شہر لاہور کے شاندار جلسے میں کپتان کی حمایت کی تھی عوام نے مگر کپتان کو لگا کہ عوام کو سیاسی فرشتوں نے جمع کیا تھا۔فرشتوں نے بھی یہ موقع غنیمت جانا اور دھڑا دھڑ کپتان کی ٹیم میں شامل ہونے لگے کپتان نے ہر فرشتے کوآگے بڑھ کر گلے لگایا لیکن یہ بات بھول گئے کہ یہ سیاسی ٹیم ہے کرکٹ نہیں ،چاہئے کسی کھلاڑی کو کپتان سے شکائت بھی ہو تو کرکٹ ٹیم کو کپتان کی نگرانی میں پورا میچ کھیلنا ہی پرتا ہے ۔جب کہ سیاست میں کوئی بھی کھلاڑی دوران میچ بھی ٹیم چھوڑنے کا اعلان کرسکتا ہے اور وہی ہو ابھی میچ شروع بھی نہیں ہوا اور فر شتے کھلاڑی اپنے آبائی گھروں کو لوٹنا شروع ہو چکے ہیں ۔
کپتان کی سیاسی ٹیم کامستقبل کیا ہوگا یہ تو وقت بتائے گا لیکن ان کی عوامی مقبولیت میں کمی آنے سے یہ بات ثابت ہو چکی کہ اچھی بری صحبت انسان کی پہچان بن جاتی ہے۔ صحبت یاراں زندگی کی بہت بڑی حقیقت ہے ۔شائد اسی لئے ہی تعلقات کو زندگی کا جال کہتے ہیں ۔ حلقہ احباب کی صحبت کے اثر سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا ۔وہ ہماری سوچ اور رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ہمارے خیالات ،احساسات ،معاملات اورفیصلوںکومتاثر کرتے ہیں ۔اکثر کامیاب لو گ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کو ایسے دوست اور تجربہ کار ناصح نصیب ہوئے جنہوں نے ہر مشکل وقت میں ایسی رہنمائی کی۔ جن کی رہنمائی نے نہ صرف انہیں مشکلات سے نکلنے میں مد د فراہم کی بلکہ آگے بڑھنے میں بھی مدد دی ہے ۔اگر انسان کو اچھے صاف گواور تجربہ رکھنے والے دوستوں کاساتھ ملے تو انسان نہ صرف بڑے بڑے خواب دیکھنے لگتا ہے بلکہ بڑے بڑے فیصلے بھی کرنے لگتا ہے
۔جاوید ہاشمی نے جب ن لیگ چھوڑکر عمران خان کا ساتھ دینے کی حامی بھری تو عمران خان نے اپنے منشور کاا علان بھی کردیا اورقوم سے بہت بڑے بڑے وعدے بھی کرڈالے جن میں سب سے اہم وعدہ 90دن کے اندر کرپشن کے خاتمے کا ہے ۔اگر ہم معاشرے میں پھیلی ہو ئی کرپشن کی جڑوں کو دیکھیں تو لگتا تو نہیں کہ ایسا ہوسکتا ہے ۔لیکن مایوسی گناہ ہے اس لیے اچھے وقت کی امید تو کرنی چاہیے ۔امید کے ساتھ ساتھ ہمیں کرپشن کے خاتمے کے لیے بہت بڑے اور مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے۔ہمیں اس بات کی سچائی پر کبھی شک نہیں کرنا چاہیے کہ آگے بڑھنے کی راہ ان فیصلوں سے ہموار یا دشوار بنتی ہے جو ہم زندگی میںکرتے ہیں۔چھوٹے موٹے فیصلے سبھی کرتے ہیں ۔یہ کام بہت آسان ہوتا ہے ،لیکن معمولی فیصلوں کے نتائج بھی معمولی ہی ہوا کرتے ہیں ۔لیکن جو لوگ بڑے اور مشکل فیصلے کرتے ہیں ۔وہی دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں ۔
لیکن اکثر لوگ جب مشکل وقت آتا ، پیچیدگی بڑھتی ہے تو مشکل فیصلے کرنے اور چھلانگ لگا کر آگے بڑھنے کی بجائے حالات سے منہ موڑلینے میں عافیت محسوس کرتے ہیں ۔اس طرح ان کو عارضی طور پرتو عافیت مل جاتی ہے لیکن مشکل نہیں ٹلتی ۔بلا شبہ اس وقت پاکستانی قوم بہت سی مشکلات کا سامنا کررہی ہے۔اور اس بات میں بھی کسی کوشک نہیں ہونا چاہے کہ اس وقت ہمیں ان مشکلوں سے نکلنے کے لیے بہت سے مشکل فیصلے کرنے ہونگے ۔شائد عمران خان نے بھی انھیںمیں سے ایک فیصلہ کیا تھا ۔جووہ 90دن میں کرپشن کاخاتمہ کرنے کی بات کررہے تھے ۔قوم کو سیاست دانوں پر ا عتبار تونہیں لیکن پھر بھی رسک تو لینا پڑے گا۔جس کے لیے قوم بظاہر تیار ہے لیکن عمران خان کے گرد پرانے اور آزمائے ہوئے سیاست دانوں کے جمع ہونے سے عمران خان کی شخصیت بھی کچھ قابل اعتبار نہیں لگتی۔ کل تک تو جو سیاست دان کپتان کی ٹیم میں شامل ہونے کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے ۔اب پھر سے انہیں جماعتوں میں واپس جارہے ۔جنہیں وہ چھوڑکرآئے تھے۔
ان لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ تو آئندہ عام انتخابات میں عوام کو ہی کرنا ہے ۔ لیکن میرے خیال میں تو ایسے لوگوں کو ہرگز ووٹ نہیں دینا چاہئے جوذاتی مفادات کی وجہ سے جماعتیںتبدیل کرتے ہیں۔یقینا ایسے لوگوںکے مثبت نظریات نہیں ہوسکتے۔نتیجہ کچھ بھی نکلے اب کپتان کو یہ بات تسلیم کرلینی چاہئے کہ انہوں نے ایسے فصلی بٹیروں کو اپنے یاروں میں شامل کر کے بہت بڑی غلطی کی تھی جو آنے اور جانے میں تحریک انصاف کی مقبولیت کو کم کرگئے۔شائد کپتان یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کو ملنے والی عوامی حمایت میں ان کی شخصیت کابہت بڑا کردار ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ کپتان وکو 15.16برس کی سیاسی جدجہد کے بدلے ملنے والی عوامی حمایت کی وجہ ان کی شخصیت نہیں بلکہ وہ سیاسی خلا ہے جسے دوسرے سیاست دان پر نہیں کرسکے ۔عوام اور سیاست دانوں کے درمیان ایک فاصلہ موجود تھا جس نے کپتان کو آگے آنے کا موقع فراہم کیا اگر پرانے سیاست دانوں نے اپنے وعدے پورے کئے ہوتے اور عوام ان سے خوش ہوتی تو کبھی بھی کپتان کو آگے آنے کا موقع نہ ملتا۔
لیکن کپتان نے عوامی حمایت حاصل ہوتے ہی انہی چلے ہوئے کارتوسوں کو اپنی جماعت میں شامل کرلیا جن سے جان چھوڑانے کی غرض سے عوام نے کپتان کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا۔کپتان شائد بھول گئے تھے کہ صرف ایک غلطی ٹورنامنٹ سے بار کردیتی ہے ۔چنانچہ اب عوام کپتان کی غلط صحبت کو دیکھ کر اپنی حمایت واپس لے رہی ہے ۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جن کی صحبت اچھی ہوتی ہے ۔ تحریر : امتیاز علی شاکر