آج میں بال سے باریک اور تلوار سے تیز دھار پل پہ پاؤں رکھنے جا رہا ہوں، اک ایسی سوسائٹی میں ، جہاں عقل و خرد کی بات کرنا تو کجا اس کا گماں بھی کفر قرار پائے۔ جہاں کتاب کو پڑھنے اور سمجھنے سے زیادہ چومنا اور غلاف میں لپیٹ کے بلند مقام پہ رکھنا باعث توقیر تسلیم کر لیا جائے اور” داہ جماعت پاس” ڈائریکٹ حوالدارقسم کے مولوی کا فرمان فتویٰ تسلیم کر لیا جائے، وہاں آپ کسی فولادی چھتری کے نیچے بھی کھڑے ہو کے کوئی عقل و فہم یا دلیل و منطق کی بات کریں گے تو کفر و ملعونیت کی طوفانی ژالہ باری آپ کو سنگسار کر کے رکھ دے گی، میں بات کرنا چاہ رہا ہوں مغربی شرپسندوں اور شیطان صفت لوگوں کی طرف سے وقفے وقفے سے کی جانے والی شرانگیزی اور توہین ِ رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم و ناموس رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ریفرنس میں۔ آج سے چند سال پہلے جب ڈنمارک کے اک اخبار نے سرور کائنات سردار الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے گستاخانہ خاکے شائع کئے تھے اور عالم اسلام میں غم و غصے کی اک لہر دوڑ گئی تھی.
اُس وقت بھی اور آج بھی میرے مؤقف میں سرمو فرق نہیں آیا، میری اُس وقت بھی سوچ یہی تھی کہ غصے کی انتہا کا شکار ہو کے دیوانگی کا مظاہرہ کرنے سے بہتر ہے کہ اس کے لئے اک اجتماعی فکر اختیارکرتے ہوئے مؤثر انداز میں ایسے لوگوں کے گلے میں پٹہ ڈالا جائے، لیکن شاید اُس وقت اس سوچ کے حامل افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی۔ جبھی تو کہیں سے بھی ایسی کوئی صدا بلند نہ ہوئی کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں سراسر دیوانگی اور دشمن کو خوش کرنے کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن آج جب ہم گھر پھونک کے دنیا کو اپنا ہی تماشا دکھا چکے ہیں تو کم از کم میں پہلی بار ایسی صدائیں بلند ہوتی سن رہا ہوں، جو بہت پہلے اٹھنا چاہئیں تھیں، لیکن ایک اعتبار سے میں اس تمام ردعمل کو جو 20 ستمبر یا یوم عشق مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے روز پاکستان میں اور اس کے بعد مسلسل ابھی تک سامنے آ رہا ہے بے ثمر قرار نہیں دیتا.
اگر ایسا شدید ردعمل نہ آیا ہوتا توبین الاقوامی میڈیا مسلمانوں کے جذبات کی اس شدت پہ کان دھرتا نہ بارک اوباما اور ہیلری کلنٹن کو پاکستانی چینلز پہ اشتہاری بیانات نشر کرانے کی ضرورت محسوس ہوتی۔ یہاں میں اس دیوانگی کو رائیگاں جانے والا عمل قرار نہیں دوں گا، یہ شاید اس ردعمل اور سینہ کوبی کا نتیجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں ایسی آوازیں سننے میں آ رہی ہیں کہ آنے والے زمانوں میں توہین رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے مرتکب افراد کیلئے کوئی گنجائش نہیں، لیکن اب ہمیں اس رویئے کو اپنی عادت ہی نہیں بنا لینا چاہئے، گذشتہ چند سالوں میں جس تواتر سے توہین اسلام و قرآن اور توہین رسالتۖ کے جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے اور مسلم امہ نے بھی لگاتار جس ردعمل کا اظہار کیا ہے، اب بات اس موڑ تک پہنچ چکی ہے جب ہر دو فریقین کو یہ سوچنے پہ مجبور ہونا پڑا ہے کہ کیسے اور کیونکر اس فتنے پہ قابو پایا جا سکتا ہے ۔
توہین قرآن و رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے مغرب میں رونما ہونے والے ایسے واقعات کا تسلسل اک سوچی سمجھی سازش تھی اور اس سازش کو پروان چڑھانے والوں کا خیال تھا کہ اس کے ذریعے ہم باآسانی ثابت کر سکتے ہیں کہ مسلمان ایک انتہا پسند قوم ہیں اور اپنے نبی اور کتاب کے نام پہ وہ سب کچھ کر گذزرتے ہیں جو غیر مہذبانہ اور مبنی بر جہالت ہے۔ آپ ماضی میں رونما ہونے والے اِن واقعات کے تسلسل اور اس پہ مغربی اقوام کے ردعمل کا باریک بینی سے جائزہ لیں۔ مغرب و امریکہ کے مفکرین کو اظہار رائے کی آزادی ، ”فریڈم آف سپیچ” کا نعرہ اس قدر عزیز ہے کہ سام بسائل کی فلم ”اِنو سنس آف مسلم” اور اس پہ سامنے آنے والے ردعمل سے پہلے کبھی اہل مغرب نے مسلمانوں کے جذبات کو کوئی اہمیت نہیں دی، لیکن لیبیا میں مارے گئے چار امریکی سفارت کاروں نے ان خبیث شرپسندوں کے گھر میں بھی پہلی بار خطرے کا الارم بجادیا، اور ”عرب بہار” کے نام پہ مشرق وسطیٰ اور لیبیا مصر جیسے افریقی ممالک میں اپنے ہاتھوں بانٹے گئے تازہ اسلحہ کے ذخائر نے انہیں لب کھولنے پہ مجبور کر دیا۔ انہیں پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ مسالہ زیادہ لگ گیا ہے۔ اور صیہونی سرمائے اور عیسائی ذہنیت کے بے وقت ملاپ سے تیار ہونے والی فلم غیرمناسب وقت پر منظر عام پہ آ گئی ہے۔
اب اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں اٹھنے والی ان غیرمانوس آوازوں کو وقت کا جبر سمجھیں یا اِن لوگوں کی منافقت لیکن یہ کہنے پہ مجبور ہو گئے ہیں کہ ہمیں مسلمانوں کے پیغمبر اور کتاب کے بارے میں کوئی لائحہ عمل اختیار کرنا پڑے گا۔ اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں اُٹھنے والی اِن اِکا دُکا صداؤں پہ مسلمانوں کو بغلیں نہیں بجانا چاہئیں۔ بلکہ انہیں اپنی فکر اپنی سوچ اور اپنے بے ربط ردعمل بارے سوچنا اور اس کی اصلاح کرنی چاہئے۔ آج 4 امریکی سفارت کاروں کی موت اور ہمارے اپنے گھروں سے اٹھنے والے 36 کے قریب لاشوں نے جہاں امریکہ و مغرب سے چند آوازوں کو ابھارا ہے وہیں اس سوچ کی بھی کمی نہیں جنہوں نے مسلمانوں کے گرتے لاشوں ،جلتے گھروں اور معطل کاروبارِ زندگی پہ خوشی کے شادیانے بجائے ہوں گے۔
اُن کی اس سوچ کو بھی تقویت ملی ہو گی کہ ہم جب چاہیں ایک تیلی پھینک کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو تماشا بنا سکتے ہیں۔ ہمیں صرف یہ سوچنا ہے کہ کیا ہم اک ایسی مجہول قوم یا اُمت ہیں جنہیں جب کسی ایک ٹیری جونز کا جی چاہے یا ایک سام بیسائل ایک فتنہ کھڑا کر کے تماشا بنا سکتا ہے۔ اگر تو آئندہ آنے والے زمانے میں ایسے فتنوں کے سامنے جن کے رُکنے یا تھمنے کا امکان نہیں ہمارا ردعمل حسب سابق ہی سامنے آنا ہے تو پھر ہمیں اقرار کر لینا چاہئے کہ ہم کندذہن افراد کا اک ایسا اجتماع ہیں جنہیں جب جی چاہے کوئی ایک فرد بیوقوف بنا سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم ایسے واقعات کا ہمیشہ کے لئے قلع قمع کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں کسی اور انداز میں سوچنا ہوگا۔ ہمیں محمدی سوچ اپنانا ہوگی۔ ہمیں ایسے تمام واقعات رکوانے کے لئے عہد محمدۖ سے راہنمائی حاصل کرنا ہوگی۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے عہد میں مکہ کوئی ایسا پُرہجوم شہر نہیں تھا جس کی آبادی لاکھوں اور کروڑوں میں ہوتی۔
اُس عہد میں مکہ بس اتنا ہی گنجان آباد تھا کہ ہر شہری اپنے نام سے ہی نہیںاپنے باپ کے نام سے بھی پہچانا جاتا تھا۔ لوگ ایک فرد سے پورے پورے کنبے کو جان پہچان لیا کرتے تھے۔ مکہ میں کئی ایسے افراد تھے جو شہر بھر کے لوگوں کی کئی کئی پشتوں کے نام جانتے تھے، ایسے میں کسی فردسے اپنے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی توہین کا انتقام لینا کس قدر آسان ہوگا لیکن پورے عہد نبوی میں جھانک کے دیکھ لیجئے ایک ہجوگو یہودی شاعر کعب بن اشرف کے علاوہ کوئی دوسری مثال نہیں ملتی کہ کسی کی توہین رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم میں گردن اڑائی گئی ہو۔ یہ اک مدینہ یا مکہ شہر پہ اختیار کی بات نہیں تھی۔ یہ اُس اختیار اور عہد کا قصہ ہے جب اللہ رب العزت خود ملائکہ کے سردار کو بھیج کے پوچھتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ، اگر تم کہو تو میں تمہیں اذیت دینے والوں اور تمہاری توہین کرنے والوں کو اِن طائف کی پہاڑیوں میں لے کے کچل دوں۔ ابولہب کو سزا کسی صحابی یا عاشقِ رسول نے نہیں دی۔ پوری اک سورة میں ابولہب اور اُس کے خاندان کی عبرت بیان کر کے خالق کائنات نے ہمارے نبی کی شان اور ان کا قصیدہ بیان کر دیا ہے ۔
آج ہمیں جس صورت حال کا سامنا ہے وہ کسی فتنہ سے کم نہیں۔ ہمارے ان بڑے بڑے جلوسوں اور بڑھے چلو مجاہدو، عاشقان نبی کا یہ ہجوم سر کٹوانے نکلا ہے۔ ماریں گے مر جائیں گے، سر کاٹ دیں گے، جیسے نعرے لگاتے ہوئے خود کو بے حال کر لینے میں کوئی حکمت نہیں ہے۔ بات کو مکمل کرنے سے پہلے میں دو قسم کے جلوسوں اور دو قسم کے لوگوں کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا، ایک وہ جلوس تھے جن کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے لاٹھیاں تھیں اور وہ ہر سامنے آنے والی چیز کو تہس نہس کر رہے تھے، آگ لگا رہے تھے، پتھراؤ کر رہے تھے، گریبان چاک اور منہ سے کف بہہ رہی تھی۔ یہ سب عاشقانِ نبی تھے جو اپنی تمام تر طاقت اور جوش و جنوں کا اظہار کر رہے تھے۔
ایک وہ بھی جلوس تھا، جن کے ہاتھوں میں کتبے تھے اور ہونٹوں پہ درود و صلوٰة کے نغمے تھے یہ بھی اپنے نبی سے محبت کا اظہار کر رہے تھے اور جس جلوس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا بلکہ رُلا دیا وہ برقعہ پوش خواتین کا جم غفیر تھا قطار در قطار اور پیشانیوں پہ لبیک یارسول اللہ کی پٹیاں سجی تھیں یہ ہماری آنے والی نسلوں کی امین مائیں تھیں۔ اب آپ خود اندازہ کریں کون سا جلوس سب سے زیادہ متاثر کن تھا۔ ہمارے نبی کی شان میں گستاخانہ فلم بنا کے پوری مسلم امہ کا تمسخر اڑانے والے کس جلوس کو دیکھ کے خوف زدہ ہوئے ہوں گے اور کون سا جلوس اُن کے سفلی جذبات کی تسکین کا باعث بنا ہوگا۔
Ahmadi nejad
کہنا یہی ہے کہ ہمیں ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔ اسلام کے دشمن اپنی حرکات سے باز نہیں آئیں گے، لیکن ہمیں اُن کی ذلالتوں کا مؤثر جواب دینے کے لئے مل کے پوری مسلم امہ کو کوئی ایک لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کے موجودہ سربراہی اجلاس میں جس طرح صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے عالمی برادری پہ زور دیا ہے کہ وہ خاموش تماشائی نہ بنی رہے اور وہ مذہب اورنبی کی توہین کرنیوالے عناصر کو سزا دے ، صدر ایران جناب محمود احمدی نژاد نے اظہارِ رائے کے نام پہ کی جانے والی بیہودگی پہ قابو پانے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی صورت اپنے نبی کی عزت و حرمت پہ آنچ نہیں آنے دیں گے اور مصر کے صدر جناب محمد مرسی نے جس انداز میںاپنا احتجاج نوٹ کروایا یہ سب حوصلہ افزا باتیں ہیں ، اس کے بعد مسلم امہ کو سو نہیں جانا چاہئے بلکہ اسلامی سربراہی اجلاس بلا کے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے اقوام متحدہ کو جھنجھوڑنا اور اس سے ایسا قانون منظور کروانا چاہیے جس کے ذریعے تمام انبیاء اور الہامی کتابوں کی عزت و حرمت کا مکمل دفاع ہو سکے۔ تحریر: طلعت جعفری