہر نیوں اور چٹانوں کی دراڑوں میں چھپے ہوئے کبوتروں کی قسم تو نیچے اتر اور مجھ سے آن مل کہ تیرے لئے میرا جی چاہتا ہے۔
الیاسف بنت الاخضر کو یاد کرکے رویا، مگر اچانک اسے العیذر کی جورو یاد آئی جو العیذر کو بندر کی جون میں دیکھ کر روئی تھی، حالاں کہ اس کی ہڑکی بندھ کی گئی اور بہتے آنسوؤں میں اس کے جمیل نقش بگڑتے چلے گئے اور ہڑکی آوازوحشی ہوتی چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ اس کی جون بدل گئی تب الیاسف نے خیال کیا بنت الاخضر جن میں سے تھی ان میں مل گئی اور بے شک جو جن میں سے ہے، وہ ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور الیاسف نے اپنے تئیں کہا کہ اے الیاسف ان سے محبت مت کرمبادا تو ان میں سے ہوجائے اور الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور ہم جنسوں کو ناجنس جان کر ان سے بے تعلق ہوگیا اور الیاسف نے ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کو خاموش کردیا۔
الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور اپنے ہم جنسوں کی لال بھبھوکا صورتوں اور کھڑی دم کو دیکھ کر ہنسا اور الیاسف کو الیعذر کی جورو یاد آئی کہ وہ اسے قرئیے کی حسین عورتوں میں سے تھی، وہ تاڑ کے درخت کی مثال تھی اور چھاتیاں اس کی انگور کے خوشوں کی مانند تھیں اور العیذر نے اس سے کہا تھا کہ جان لے کر میں انگور کے خوشے توڑوں گا اور انگور کے خوشوں والی تڑپ کر ساحل کی طرف نکل گئی العیذر اس کے پیچھے پیچھے گیا اور پھل توڑا اور تاڑ کے درخت کو اپنے گھر لے آیا۔
اور اب وہ ایک اونچے کنگرے پر العیذر کی جوئیں بن بن کر کھاتی تھی العیذر جھرجھری لے کر کھڑا ہو جاتا، اور وہ دم کھڑی کرکے اپنے لجلجے پنجوں پر اٹھ بیٹھتی
monkey pri
اس کے ہنسنے کی آواز اتنی اونچی ہوتی کہ اسے ساری بستی گونجتی معلوم ہوتی، اور وہ اپنے تئیں اتنی زور سے ہنسنے پر حیران ہوا مگر اچانک اسے اس شخص کا خیال آیا جو ہنستے ہنستے بندر بن گیا تھا اور الیاس نے اپنے تئیں کہا، اے الیاسف تو ان پر مت ہنس مبادا تو ہنسی کی ایسا بن جائے اور الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔
الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔ الیاسف محبت اور نفرت سے غصہ اور ہمدردی سے رونے اور ہنسنے سے ہر کیفیت سے گزر گیا اور ہم جنسوں کو ناجنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا۔ ان کا درختوں پر اچکنا، دانت پیس پیس کر گلگاریاں کرنا، کچے کچے پھلوں پر لڑنا اور ایکدوسرے کو لہولہان کر دینا۔ یہ کچھ اسے آگے ہم جنسوں پر رلاتا تھا، کبھی ہنساتا تھا، کبھی غصہ دلاتا کہ وہ ان پر دانت پیسنے لگا اور انہیں حقارت سے دیکھتا اور یوں ہوا کہ انہیں لڑتے دیکھ کر اس نے غصہ کیا اور بڑی آواز سے جھڑکا۔ پھر خود اپنی آواز پر حیران ہوا اور کسی کسی بندر نے اسے بے تعلقی سے دیکھا اور پھر لڑائی میں جٹ گیا اور الیاسف کے تئیں لفظوں کی قدر جاتی رہی کہ وہ اسکے اور اسکے ہم جنسوں کے درمیان رشتہ نہیں رہے تھے اور اسکا اس نے افسوس کیا۔ مجھ پر بوجہ اسکے لفظ میرے ہاتھوں میں خالی برتن کی مثال بن کر رہ گیا اور سوچو تو آج بڑے افسوس کا دن ہے۔ آج لفظ مر گیا اور الیاسف نے لفظ کی موت کا نوحہ کیا اور خاموش ہو گیا۔
الیاسف خاموش ہو گیا اور محبت اور نفرت سے، غصے اور ہمدردی سے، ہنسنے اور رونے سے درگزرا اور لیاسف نے اپنے ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے کنارہ کیا اور اپنی ذات کے اندر پناہ لی۔ الیاسف اپنی ذات کے اندر پناہ گیر جزیرے کے مانند بن گیا۔ سب سے بے تعلق، گہرے پانیوں کے درمیان خشکی کا ننھا سا نشان اور جزیرے نے کہا میں گہرے پانیوں کے درمیان زمین کا نشان بلند رکھوں گا۔
الیاسف نے اپنی تئیں آدمیت کا جزیرہ جانتا تھا، گہرے پانیوں کے خلاف مدافعت کرنے لگا اس نے اپنے گرد پشتہ بنا لیا کہ محبت اور نفرت، غصہ اور ہمدردی، غم اور خوش اس پر یلغار نہ کریں کہ جذبے کی کوئی رو اسے بہا کر نہ لے جائے اور الیاسف اپنے جذبات سے خوف کرنے لگا۔ پھر جب وہ پشتہ تیار کر چکا تو اسے یوں لگا کہ اسکے سینے کے اندر پتھری پڑ گئی ہے۔ اس نے فکر مند ہو کر کہا کہ اے معبود میں اندر سے بدل رہا ہوں تب اس نے اپنے باہر پر نظر کی اور اسے گمان ہونے لگا کہ وہ پتھری پھیل کر باہر آ رہی ہے کہ اسکے اعضاء خشک، اسکی جلد بدرنگ اور اسکا لہو بے رس ہوتا جا رہا ہے۔ پھر اس نے مزید اپنے آپ پر غور کیا اور اسے مزید وسوسوں نے گھیرا۔ اسے لگا کہ اسکا بدن بالوں سے ڈھکتا جا رہا ہے اور بال بدرنگ اور سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ تب اسے اپنے بدن سے خوف آیا اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ خوف سے وہ اپنے اندر سمٹنے لگا۔ اسے یوں معلوم ہوا کہ اسکی ٹانگیں اور بازو مختصر اور سر چھوٹا ہوتا جارہا ہے تب اسے مزید خوف ہوا اور اعضاء اسکے خوف سے مزید سکڑنے لگے اور اس نے سوچا کہ کیا میں بالکل معدوم ہو جاؤں گا۔
اور الیاسف نے الیاب کو یاد کیا کہ خوف سے اپنے اندر سمٹ کر وہ بندر بن گیا تھا تب اس نے کہا کہ میں اندر کے خوف پر اسی طرح غلبہ پاؤں گا، جس طور میں نے باہر کے خوف پر غلبہ پایا تھا، اور الیاسف نے اندر کے خوف پر غلبہ پالیا اور اس کے سمٹتے ہوئے اعضا کھلنے اور پھیلنے لگے۔
اسکے اعضا ڈھیلے پڑگئے اور اس کی انگلیاں لمبی اور بال بڑے اور کھڑے ہونے لگے اور اس کی ہتھیلیاں اور تلوے چپٹے اور لجلجے ہوگئے اور اسکے جوڑ کھلنے لگے اور الیاسف کو گمان ہوا کہ اسکے سارے اعضاء بکھر جائینگے تب اس نے عزم کر کے اپنے دانتوں کو بھینچا اور مٹھیاں کس کر باندھیں اور اپنے آپ کو اکھٹا کرنے لگا۔
الیاسف نے اپنے بدہئیت اعضاء کی تاب نہ لاکر آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کر لیں تو اسے لگا کہ اسکے اعضاء کی صورت بدلتی جارہی ہے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے اپنے آپ سے پوچھا کہ میں میں نہیں رہا۔ اس خیال سے اسکا دل ڈھپنے لگا۔ اس نے بہت ڈرتے ڈرتے ایک آنکھ کھولی اور چپکے سے اپنے اعضاء پر نظر کی۔ اسے ڈھارس ہوئی کہ اسکے اعضاء تو جیسے تھے ویسے ہی ہیں۔ اس نے دلیری سے آنکھیں کھولیں اور اطمینان سے اپنے بدن کو دیکھا اور کہا کہ بیشک میں اپنی جون میں ہوں مگر اسکے بعد آپ ہی آپ اسے پھر وسوسہ ہوا کہ جیسے اسکے اعضاء بگڑتے جارہے ہیں اور اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔
جب الیاسف نے آنکھیں بند کر لیں تو اسکا دھیان اندر کیطرف گیا اور اس نے جانا کہ وہ کسی اندھیرے کنویں میں دھنستا جارہا ہے اور الیاسف نے کنویں میں دھنستے ہوئے درد کے ساتھ کہا کہ اے میرے معبود میرے بارہ بھی دوزخ ہے۔
اندھیرے کنویں میں دھستے ہوئے ہم جنسوں کی پرانی صورتوں نے اس کا تعاقب کیا اور گزری راتیں محاصرہ کرنے لگا، الیاسف سبت کے دن ہم جنسوں کے مچھلیوں کے شکار کرنے کو یاد کرنے لگا، کہ مچھلیوں سے بھرا سمندر مچھلیوں سے خالی ہونے لگا، اور اس کی ہوس بڑھتی گئی انہوں نے سبت کے دن بھی مچھلیوں کا شکار کردیا، تب اس شخص نے جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کرتا تھا کہا کہ رب کی سوگند جس نے سمندر کو گہرے پانیوں والا بنایا ،گہرے پانیوں کی مچھلیوں کا مامن ٹھرایا، سمندر تمہارے دست ہوس سے پناہ مانگتا ہے اور سبت کے دن مچھلیوں پر ظلم کرنے سے باز رہو کہ مبادا تم اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے قرار پاؤ۔
Fish in water
الیاسف نے کہا کہ معبود کی سوگند میں سبت کے دن مچھلیوں کا شکار نہیں کروں گا، اور الیاسف عقل کا پتلا تھا سمندر سے فاصلے پر ایک گڑھا کھود اور نالی کھود کر اسے سمندر سے ملا دیا اور سبت کے دن مچھلیاں سطح آب پر آئیں تو تیرتی ہوئی نالی کی راہ گڑھے پر نکل گئیں اور سبت کے دوسرے دن الیاسف نے اس گڑھے سے بہت چی مچھلیاں پکڑیں۔
وہ شخص جو سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا تھا یہ دیکھ کر بولا کہ تحقیق جس نے اللہ سے مکر کیا اللہ عزوجل اس سے مکر کریگا اور بیشک اللہ زیادہ بڑا مکر کرنیوالا ہے اور الیاسف کو یہ یاد کر کے پچھتایا اور وسوسہ کیا کہ کیا وہ مکر میں گھر گیا ہے۔ اس گھڑی اسے اپنی پوری ہستی ایک مکر نظر آئی۔ تب وہ اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑایا کہ پیدا کرنیوالے نے تو مجھے ایسا پیدا کیا جیسے پیدا کرنے کا حق ہے تو نے مجھے بہترین کینڈے پر خلق کیا اور اپنی مثال پر بنایا۔ پس اے پیدا کرنیوالے تو اب مجھ سے مکر کریگا اور مجھے ذلیل بندر کے اسلوب پر ڈھالے گا اور الیاسف اپے حال پر رویا۔ اسکے بنائے پرشت میں دراڑ پڑ گئی تھی اور سمندر کا پانی جزیرے میں آ رہا تھا۔
الیاسف اپنے حال پر رویا اور بندروں سے بھری بستی سے منہ موڑ کر جنگل کی سمت نکل گیا کہ اب بستی اسے جنگل سے زیادہ وحشت بھری نظر آتی تھی اور دیواروں اور چھتوں والا گھر اسکے لیے لفظ کی طرح معنی کھو بیٹھا تھا۔ رات اس نے درخت کی ٹہنیوں پر چھپ کر بسر کی۔
جب صبح کو وہ جاگا تو اسکا سارا بدن دکھتا تھا اور ریڑھ کی ہڈی درد کرتی تھی۔ اس نے اپنے بگڑے اعضاء پر نظر کی کہ اسوقت کچھ زیادہ بگڑے بگڑے نظر آ رہے تھے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے سوچا کیا میں میں ہی ہوں؟ اور اس آن اسے خیال آیا کہ کاش بستی میں کوئی ایک انسان ہوتا کہ اسے بتا سکتا کہ وہ کس جون میں ہے اور یہ خیال آنے پر اس نے اپنے تئیں سوال کیا کہ کیا آدمی بنے رہنے کیلئے یہ لازم ہے کہ وہ آدمیوں کے درمیان ہو۔ پھر اس نے خود ہی جواب دیا کہ بیشک آدم اپنے تئیں ادھورا ہے کہ آدمی آدمی کیساتھ بندھا ہوا ہے اور جو جن میں سے ہے انکے ساتھ اٹھایا جائیگا اور جب اس نے یہ سوچا تو روح اسکی اندوح سے بھر گئی اور وہ پکارا کہ اے بنت الاخضر تو کہاں ہے؟ کہ تجھ بن میں ادھورا ہوں۔
اس آن الیاسف کو ہرن کے تڑپتے ہوئے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کی یاد بے طرح آئی۔ جزیرے میں سمندر کا پانی امنڈا چلا آ رہا تھا اور الیاسف نے درد سے صدا کی کہ اے بنت الاخضر اے وہ جس کیلئے میرا جی چاہتا ہے تجھے میں اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر اور بڑے درختوں کی گھنی شاخوں میں اور بلند برجیوں میں ڈھونڈوں گا۔ تجھے سرپٹ دوڑی دودھیا گھوڑیوں کی قسم ہے۔ قسم ہے کبوتروں کی جب وہ بلندیوں پر پرواز کرے، قسم ہے تجھے رات کی جب وہ بھیگ جائے، قسم ہو تجھے رات کے اندھیرے کی جب وہ بدن میں اترنے لگے، قسم ہے تجھے اندھیرے اور نیند کی، اور پلکوں کی جب وہ نیند سے بوجھل ہو جائیں، تو مجھے آن مل کہ تیرے لیے میرا جی چاہتا ہے اور جب اس نے یہ صدا کی تو بہت سے لفظ آپس میں گڈمڈ ہو گئے۔ جیسے زنجیر الجھ گئی ہو۔ جیسے لفظ مٹ رہے ہوں۔ جیسے اسکی آواز بدلتی جا رہی ہو اور الیاسف اپنی بدلتی ہوئی آواز پر غور کرنے لگا اور زبلون اور الیاب کو یاد کیا کہ کیوں انکی آوزیں بگڑتی چلی گئی تھیں۔ الیاسف اپنی بدلتی ہوئی آواز کا تصور کر کے ڈرا اور سوچا کہ اے معبود کیا میں بدل گیا ہوں؟ اور اسوقت اسے یہ نرالا خیال سوجھا کہ اے کاش کوئی ایسی چیز ہوتی کہ اسکے ذریعے وہ اپنا چہرہ دیکھ سکتا مگر یہ خیال اسے بہت انہونا نظر آیا اور اس نے درد سے کہا کہ اے معبود میںکیسے جانوں کہ میں نہیں بدلا ہوں۔
الیاسف نے پہلے بستی کو جانے کا خیال کیا مگر خود ہی اس خیال سے خائف ہو گیا اور الیاسف کو بستی کے خالی اور اونچے گھروں سے خفقان ہونے لگا اور جنگل کے اونچے درخت رہ رہ کر اسے اپنی طرف کھینچتے تھے۔ الیاسف بستی واپس جانے کے خیال سے خائف چلتے چلتے جنگل میں دور نکل گیا۔ بہت دور جاکر اسے ایک جھیل نظر آئی کہ پانی اسکا ٹھہرا ہوا تھا۔ جھیل کے کنارے بیٹھ کر اس نے پانی پیا۔جی ٹھنڈا کیا۔
snow monkey
اسی اثناء میں وہ موتی ایسے پانی کو تکے تکے چونکا۔ یہ میں ہوں؟ اسے پانی میں اپنی صورت دکھائی دے رہی تھی۔ اسکی چیخ نکل گئی اور الیاسف کو الیاسف کی چیخ نے آ لیا اور وہ بھاگ کھڑا ہوا۔
الیاسف کو الیاسف کی چیخ نے آ لیا تھا اور وہ بے تحاشہ بھاگا چلا جا رہا تھا جیسے وہ جھیل اسکا تعاقب کر رہی ہے۔ بھاگتے بھاگتے تلوے اسکے دکھنے لگے اور چپٹے ہونے لگے اور کمر اسکی درد کرنے لگی مگر وہ بھاگتا بھاگتا گیا اور کمر کا درد بڑھتا گیا اور اسے یوں معلوم ہوا کہ اسکی ریڑھ کی ہڈی دوہری ہوا چاہتی ہے اور وہ دفعتا جھکا اور بے ساختہ اپنی ہتھیلیاں زمین پر ٹکا دیں اور بنت الاخضر کو سونگھتا ہوا چاروں ہاتھ پیروں کے بل تیر کے موافق چلا۔