شوکت کی پرورش شان و شوکت کے ساتھ ہوئی،ماں اور باپ نے اس کی تربیت اور تعلیم میں کوئی کمی نہیں رہنے دی ۔ ماں، باپ اور بہنوں کا خیال تھا ، شوکت بہت کم سن ہے -وہ سب شوکت کو موسموں سے اس طرح بچائے رکھتے ، جیسے مرغی اپنے بچوں کو قدرتی آفات سے بچائے رکھتی ہے ،، لیکن ان کو پتہ ہی نہیں چلا شوکت کہ کب خواب دیکھنے اور تتلیاں پکڑنے کی عمر میں داخل ہو گیا ،پھر نہ جانے کیوں ایک رات خواب میں اس نے خود کو دھنک پر قدم رکھتے دیکھا ،دھنک پر وہ آیستھ آئستھ چل رہا تھا ،کہ اچانک اس نے دیکھا ایک سائے نے اس کے قدموں کے ساتھ قدم ملا دیے ہیں -یہ سایہ یہ تو فریال کا سایہ ہے دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام لیے ،اور دھیمے دھیمے چلتے رہے ،اچانک شوکت کے قدم اکڑ گئے اسے محسوس ہونے لگا وہ تیزی سے نیچے کی طرف گر رہا ہے ۔
اس نے چیخ کر کہا فریال مجھے تھام لو میں گر رہا ہوں -فریال نے شوکت کو اپنی کمزور گرفت میں لے لیا دونوں زمیں کی طرف گرنے لگے ،اچانک شوکت کی آنکھ کھل گئی ،اس کا پورا جسم پسینے میں شرابور ہو گیا ،پھر اس کے بعد کوئی رات ایسی نہ ہوتی جس میں وہ فریال کو خواب میں نہ دیکھتا ۔ فریال کبھی اس کے خواب میں پری کی طرح آتی تو کبھی دلہن کے روپ میں -فریال کے والدین شوکت کے گھر برسوں سے ملازمت کر رہے تھے فریال کو یہ ملازمت ورثہ میں ملی تھی ۔
ایک دن شوکت نے ہمت کر کے فریال سے اپنے خواب کا ذکر کر دیا ،لرزتے ہونٹوں سے اس نے یہ بھی کہہ دیا میں تم کو اپنی دلہن بنانا چاہتا ہوں -فریال نے کہا شوکت بابو میں اس گھر کی ملازمہ ہوں یہ کیسے ممکن ہے آپ کے گھر والے مجھے زندہ درگور کر دیں گے ۔شوکت نے فریال سے تو کچھ نا کہا مگر ایک شام اپنی ماں کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا ،شوکت کے منہ سے فریال کا نام سن کر گھر میں بھونچال آ گیا -تمام ووٹ اس کے خلاف تھے ،ماں نے رحم کی آخری درخواست مسترد کرتے ہوے کہا ،شوکت ہم تمہارے لئے چاند سے دلہن لے کر آئیں گے ،تم نے اس دو ٹکے کی چھوکری کے بارے میں سوچا بھی کیوں ؟تم جانتے ہو کہ ،شوکت اس سے زیادہ نہیں سن سکتا تھا فریال جو اس کے خوابوں میں اس طرح بس گئی تھی کہ اب اس بے دخل کرنا خود اس کے بس میں نہیں رہا تھا ،وہ یوں ٹوٹ گیا جسے ایک صحت مند تن آور شجر کو دیمک لگ جائے اور پھر ہوا کے ایک ہے جھونکے سے زمیں بوس ہو جائے۔
فریال کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ،گھر سے نکل جانے کا حکم نامہ بھی اس کو دیدیا گیا ،فریال اس گھر سے نکل کر اسی محلے میں دوسرے گھر میں ملازم ہو گئی مگر شوکت کے دل سے نا نکل سکی شوکت نے مکمل خامشی اختیار کر لی تھی ،ایک بنک میں ملازمت اختیار کر لی ، ماں اور بہنوں نے کبھی کسی لڑکی کا ذکر کیا تو اس کا رد عمل کسی بہرے سے زیادہ نہیں ہوتا تھا۔
ایک شام بنک سے گھر آیا تو پیٹ میں درد محسوس ہوا -اس نے اس کی فکر نہیں کی ،مگر وقت گزرنے کے ساتھ تکلیف بڑھتی گی ،گھر میں تو وہ پہلے بھی پینگ گیسٹ کی طرح رہ رہا تھا ،کسی سے ذکر نا کیا ،جب تکلیف حد سے بڑھ گئی تو اپنے والد کے ایک دوست ڈاکٹر کے پاس چلا گیا ،ڈاکٹر نے ابتدائی علاج کیا .مگر جب کوئی فرق نا پڑا تو ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ لکھ دیے ۔ ایک شام والد کے دوست نے گھر آ کر اس کی ماں کے ہاتھوں میں بلیک وارنٹ تھما دیا ۔ اس وارنٹ کے مطابقشوکت کینسر کے مریض میں مبتلا ہے -اور جدید میڈیکل سائنس نے زیادہ سے زیادہ 90 دنوں کی خیرات اس ماں کی جھولی میں ڈالی تھی ،جس نے بیٹے کے لئے چاند سے دلہن لانی تھی ۔
شوکت کی بیماری کی خبر پورے محلے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی-بہنیں بھائی کے سر پر سہرا دیکھنا چاہتیں تھیں ۔ ماں جوان بیٹے کو کفن پہنانے سے پہلے دولہا کا جوڑا پہنانا چاہتی تھی ،شوکت کی بیماری کا سن کر اس کی ماں کی خواہش اور زیادہ ہو گی تھی ۔ ماں نے پورے شہر میں منادی کر وا دی ،کہ میں اپنی تمام جائیداد اس لڑکی کے نام کر دوں گی ،جو میرے بیٹے سے شادی کرے گی ، بھلا 90 دنوں کے لئے کون سہاگن ہونے کو تیار ہوتی ،دن شتابی گزر رہے تھے ،کہ ایک شام فریال ان کے گھر آئی ،فریال نے کہا آپ اپنے بیٹے کے سر پر سہرا دیکھنا چاہتیں ہیں ،میں اس کے لیے تیار ہوں ، مجھے آپ کی جائیداد سے کوئی غرض نہیں ہے بس ایک شرط ہے ۔ مجبور ماں نے تکھے ہوے لہجے پوچھا وہ کیا ؟ میرا حق مہر دو ٹکے رکھا جائے ،کیونکہ میں دو ٹکوں کی اور دو ٹکوں کی چھوکری کو صدا سہاگن رہنے کا حق کہاں ہے ،