ایک مرتبہ کسی انٹرویو کے دوران ایدھی بابا سے پوچھا گیا کہ جناب یہ جو صاحب حیثیت لوگ غریب لوگوں کیلئے دیگیں چڑھاتے ہیں اور انہیں اپنے ہاتھوں سے تقسیم کرتے ہیں یا کسی خاص دن خیرات تقسیم کرتے ہیں تو اسکے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے تو ایدھی صاحب نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا۔ ” یہ کھراب سسٹم کی کھراب نیکیاں ہیں ”
edhi baba
یعنی اگر معاشرہ بے ایمان اور بے انصاف ہے، مساوات پر قائم نہیں ہے تو اس میں کی جانیوالی نیکیاں بھی اسی کا پر تو ہونگی۔ میں اس نوعیت کی کھراب نیکیاں اپنے آس پاس دیکھتا رہتا ہوں۔
مین بلیوارڈ کی ایک محل نما کوٹھی کے باہر ہفتے کے ایک مخصوص دن لوگ صبح سے جمع ہونے لگے ہیں۔ پریشان حال اور بے آسرا بھوکے لوگ انکے بچے پھٹے ہوئے کپڑوں میں ادھر ادھر بھاگتے پھرتے ہیں۔
کئی بار یہ لوگ سارا سارا دن اس کوٹھی کے باہر فٹ پاتھ پر کڑی دھوپ میں خیرات کے منتظر ہوتے ہیں اور پھر گیٹ کھلتا ہے اور کچھ لوگ دیگیں اٹھائے چلے آ رہے ہیں اور تب ایک بھگدڑ مچ جاتی ہے اور لمحوں میں دیگیں خالی ہو جاتی ہیں اور چھوٹے بچے سڑک پر گر جانیوالے چاولوں کے دانے جمع کرنے لگتے ہیں۔
ماڈل ٹاؤن کی ایک کوٹھی کے باہر بھی یہ سماں دیکھنے کو ملتا ہے۔ شنید ہے کہ مخیر حضرات جو بے سہاروں کی مدد پر یقین رکھتے ہیں تب تک اپنی کوٹھی سے باہر نہیں آتے جب تک مناسب ہجوم نہ جمع ہو جائے اور پھر دیگر ملازموں کے ہمراہ ان کا ظہور ہوتا ہے اور وہ اپنے ہاتھوں سے غریبوں کو خیرات دیتے ہیں۔
اس انداز سے کہ علاقے والے واضح طور پر دیکھ سکیں کہ وہ کتنا ثواب کا کام کر رہے ہیں۔ ان مخیر حضرات نے جس طور بے پناہ دولت سمیٹی ہے اسکے بارے میں بہت سی کہانیاں ہیں۔
ایک زمانے میں مخیر حضرات اور وزیر صاحبان کا پسندیدہ مشغلہ بیواؤں میں سلائی مشینیں تقسیم کرتے ہوئے تصویریں اتروانا اور انہیں خصوصی درخواست پر اخباروں میں شائع کروانا تھا۔
ان تصاویر میں آپ مخیر حضرات کا پرتقدس چہرہ یا وزیر صاحب کا پرتکبر چہرہ اور چادر میں لپٹی ایک لاچار عورت کو دیکھ سکتے تھے اور ہاں وہ سلائی مشین جس نے اس بیوہ کی تقدیر بدل دینی تھی وہ بھی صاف نظر آتی تھی۔
sewing machine
ان دنوں سلائی کی مشین چونکہ بہت مہنگی ہوتی ہے اسے ترک کر دیا گیا ہے اور اس کی جگہ آٹے یا چاول کے تھیلے نے لے لی ہے۔ آج ہی کے اخبار میں اپنے گورنر پنجاب کی ایک تصویر ہے جس میں وہ ایک مستحق خاتون کو آٹے کا ایک تھیلہ عطا کر رہے ہیں اور اپنے سیاہ چشمے کے پیچھے مسکرا رہے ہیں۔ یہ ایک ” مستحق ” خاتون جانے گورنر ہاؤس کے اندر کیسے جا پہنچی کیونکہ تصویر میں کسی اور ” مستحق ” کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا۔
کراچی میں بیس ماؤں کو، بیس بہنوں اور بیس بیٹیوں کو غربت کی ذلت نے کچل کر رکھ دیا۔ بیشک ماہ رمضان برکتوں والا مہینہ ہے اور صرف اس مہینے میں کی جانیوالی نیکیوں کا ثواب کئی گنا زیادہ ملتا ہے۔ اسی لیے ہم اپنی نیکیوں کو اس مہینے کیلئے سنبھال کر رکھتے ہیں۔
یہ بیس عورتیں جو چاول کے ایک تھیلے کیلئے ماری گئیں، یہ غریب یا لاچار نہ تھیں دراصل انکے حصے کی دولت غیر ملکی بینکوں میں جمع کروا دی گئی ہے تاکہ محفوظ رہے ورنہ ان عورتوں نے فضول خرچی کر کے اسے دنوں میں ختم کر دینا تھا۔
صرف ان بیس کی نہیں بلکہ ان جیسی لاکھوں عورتوں کے حصے کی دولت بھی لندن، سوئٹزرلینڈ اور دبئی میں بالکل محفوظ ہے۔ یہ بھی تو سوچئے کہ اگر اس ملک میں کوئی بھی اتنا غریب نہ ہوتا کہ آٹے کے ایک تھیلے کیلئے جان دیدیتا تو پھر غریبوں کیلئے درد دل رکھنے والے مخیر حضرات کیسے ڈھیروں ثواب کماتے اور اپنی آخرت کو سنوارتے تو یہ غریب لوگ بیحد ضروری ہوتے ہیں اور اگر یہ آٹے کے ایک تھیلے کیلئے مارے جائیں تو انہیں بھی بیحد ثواب ہوتا ہے۔
کرشن چندر کے بارے میں اردو کے ایک انگریز نقاد کا کہنا ہے کہ وہ اکثر نہایت پھسپھسی اور بے روح کہانیاں لکھتے ہیں لیکن پھر ایک ایسی کہانی لکھتے ہیں جو صرف ایک عظیم ادیب ہی لکھ سکتا ہے۔ بہت عرصہ پیشتر میں نے کرشن چندر کی ایک ایسی ہی کہانی پڑھی تھی۔ اسکا مرکزی خیال کچھ یوں تھا۔
کہ بمبئی کا ایک ہندو مارواڑی سیٹھ جب بیشمار دولت جمع کر لیتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ اب اسے اپنی آخرت کیلئے بھی کچھ کرنا چاہیے اور غریبوں کی مدد کرنی چاہیے۔ وہ اپنے منشی کو بلا کر اس سے مشورہ کرتا ہے کہ ایک تو مجھے یہ بتاؤ کہ یہ غریب کہاں ہوتے ہیں اور پھر یہ کہ اگر وہ مل جائیں تو انکی مدد کیسے کروں۔
انہیں کپڑے لے دوں، کھانا کھلاؤں یا پھر کیش رقم دان کر دوں۔ منشی مشورہ دیتا ہے کہ سیٹھ صاحب نقد رقم بہتر ہے وہ جو چاہے خرید لیں لیکن ایک مسئلہ ہے کہ اگر آپ اعلان کرینگے کہ میں غریبوں کی مدد کرونگا تو ساری دنیا غریب بن کر آ جائے گی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ کیسے جان لیں گے کہ کوئی شخص سچ مچ غریب ہے، یا غریب ہونے کی اداکاری کر رہا ہے اسکا فیصلہ کیسے کرینگے۔
سیٹھ صاحب شش و پنج میں پڑ جاتے ہیں اور منشی سے کہتے ہیں کہ تم ہی کوئی ترکیب بتاؤ؟ کہ صاف طے ہو جائے کہ یہ شخص دراصل غریب ہے۔ منشی کچھ سوچ بچار کیبعد کہتا ہے کہ سیٹھ صاحب ترکیب ذہن میں آ گئی۔
آپ اعلان کر دیں کہ فلاں تاریخ کو آپ غریبوں کی مدد کرینگے لیکن ہر شخص کو اپنے آپ کو غریب ثابت کرنے کیلئے دس جوتے کھانے پڑینگے لیکن سب کے سامنے نہیں بلکہ الگ سے ایک کمرے میں تاکہ انکی عزت نفس مجروح نہ ہو۔
سیٹھ صاحب کو تجویز پسند آ جاتی ہے اور اس تاریخ کی منادی کروا دی جاتی ہے۔ جب سیٹھ صاحب ہر غریب کو الگ کمرے میں لے جا کر جوتے ماریں گے اور پھر نقد رقم پیش کرینگے۔ اس تاریخ کو سیٹھ کے دفتر کے باہر غریبوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے ہیں۔
پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑتا ہے، سیٹھ صاحب کو غریبوں کو جوتے مارنے کے لیے عملہ بھرتی کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ تنہا یہ کار خیر انجام نہیں دے سکتے۔ جوتے اتنے ٹوٹتے ہیں کہ کم پڑ جاتے ہیں۔
shoe in hand
ایک بوڑھی عورت درخواست کرتی ہے کہ بیٹا میں بہت دن سے بھوکی ہوں، زور سے جوتے نہ مارنا کئی لوگ صاف ستھرے کپڑوں میں آتے ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین کیا آپ کو کرشن چندر کی اس کہانی میں اپنے ہاں کے کوئی سیٹھ صاحب نظر آئے جو غریبوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں جو ثواب حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ ان کی مہربانی ہے کہ وہ غریبوں کو صرف ذلیل کرتے ہیں۔ اگر دس بیس مر جائیں تو مرنے دیتے ہیں لیکن کتنے نرم دل ہیں کہ انہیںجوتے نہیں مارتے۔