پاسبانِ قلم

anaiza

anaiza

جب سے کائنات وجود میں آئی ہے تب ہی سے اس پہ بسنے والے ذی روح کو ہر دور میں کسی راہنماء کی ضرورت پیش آتی رہی ہے ۔جو انھیں صحیح راہ دکھا سکے ان کی راہنمائی کرسکے اور پیدا ہوتے بگاڑ کو روک سکے۔ تبھی تو جب بھی کسی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو یہ راہنما و ہمدرد کسی مشعل کی صورت اپنا کردار ادا کرتا ہوا اندھیروں میں بھٹکے ،جہالت کی تاریکیوں میں دم توڑتے انسانوں کو بصیرتِ شعور بخشتا ہے اور کسی طبیب کی مانندان کے درد کا درماں کرتا ہے۔ غور کیا جائے تو آج کے دور میں بھی ایسے رہنما موجود ہیں جو معاشرے اور سسٹم میں موجود بگاڑ کو درست کرنے کے لیے ہر وقت مصروفِ جہد رہتے ہیں اور ملک و قوم کی اصلاح کے لیے اپنا نایاب کردار ادا کرتے ہیں۔ میں جس رہنما و ہمدرد کی بات کر رہی ہوں اسے اگر پا سبانِ قلم کہہ کر مخاطب کروں تو میرے خیال سے غلط نہیں ہوگا۔

یہ پاسبانِ قلم اپنے قلم کی طاقت سے قوموں کی سوچ اور ان کے اندازِ فکر کو نئی راہ دکھاتے ہوئے ان کی اصلاح کرتا ہے۔ ان کے لیے غوروفکر کے نئے و روشن در کھولتے ہوئے بوسیدہ و زنگ آلود ذہنو ں کو آبِ علم و شعور سے سیراب کرکے انھیں نکھار بخشتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب اندھیرا ، جہالت حد درجہ ہو جائے تو انسان اپنے رہنما کی تلاش میں نکلتا ہے ۔پھر اس اندھیر ے سے چھٹکا رہ پانے تک اور بوسیدئہ و ناتواں شعور کے تواناں ہونے تلک یہ تلاش حد ِ نگاہ تک وسیع موجِ بے کراں کی مانند دنیا کے اس لا محدود سمندر میں جاری رہتی ہے۔ ہاں اگر خیالا ت میں پاگیزگی ، پختگی اور ارادے صادق ہوں تو یہ تلاش رنگِ حنا کی مانند صفئہ قرطا س پر اُمنڈ آتی ہے اور دنیا کا یہ بے کراں سمندر ایک کوزے میں سمٹ آتا ہے۔ لیکن اگر رہنما خود چل کر پاس آ جائے اور پلک جھپکنے میں ہر تاریکی کو شعورِ روشن میں بدل دے تو یہ کم ظرف انسان کس طرح نا شکری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے مبّرہ ہو جاتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ کس طرح یہ رہنما اس کے لیے شعور کی کرنیں بکھیرتا ہے، اسے تاریکی سے آزادی دلواتا ہے،اسے دیدہ واری بخشتا ہے اور بدلے میں اسے تسلی و تشفی کے دو بول تک نہیں ملتے ۔ حد درجہ افسوس و رنج کے سا تھ اگر پلٹ کے دیکھیں تو اس کے تمام تر بے لوث جذبا ت کے بدلے اس کے حصے میں اپنوں ہی کی بے ر’خی آتی ہے۔

ہمارے درمیان ایسے بے شمار پاسبانِ قلم موجود ہیں جن سے ہمارا بدنصیب معاشرہ مکمل طور پر فیض یاب نہیں ہوتا ۔ پاسبانِ قلم کا ذکر کر تے ہوئے بے اختیار ایسے بہت سے نام ہیں جو میرے شعور میں شور مچاتے ہیں۔ جنھیں وہ عزت نہیں دی گئی جس کے وہ حق دارہیں اور تھے۔ حساس دل رکھنے والے ان پا سبانِ قلم کو وہ مقام کیوں نہیں دیا جاتا جس کے یہ حق دار ہیں۔ ہر غیر اخلا قی اور ناقابلِ قبول issues پر قلم اٹھانے والے، معاشرے اور آگاہی کے درمیان تعلق کو مضبوط کرنے والے یہ قلم کے پاسباں کیا اس قابل نہیں ہیں کہ انھیں سراہا جائے؟ جبکہ اکثر سچ کا پرچار کرنے کے عوض انھیں بے شمار مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور بعداز انتہائی حالات میں انھیں سچ کو screen پر لانے کے جرم میں جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ مگر ہر طرح کے ایثار کے بعد بھی انھیں وہ تحفظات فراہم نہیں کیے جاتے جوان کی ضرورت ہوتے ہیں۔ حتٰی کے جن سہولیات کے وہ اہل ہوتے ہیں وہ بھی انھیں فراہم نہیں کی جاتیں۔ مگر اس سب کے باوجود بھی اگر وہ اپنا سفر جاری رکھتے ہیں تو یقیناََ وہ پھر عزت کے قابل ہیں۔ وہ اس قابل ہیں کے ا ن کی ہر طر ح سے حو صلہ افزائی کی جائے۔ ورنہ ایسے معاشرے جو اپنے رہنماؤں کی عزت و تکریم نہیں کرتے تاریخ کبھی بھی انھیں سنہری حروف میں رقم نہیں کرتی ۔

معاشرے کو ایسے دیدہ واروں کے لیے برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے جو برائی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے غلط نظریات رکھنے والوں کی اصلح کرتے ہیں اور انھیں حقیقت سے روشناس کرواتے ہیں۔ یہ پاسباں ہر وقت معاشرے کی تراش خراش میں مصروفِ عمل رہتے ہیں تاکہ وہ ایک بہترین ہیرے کی صورت اختیار کرلے۔ عام لوگوں سے ہٹ کے یہ اپنا وقت ملک و قوم کی بہتری کے لیے وقف کرتے ہوئے اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کر تے ہیں اور پھر لوگوں کو آگاہی کی روشنی سے منور کرتے ہیں۔ ایسے لوگ یقیناََ عام نہیں ہوتے بلکہ ان کی قدرو قیمت قدر کرنے والے ہی جان سکتے ہیں جو عقل و شعور رکھتے ہیں اور اس بات سے آگاہ ہیں کہ یہ لوگ ہمارے معاشرے کے لیے کتنے اہم و ملزوم ہیں کہ ان کے بغیر کبھی بھی صحت مند معاشرے کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ قرآنِ کریم میں بھی اللّہ پاک فرماتا ہے کہ ”علم رکھنے والے اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے” ۔ لہذاہ اس آیت مبارکہ سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پاسبانِ قلم ہمارے معاشرے کا کوئی عام کردار نہیں جسے (for guranted) لیا جائے بلکہ یہ وہ اہم کر دار ہے جو چاہے تو پورے کے پورے سسٹم کو بدل دے۔

نئے فکر و راموز اجاگر کر دے اور صاحبِ شعور، سمجھ رکھنے والوں کی وسعتوں کو انتہائی وسیع کر دے کہ اس کے اردگرد علم و شعور کا اجالا ہی اجالا پھیل جائے اور وہ مکمل طور پر اس میں نہا جائے۔ اس لیے میری تمام پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ اس رواج کو ہمارے معاشرے کا المیہ نا بنائیے جہاں قلم کے پاسبانوں کو دیدہ واری بخشنے کے باوجو د بھی زمین پر رینگنے والے کیڑے کی مانند سمجھا جائے کہ جسے جب چاہا کسی بھی رقیبِ حق نے اپنے پائوں تلے روند دیا اور اسے protect کرنے والا معاشرہ تصویرِ حسرت بنا تماشا دیکھتا رہے۔ میری گزارش ہے تمام شعور رکھنے والوں سے کہ خدارا ان کی عزت کیجیے ان کی حوصلہ افزائی کیجیے۔ ان کا احترام ہم سب پر لازم ہے ۔

کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو زندگی کو اس کی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ دوام بخشتے ہیں۔ جو اپنا سب کچھ ہار کر زندگی کے سرور کو تروتازہ رکھتے ہیں۔ جو زمانے کی سختیو ں کو اپنے شفیق وجود میں قید کر لیتے ہیں اور ہمارے لیے علم و شعور کی شمعیں روشن رکھتے ہیں۔

تحریر : عنا ئزہ چوہدری