قومی احتساب کمیشن کا بل 2012 قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا، مسلم لیگ نون اور عوامی نیشنل پارٹی نے بل کی مخالفت کر دی۔
وزیر قانون فاوق ایچ نائیک نے قومی احتساب کمیشن کا بل پیش کیا تو مسلم لیگ نون کے رکن زاہد حامد نے بل کی مخالف کی اور کہا کہ ان کی جماعت کی سفارشات اور تجاویز کو بل میں شامل نہیں کیا گیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رکن پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کو بل پر اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اختلافی امور کے باعث بل قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے سپرد کردیا گیا۔ ایوان میں انسداد دہشت گردی ترمیمی بل دو ہزار بارہ منصفانہ سماعت ایکٹ بھی پیش کیا گیا۔ بل کے تحت قانون نافذ کرنے والے اور خفیہ ادارے کے اہلکاروں کو کسی بھی مشتبہ شخص کی ٹیلی فون کال ریکارڈ کرنے کا اختیار ہوگا۔ حکومت نے دو ہزار دو سے پہلے کے تمام کرپشن مقدمات دفن کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ احتساب کے نئے قانون کے تحت کمیشن اکتوبر دو ہزار دو سے پہلے کے مقدمات نہیں کھول سکے گا۔ قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے بل کے مطابق نیا احتساب قانون یکم اکتوبر دو ہزار دو سے نافذ العمل ہو گا جس کے تحت کرپشن اور مالی بے ضا بطگیوں کی تحقیقات کے لئے نیا قومی احتساب کمیشن قائم کیا جائے گا۔ کمیشن ملک میں کرپشن کی آزادانہ تحقیقات کرے گا جبکہ دوسرے ممالک سے قانونی معاونت کے ساتھ بیرون ملک سے شواہد،دستاویزات اور اثاثوں کی تفصیلات حاصل کرنے کا اختیار بھی اسے حاصل ہوگا۔ احتساب کمیشن کو کسی بھی ملزم کے اثاثے اور شواہد ملک میں منتقل کرانے کا اختیار بھی ہوگا۔ بل کے مطابق کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جج یا گریڈ22 کا افسر ہوگا جو کمیشن کا چیئرمین ہوگا جس کی تین سال کے لئے تقرری صدر مملکت مشاورت کیبعد کریں گے۔ نئے احتساب بل میں صدر کے سوا کسی کو استثنی نہیں دیا گیا ہے۔ احتساب کمیشن کی اپنی خود مختار تحقیقاتی ایجنسی ہوگی جس کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہوگا۔ ایجنسی تمام معاملات کی آزادانہ تحقیقات کرے گی۔ بل کے مطابق بدعنوان افراد کو 7 سال سزا اور جرمانہ ہوگا جبکہ عوامی عہدہ رکھنے والے شخص کو 2 سال سزا ہونے پر 5 سال کی نا اہلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بل کے تحت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں پر مشتمل ملک بھر میں احتساب عدالتیں بھی قائم کی جائیں گی.