حکومت اور سیاست دان کب سنجیدہ ہوں گے؟؟؟

PPP

PPP

یہ بات تو پورے پاکستان کیا پوری دنیا کے علم میں ہے کہ گذشتہ ساڑھے چارسالوں کے دوران پیپلز پارٹی اور اسکے اتحادیوں کی حکومتی کار کردگی مائنس زیرو سے آگے نہ بڑھ سکی ہے۔جب ان سے عوام کے مصائب کی بات کی جاتی ہے تو سوال کرنے والوں کو جواب دینے کے بجائے اصل موضوع سے ہٹانے کی بھر پور کوشش کی جاتی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور اسکے حمائتی بڑے بڑے دعووں کیساتھ میڈیا پر آکر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوششوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے ہیں۔بعض تو اس قدر بپھر جاتے ہیں کہ ان کے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوجاتے ہیں،جس سے لگتا ہے کہ تہذیب و اخلاق ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا ہے۔

بلکہ پیپلز پارٹی والے تو حقائق کو دبانے کے لئے یہاں تک کہتے رہتے ہیں کہ ہم بے گناہوں پر اتنے عرصہ سے مقدمات قائم ہیں کہ اگر ان پر سزابھی ہوجاتی تو وہ بھی ختم ہوگئی ہوتی۔پاکستان کے عوام کا ماننا ہے کہ یہ مقدمات بھی تو انہی کے منظورِ نظر لوگوں نے قائم کئے تھے اگر کوئی اور کرتا تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ سیاست یا تعصب کی وجہ سے یہ مقدمات بنا دیئے گئے ہونگے۔ایسا لگتا ہے کہ تمام کرپٹ لوگوں کا ملغوبہ یہ حکومت ہے۔جو عوام کیلئے سوچنا گناہ کبیرہ تصور کرتی ہے۔ہر دوسرے دن پیٹرول اور سی این جی پر ڈرامہ رچایا جاتا ہے تاکہ عوام کچھ سوچنے کے قابل ہی نہ رہیںاس وقت عوام نانِ شبینہ کو محتاج ہیں مگر عوامی بھلائی کے موضوع پر آناموجودہ حکمران اپنی کسرِ شان سمجھتے رہے ہیں۔لوٹ کھسوٹ کا جو بازرا گرم ہے اسکی گرمی کو وہ ہر قیمت پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

اب تو ایسا وقت آگیا ہے کہ حکمرانوں پر اور ان کے ہم نوائوں پر اگر زد پڑتی ہے تو وہ بری طرح سے بلبلانے لگتے ہیں۔جس طرح عدلیہ کا ان لوگوں نے گذشتہ ساڑھے چار سالوں میں مذاق بنایا ہے وہ مناظر ساری قوم کے اذہان میں محفوظ ہو چکے ہیں۔اب کی مرتبہ ایوانِ بالا میں عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر جس طرح کیچڑ اچھالا گیا اور تنقید پیپلز پارٹی اور اسکی ایسی ہمنوا جماعت جس پر انکی رہنما کے قتل کا الزام خود مرحومہ رہنما نے اپنی زندگی ہی میں لگایا تھا ،جس کو صدر زر داری نے بخوشی اپنا حلیف بنا لیا ہے،کی طرف سے کی گئی۔مگر جیالہ ا زم کے متوالے اقتدار پر چمٹے رہنے کی غرض سے اپنی رہنما کے مستند قاتلوں کو بھی جمہوریت سب سے بڑا انتقام کہہ کر ہم رکاب کئے ہوے ہیں۔

سینٹ کے اجلاس کے دوران ق لیگ اور پیپلز پارٹی نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن پارلیمنٹ اور سیاست دانوں کو بد نام کرنے کی غرض سے منظم سازش تیار کر رہے ہیں۔دہری شہریت کے معاملے پر لُوٹو اور پھوٹوکے علمبردار سیخ پا دکھائی دیتے ہیں۔کیونکہ الیکشن کمیشن نے بھی دہری شہریت پر ارکان پارلیمنٹ سے حلف نامہ طلب کر لیا ہے۔ جس کی بنا پر تمام حکومتی ایکٹرز اور ڈائریکٹرزتلملائے ہوے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن بھی ان کے نشانے پر آگیا ہے۔پیپلز پارٹی کے ایک جیالے نے تو منہ بھر کر کہہ دیا ہے کہ ججز ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔حکومتی ارکان عموماََ عدلیہ کے خلاف عامیانہ زبان استعمال کرتے ہوے اسے شبو شتم کا نشانہ بنانے سے بھی نہیں چوکتے ہیں۔لگتا یوں ہے کہ تمام سیاست دان آنکھ مچولی کے کھیل میں برابر کے شریک ہیں۔قوم یہی پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ان میںسنجیدگی کب آئے گی؟؟؟ یا یہ لوگ یوں ہی قوم کو بد شکل وعدوں سے بہکاتے رہیں گے۔

Balochistan

Balochistan

دوسری جانب بلوچستان آگ کے شعلوں میں لپٹا ہوا ہے مگر حکومت یہاں پر بھی ٹامک ٹوئیاں مارنے کے سوائے کچھ بھی تو نہیں کر رہی ہے!!!یہاں ہم کہہ سکتے ہیں سب نہیں بعض سیاست دان بلوچستان پرسنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔اس کے بر عکس حکومتی حلقوں میں سے ایک بھی اس مسئلے پر بھی سنجیدگی مظاہرہ کرنے کا سوائے نعروں کے تیار نہیں دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف بلوچ رہنماتو دوسری جانب عدلیہ بلوچستان کے مسئلے پر مسلسل چیخ و پکار کر رہے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ آئین پر عمل نہ ہوا توبلوچستان حکومت ہی نہیں بلکہ کوئی اور حکومت بھی جائے گی۔ٹارگیٹ کلنگ اغوااور لاشیں ملنا معمول بن گیا ہے پولس کی کارکردگی صفر ہے۔اس معاملے پر حکومت سنجیدہ نظر نہیں آتی ہے۔حالات اس حد تک نہ لیجائیں کہ واپسی ممکن نہ ہو۔ایف سی نے پولس کے اختیارات لینے کے بعد ایک ماہ گذرجانے کے باوجود کوئی نتائج نہ دیئے۔چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا ہے کہ وفاق اور ایف سی جلد از جلد لاپتہ افراد کو عدالت کے روبارو پیش کریں۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو بلوچستان کی آگ کو دھیما کیا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب بلوچستان کی وہ قوتیں جو یہاں کے مسائل کو حل کرنا چاہتی ہیں کہتی ہیں کہ بلوچستان سے فورسز کے انخلا کے بغیر الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔بلوچستان سے جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ نواب زادہ طلال بکتی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ایف سی اور خفیہ اداروں کی مداخلت کی وجہ سے بلوچستان میں حالات 1971 سے بھی بدترین ہیںان کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ رحمان ملک،قمر زمان کائرہ اور مشرف کی باقیات اکٹھا ہو معاملات کو خراب کر رہے ہیں۔آج بلوچستان میں اسلحہ اور منشیات کی اسمگلنگ عروج پر پہنچ چکی ہے۔
ہر پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اس نہج پر حالات کو لانے میں موجودہ حکومت بھی مشرف سے پیچھے نہیں رہی ہے۔اس حکومت نے اپنے پورے دورانئے میں بلوچستان کے مسئلے پر نعرے تو لگائے مگر کوئی عملی اقدامات اٹھانے کی کبھی بھی جراء ت نہ کی ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض قوتوں کے اشاروں پر حکومت بلوچستان کے معاملات میں سکتے کے عالم میں دکھائی دیتی ہے۔اختر مینگل بھی حکومت کو اور اسٹابلشمنٹ کو متنبہ کر کے گئے ہیں کہ حکومت بلوچوں کے آنسو پونچھ کر مسئلے کے حل جانب سنجیدگی کے ساتھ آئے۔ورنہ حالات انتہائی مشکلات میں لیجانے کو ہیں ۔ان کے بقول پاکستان کے لئے یہ آکری موقعہ ہے۔

Imran Khan

Imran Khan

عمران خان بجائے شمالی علاقوں کی خاک چھاننے کے کیا ہی اچھا ہوتا کہ بلوچوں کی اشک شوئی کے لئے نکل پڑتے۔مگر حالات یہ ہی بتا رہے ہیں کہ اسٹابلشمنٹ کے ہم رکاب کبھی بھی بلوچوں کے آنسو پوچھنے کی بات نہیں کریں گے۔ تمام سیاسی کھلاڑیوں کو بلوچستان کے مسئلے کوسنجیدگی سے لینا ہوگا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے۔اور ہم لکیر پیٹتے رہ جائیں۔اس مسئلے پر تمام سیاست دانوں کو سنجیدگی کا مظاہر کرتے ہوے ہمت و جراء ت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ورنہ رعونت زدہ لوگ اس کشتی کو ڈبونے میں ذرا دیر نہیں کریں گے۔

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید