( تزکیہ نفس ) دنیا کی گمراہ ترین قوم اسکی بدولت معزز ترین بن گئی

nafs

nafs

سورہ (سورت) شمس آیت نمبر 9 تا 10 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ: یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اسکو فجور میں دبا دیا۔

تزکیہ سے مراد زندگی کو سنوارنا ہے اس میں خیالات، اخلاق، عادات، معاشرت اور تمدن ہر چیز شامل ہے۔ تزکیہ خواہش پر قابو پانے کا نام ہے اپنے ذہن اور جسم سے صحیح کام لینا اور دنیوی زندگی میں جہاں آزمائش کے مواقع پیش آئیں، ان سے آگے بڑھتے جانا بھی تزکیہ کہلاتا ہے۔

تزکیہ کے معنی پاک کرنا اور نشونما کرنا بھی ہے جو اپنے نفس کو گناہوں سے پاک کر کے اسکو ابھار کر تقوٰی کی بلندی پر لے جائے اور اسکے اندر بھلائی کو نشونما دے وہ فلاح پائیگا۔

تزکیہ، احسان سلوک اور تصوف ایک ہی چیز ہے۔ تزکیہ کا ماحصل یہ ہے کہ نفس کو روح کے تابع اور خواہشات نفس کو شریعت کے تابع کر دیا جائے۔ نفس کی تین حالتیں ہوتی ہے۔
امارہ
لوامہ
مطمئنہ

تزکیہ نفس کا طریقہ کار ( تقوٰی ) ہے۔ تقوی کے ذریعہ نفس میں وہ احساس اور کیفیت پیدا کی جاتی ہے جس بنا پر کام میں خدا کے حکم کے مطابق عمل کرنے کی رغبت اور مخالفت کرنے سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔

انبیاء علیہم السلام بنیادی طور پر انسانی نفوس کے تزکیہ کیلئے مبعوث ہوئے۔ وہ نہ صرف لوگوں کے اعمال و اخلاق کو غلیظ چیزوں سے پاک کرتے رہے بلکہ وہ اچھے اعمال و اخلاق کی نشونما بھی کرتے رہے۔

امام غزالی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جبتک تزکیہ نفس کی کٹھن منزلیں طے نہ ہو جائیں، اخلاق و سیرت میں خوشگوار تبدیلی نہیں ہو سکتی۔

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تزکیہ کیلئے جو منہاج تجویز کیا اس میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے انسانی فطرت کے تقاضوں کو فراموش نہیں کیا۔ چنانچہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے تزکیہ کے اس باطل طریقہ کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ اسلام میں رہبانیت نام کی کوئی چیز نہیں۔

تزکیہ نفس کی جس ضرورت کو حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی ذریت کیلئے ضروری خیال کیا انسان کی فلاح و سعادت کیلئے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ جملہ مذاہب عالم میں یہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور پائی جاتی ہے۔

history of khana kaba

history of khana kaba

پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ ” اے اللہ میرے نفس کو تقوٰی عطا کر اور اسکو پاکیزہ کر، تو ہی وہ بہتر ہستی ہے جو اسکو پاکیزہ کرے تو ہی اسکا سرپرست اور مولیٰ ہے۔

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک انتہائی گمراہ قوم کو تزکیہ نفس کے ذریعہ دنیا کی سب سے بڑی بااخلاق اور مہذب قوم بنا دیا تھا۔ تزکیہ نفس کا مطلب ترک دنیا ہرگز نہیں۔

تزکیہ نفس کی افضل ترین مثال پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی مبارک کو اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی نظام تعلیم و تربیت کا چوتھا بنیادی اصول تزکیہ نفس ہے۔ تعمیر سیرت و کردار میں ” تزکیہ نفس کو عمودی حیثیت حاصل ہے۔

امام راغب اصفہانی رحمة اللہ علیہ نے کہا ہے کہ تزکیہ نفس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کے حصول میں کوشاں ہو اور انہیں اپنائے جن سے شخصیت پاکیزہ ہو جائے اور اسکا شمار قابل تحسین انسانوں میں ہو۔

جسطرح عمدہ لباس پہن لینے سے کوئی خوبصورت نہیں ہو جاتا اسی طرح نفس کی پاکی کے بغیر ظاہری اطوار و اعمال اگر اچھے ہوں تو وہ انسان پاکبار اور اچھا نہیں ہو سکے گا۔

تزکیہ نفس اور تہذیب اخلاق کا سرچشمہ پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ارشادات میں ان عیوب سے بچنے کی بھی تاکید فرمائی ہے جو نفس کو اتنا کثیف کر دیتے ہیں کہ پھر مسلمان نہ تو دین کی پابندی کر سکتا ہے اور نہ ہی اسلامی معاشرہ کا ایک فرد کہلا سکتا ہے۔

جبتک ان عیوب سے نفس کو پاک صاف نہ کر لیا جائے ایک مسلمان کو دنیا اور آخرت کا کوئی مقام نصیب نہیں ہو سکتا۔ بڑوں کا احترام کرنیوالا، لوگوں سے محبت سے پیش آنیوالا، بندوں کے حقوق ادا کرنیوالا، ظلم و ستم، مکروفریب، جھوٹ وغیرہ سے بچنے والے شخص کے متقی و پرہیزگار ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن بد اخلاق و بد اطوار شخص نہ تو اللہ عزوجل اور اسکے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نظروں میں نیک ہے اور نہ ہی بندوں کیلئے قابل احترام ہے۔

Madina

Madina

اصل میں باطن کی اصلاح کا نام ہی تزکیہ نفس ہے جسکا اندازہ انسان کے اندر ایک محتسب پیدا کرنے کی بیحد ضرورت ہے اور اسکا واحد ذریعہ خوفِ خدا اور آخرت کی جوابدہی کا احساس ہے اور جب انسان کا ضمیر بیدار ہو جائے تو اس میں خوف خدا اور آخرت کی جوابدہی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔

اگر ہم تذکیہ و طہارت کا بلند مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کیساتھ وابستہ اور مربوط رہیں۔

تحریر: بابو شفقت قریشی