ملی استحکام

alliance

alliance

اسلام اتحاد و اتفاق کی تعلیم دیتا ہے۔ ایک اسلامی ریاست میں امن و استحکام کیلئے باہم اتحاد قائم رکھنا اور آپس کے لڑائی جھگڑوں اور تنازعات سے بچنا نہایت ضروری ہے۔

اسلام چاہتا ہے کہ اس عالم آب و گل میں بسنے والے تمام انسان بلاتفریق رنگ و نسل اور قوم و قبائل آپس میں مل جل کر رہیں اور ایکدوسرے کے تعاون سے ایک ایسی ریاست تشکیل دیں جہاں تمام معاملات کی بنیاد اخوت و محبت پر ہو اور جہاں تمام فیصلے عدل و انصاف سے کیے جائیں۔

جہالت اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت عصیبت کو فروغ دیتی ہے اور عصیبت اتحاد و اخوت کی ضد ہے۔ عصیبت کی بنیاد علاقائیت، لسانیت، قبائل و ثقافت پر رکھی ہوتی ہے۔

قرآن کریم نے اس کی کھلی اور واضح تردید فرماتے ہوئے اتحاد و اخوت کا درس دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ اے لوگو! بلاشبہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنائیں تاکہ تم ایکدوسرے کو پہچانو، بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقیناً الہ سب کچھ جاننے والا باخبر ہے۔
( سورة الحجرات آیت 13)

یعنی قبائل اور برادریاں صرف باہم تعارف ہونے کیلئے قائم کی گئیں۔ چنانچہ انہیں نفرت اور حقارت کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا اور قبائلی اونچ نیچ اور ذات بات کر برتری اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اگر عنداللہ کوئی چیز مقبول ہے، اگر اللہ کے ہاں بات کی اہمیت ہے تو وہ صرف اور صرف تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔

درحقیقت اخوت و اتحاد ہی وہ بنیادی عناصر ہیں جنہیں بروئے کار لا کر کسی بھی قوم کی شیرازہ بندی کی جا سکتی ہے۔ اسلام نے بھی اسے اہمیت دی ہے اور عبادات کو بھی اسکی ترویج کیلئے استعمال کیا۔

خاص طور سے نماز کو انفرادی طور پر نہیں بلکہ باجماعت ادا کرنے کی تائید فرمائی تاکہ اس موقع پر لوگ ایکدوسرے سے ملیں اور اتحاد کو فروغ حاصل ہو۔ پھر جمعے کی نماز ہفتے میں ایکبار فرض قرار دی اور اسے مسجد و جماعت کیساتھ مشروط کیا تاکہ عام ایام میں سستی کرنیوالے حضرات کو بھی باہم بیٹھنے کا موقع مل سکے۔ کیونکہ رنجشیں اور کدورتیں دور رہنے سے زیادہ بڑھتی ہیں اور قریب ہونے اور مل بیٹھنے سے انہیں دور کرنے کا موقع ملتا ہے۔

باہمی تنازعات بھی اتحاد و اتفاق کی فضا کو مسموم کرتے ہیں اور انکی وجہ سے ریاست کے استحکام کو نقصان پہنچتا ہے۔

قرآن کریم نے اسی کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے ایمان والو آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائیگی اور صبر کرو، بلاشبہ اللہ صبر کرنیوالوں کیساتھ ہے۔
( سورت الانفال آیت 46)

fighting kittens

fighting kittens

یعنی اگر تم آپس میں جھگڑا کرنے لگے تو تم استحکام کی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھو گے اور ترقی نہیں کر سکو گے۔ اس آیت میں باہمی تنازع کے دو نقصان بتائے گئے ہیں۔
١۔ تم آپس کے جھگڑوں میں الجھ کر بزدل اور ڈرپوک ہو جاؤ گے اور دشمن سے مقابلے کی صورت میں تم کامیابی حاصل نہیں کر سکو گے کیونکہ تمہاری قوت اور تمام تر توانائیاں جنہیں ریاست کی حفاظت و استحکام کیلئے کام آنا چاہیے آپس کے تنازعات اور لڑائی جھگڑوں میں ختم ہو چکی ہونگی۔

٢۔ تمہاری ہوا اکھڑ جائیگی اور دشمن پر تمہارا رعت و دبدبہ برقرار نہیں رہ سکیگا۔ اس صورت میں دشمن تم پر حملہ آور ہونے کیلئے پر تولنے لگے گا اور امر واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی سلطنت پر دشمن قوتوں کو حملہ آور ہونے کا جواز اکثر ریاست کی مختلف قوتوں کے باہمی تنازعات نے فراہم کیا ہے۔

پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اتحاد و اتفاق خود ہماری اپنی بقا کی ضرورت ہے کیونکہ انسان ایک معاشرتی حیوار ہے اور وہ کبھی بھی تنہا زندگی نہیں گزار سکتا۔ ہر انسان کو امن و چین، اپنے سکون و اطمینان کیلئے اتحاد درکار ہے۔ اسے اجتماعیت کی ضرورت ہے، بصورت دیگر وہ اس کائنات کے نظام کا حصہ نہیں بن سکتا۔

اسلام کے عطا کردہ نظام میں انتشار و افتراق کی قطعا گنجائش نہیں۔ وہ کسی بھی قسم کی تقسیم کا قائل نہیں بلکہ یہ دین ہر قسم کی تفریق اور ہر قسم کے امتیاز کو ختم کر کے ایک واحد قوم کی صورت اختیار کرتا ہے اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق: مسلمان تو مسلمان کا بھائی ہے کا فلسفہ اخوت و محبت عطا کرتا ہے۔ اسلامی ریاست کی ساری عمارت اسی فلسفے کی بنیاد پر قائم ہے۔

یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے لوث محنت اور تربیت کا ہی فیضان تھا کہ متفرق، منتشر اور ہزار ہا قبائلی ٹکڑوں میں منقسم گروہوں کا ہجوم ایک مضبوط قوم اور ناقابل تسخیر قوت میں تبدیل ہو گیا۔

pyala

pyala

جنگ یرموک کا ناقابل فراموش اور سبق آموز واقعہ ہم سب کو دعوت فکر دیتا ہے۔ حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: وہ فرماتے ہیں کہ اس جنگ میں میرے بھائی شدید زخمی ہوئے، وہ تڑپ رہے تھے اور پیاس کی شدت سے بے تاب تھے۔ انہوں نے اشارے سے مجھ سے پانی طلب کیا، میں پانی لیکر انکے پاس پہنچا تو قریب ہی موجود دوسرے زخمی مجاہد کی کراہ سنائی دی۔ میرے بھائی نے پانی اس مجاہد کو پلانے کا اشارہ کیا۔ میں انکے پاس پہنچا تو تیسرے مجاہد کی آواز آئی۔ دوسرے مجاہد نے اسے پلانے کا اشارہ کیا۔ میں وہاں پہنچا تو چوتھے زخمی مجاہد کی آواز سنی۔ غرض جب میں آخری شخص کے پاس پہنچا تو وہ اپنی جان، خالق حقیقی کے سپرد کر چکا تھا۔ میں واپس پلٹا تو تیسرے مجاہد کی روح بھی پرواز کر چکی تھی۔ اسی طرح دوسرے مجاہد سے ہوتا ہوا جب واپس اپنے بھائی کے پاس پہنچا تو وہ بھی وصال کر چکے تھے۔

یہ تھی، مسلمان تو مسلمان کا بھائی ہے کی عملی تفسیر کہ انہیں حالت نزع میں بھی اپنے مسلمان بھائی کی تکلیف گوارہ نہ تھی۔ اس واقعے کی روشنی میں ہمیں اپنے طرز عمل کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنی سوچ وفکر کو پرکھنا چاہیے۔

اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ آج ہمیں ایسے ہی جذبہ ایثار و قربانی اور اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے اور اتحاد ہی کے بل پر ہم دوست استحکام حاصل کر سکتے ہیں۔

تحریر: سید عزیز الرحمٰن