یقیناآپ ہماری اِس بات سے ضرور متفق ہوں گے کہ اِنسان زمانے قدیم اور ظہورِ اسلام سے قبل جہالت کے باعث جانوروں جیسی زندگی گزارتاتھا اِس لئے آج بھی جن اِنسانوں کا شعور پست ہوتاہے اور جو اپنی خودپسندی یااور کسی وجہ سے اسلام اور اسلامی تعلیمات سے بھٹک گئے ہیں اِن کے رویے اور رشتے بھی جانوروں جیسے ہوتے ہیں یعنی ایسے لوگوں کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بے کار ہے وہ اِنسان جس میں اِنسانیت نہ ہو تو وہیں ہم اِس یقین کے ساتھ یہ بھی کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جس شخص میں اِنسانیت نہیںاِس کا کوئی مذہب بھی نہیںہوتاہے اور جس کا کوئی مذہب نہیںہوتاہے اِس کا کوئی اعتبار بھی نہیںہوتاہے کہ وہ کب جانوروں جیساہوجائے اور جانوروں جیسی حرکت کرنے لگے اوروہ اپنے وجود سے روئے زمین پر خیر کے بجائے شر پھیلانے کا ضامن ہوجائے۔
آج قوم کی باحیااور باپردہ رہنے والی چودہ سالہ معصوم بیٹی ملالہ یوسفزئی جس کا جرم صرف یہ تھا کہ اِس نے سوات میں امن اور تعلیم کو پھیلانے کے لئے اپنی معصوم اور ننھی ننھی اداؤں اور تحریروں سے اپنا کردار اداکیا تھااور بس اتناہی اِس معصوم ملالہ کا جرم تھا..جس کی سزا اِسے اسلام اور شریعت کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے یہ دی کہ اِس معصوم پھول جیسی بچی اور اِس کی ساتھیوں کو گولیوں کا نشانہ بنا دیا اور اپنے سینے پر تمغہ لگابیٹھے کہ اِنہوں نے اپنے اور اپنی بنائی ہوئی شریعت کے خلاف بلندہوتی ایک نہتی اور معصوم ملالہ کی آواز کو دبا دیا ہے ۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ امن کی فاختہ اور علم کی متلاشی قوم کی معصوم بیٹی ملالہ یوسفزئی پر دہشت گردوں کے قاتلانہ حملے پر پاکستانی قوم سمیت عالمی برادری بھی سراپااحتجاج ہے اور مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ ایوارڈیافتہ ملالہ یوسفزئی کی جلد صحتیابی کے لئے بھی اللہ تعالی کے حضور دعائیہ اجتماعات منعقد کرارہی ہے تووہیں ہمیں یہ بھی اُمید ہے کہ ملالہ، شازیہ اور کائنات کے لئے کی گئیں دعائیںبارگاہِ اللہ رب العزت میں ضرور قبول ہوں گیں اورملالہ یوسفزئی سمیت شازیہ اور کائنات جلد صحتیاب ہوں گیں اور سوات میں اسلام سے بھٹکے ہوؤں کی طرف سے بزور طاقت اور بندوق و بارود تعلیم کے حصول سے روکنے کی مہم جوئی کے خلاف اپنی آواز بلندکرتی رہیں گیں۔
آج جب ایک طرف ساری پاکستانی قوم ملک کے چپے چپے مساجد ، گرجاگھروں ، مندروں ، تعلیم اداروں، سرکاری و نجی اداروں اور دیگر کھلے مقامات میں ملالہ یوسفزئی ، شازیہ اور کائنات کی جلد صحتیابی کے لئے دعائیہ اجتماعات منعقد کررہی ہے تووہیںملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ کرنے والوںنے ملالہ پر حملہ جائز قرار دے کر قوم میں پائے جانے والے غم و غصے کومزید ہوادے دی ہے۔ ُ کیونکہ اُدھر آن لائن کی ایک افسوسناک خبر کے مطابق ایک کالعدم تنظیم والوں نے اپنا سینہ ٹھونک کر سوات سے تعلق رکھنے والی امن ایواردیافتہ اورپُرعزم حوصلے کی مالک ،امن کی فاختہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے اور ملالہ پر حملے کے بعد دوتاریخی حوالوں سے مذکورہ حملے کو جائز قرار دیتے ہوئے جو وجوہات پیش کیں ہیں وہ علمائے حق اور تمام مکاتبِ فکر کے علماء اکرام اور مشائخ عظام کے نزدیک ملالہ پر حملہ کرنے والوں کی یہ اپنی شریعت ہے جو انتہائی مضحکہ خیزی کے سوااور کچھ نہیں ہے۔
Taliban
آن لائن کے مطابق کالعدم تنظیم کے مرکزی ترجمان نے ملالہ یوسفزئی پر کئے جانے والے قاتلانہ حملے اور اِس کے نتیجے میں دوسری بچیوں شازیہ اور کائنات کے زخمی کئے جانے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ طالبان لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کی مخالف ہے ہم صرف سیکولر نظام تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں جو مسلمان بچوں اور بچیوں کو اسلام اور شریعت سے دورکررہی ہے جبکہ ملالہ یوسفزئی پر کئے جانے والے قاتلانہ حملے کے سوال پر اِن کا یہ کہنا تھا کہ ملالہ یوسفزئی پر حملہ اِس لئے کیا گیا کیوں کہ اِن کے خیالات اسلام، شریعت اور مجاہدین کے خلاف تھے اور ملالہ اپنی فکرکا برملااظہاربھی کرتی رہی ہیں لہذا اِن پر حملہ کیاگیاہے اور جب اِن کو بتایاگیاکہ یہ تو صرف چودہ سالہ معصوم بچی ہے اور یہ تعلیم اور اپنے علاقے میںامن کی متلاشی ہے اسلام میں معصوم بچوں پر حملہ کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے..؟ تو اِس پرکالعدم تنظیم کے ترجمان نے اپنی حجت درست منوانے کے خاطر اِس کا جواب دوتاریخی حوالے پیش کرتے ہوئے کچھ یوں دیاکہ”ایک بار حضرت خضر علیہ سلام اور حضرت موسی علیہ سلام ایک ساتھ سفر کر رہے تھے اِسی دوران حضرت خضرعلیہ سلام نے ایک معصوم بچے کوقتل کردیا۔
جس پر حضرت موسیٰ علیہ سلام نے اِس کی توجہی پوچھی تو حضرت خضرعلیہ سلام نے جواب دیاکہ اِس بچے کے ماں باپ بہت نیک ہیںاور یہ بچہ بڑاہوکر اِن کی بدنامی کا سبب بنتا اِس لئے میں نے اِسے قتل کردیاجبکہ ملالہ پر حملہ جائز قراردینے والے کالعدم تنظیم کے ترجمان نے دوسرا تاریخی واقعہ یہ بیان کیاہے کہ ایک اندھے صحابی نے ایک ایسی عورت کو قتل کردیاتھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی شان میں گستاخی کیاکرتی تھی اور اِس عورت کے قتل پرنبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اطمینان کا اظہار کیا تھایوں اِن دونوں تاریخی حوالوں کو جواز بنانے والے کالعدم تنظیم کے ترجمان کا کہناہے کہ اِن کے اور اِن کی تنظیم کے نزدیک ملالہ یوسفزئی پرقاتلانہ حملہ جائز ہے۔
ملالہ یوسفزئی پر کئے جانے والے حملے کو درست ثابت کرنے کے لئے جب کالعدم تنظیم کے ترجمان نے اِن دونوں تاریخی حوالوں کوپیش کیا اور اِن تاریخی حوالوں کو جواز بنانے کے بعد ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ جائزقرار دیاہے تو اِس پر علمائے دین کا یہ کہناہے کہ کالعدم تنظیم کے ترجمان ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملے کو جائز قراردینے کے لئے جو تاریخی حوالے پیش کررہے ہیں یہ اِن کی اپنی بنائی ہوئی شریعت ہے جو انتہائی مضحکہ خیز ی کے سوااور کچھ نہیں ہیں اِس پر علمائے دین اور دانشورانے اسلام کی اکثریت کا یہ بھی کہناہے کہ” آج کے دور کے کسی بھی عام بشراورشخص کواسلام اور شریعت کی رو سے بلاکسی شرعی عزر کے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی اِنسان کو قتل کرے یا قتل کرنے کا حکم کردے اور اگر کوئی ایساکردے تو کوئی اِسے شخص کے اِس غیر شریعی فعل کو درست قراردینے کے لئے یہ دعوی بھی کرے کہ کسی نے کسی کا قتل غیب کے علم کی وجہ سے کیا ہے تو ایساشخص فتنہ ہے اور اِسی کے ساتھ ہی علمائے دین اور مذہبی اسکالر ز کا یہ بھی کہناہے کہ نعوذباللہ..! آج کے دور میں کوئی پیغمبر یا ولی نہیں ہے کہ کسی کو ملالہ یوسفزئی سے متعلق غیبی عمل ہوگیاتھاکہ یہ معصوم بچی بڑی ہوکرکسی کے لئے نقصان یا بدنامی کی باعث بنے گی اور نہ ہی یہ امن اور تعلیم کی متلاشی معصوم ملالہ یوسفزئی خدانخداستہ گستاخِ رسول تھی کہ کسی نے اِس پر قاتلانہ حملہ درست قرار دیاہے ایساکرنے والا اسلام اور شریعت کی رو سے واجب القتل ہے جس کو سزادینا حاکم الوقت اور قانون نافذکرنے والوں کی ذمہ داری ہے۔
جبکہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ سانحہ ملالہ سے قبل تک ہمارے یہاں کا کوئی ایک بڑاطبقہ طالبان مجاہدین بھائیوں کا حامی رہاہو مگرآج ہم یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کے اِس گھناؤنے قول و فعل کے بعد سے ہی ساری پاکستانی قوم سمیت پوری دنیا بھی یہ بات اچھی طرح جان چکی ہے ملالہ پر حملہ کرنے والے یہ وہی لوگ ہیں جو روس افغان جنگ میں امریکا کی آنکھ کے تارے بنے رہے اور آج بھی یہی لوگ ہیں جو پاکستان میںامریکی اشاروں پر دہشت گردی کرنے اور پاکستان میں تباہی و بربادی پھیلانے کے خاطر امریکاکی آنکھ کے تارے بنے ہوئے ہیں پہلے بھی اِن ہی لوگوں نے امریکی ڈالرز کے عوض افغانستان میں روسی یلغار پر اسلام کو بچانے کے نام پر اپناکردار اداکیاتھا اور آج بھی یہ امریکی ڈالرز کے عوض پاکستان میں اسلام کے نام پر اپنی خود ساختہ شریعت کے نفاذ کے لئے تعلیمی اداروں کو تباہ اور مردوں اور عورتوں اور بچوں اور بچیوں کو تعلیم کے حصو ل سے روکنے کے لئے اپنا گھناؤنا کردار اداکررہے ہیں ۔
اَب اِن حالات کے پس منظر میں پاکستانی قوم بشمول علمائے دین ، اہل دانش ،سیاستدان اور حکمرانوں پر فیصلہ کن گھڑی آگئی ہے کہ یہ اپنی کوئی مثبت اور تعمیری راہ متین کرنے کے لئے دوغلے امریکا کا ساتھ چھوڑنے کے ساتھ ساتھ اِن لوگوں کو بھی کیفرکردار تک پہنچادیں جو ہمارے ہی درمیان میں رہ کر اسلام کے نا م پر ملک میں تعلیمی ادارے تباہ اور بچیوں اور عورتوں کو تعلیم کے حصول جیسے مذہبی فریضہ سے روکنے کے لئے انتہاپسندی کا سہارالے کر اپنی مرضی کی شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں یا ہمیں اپنی موجودہ پوزیشن برقراررکھنے کے لئے دونوں (دوغلے امریکااور کالعدم تنظیم والوں )سے مقابلہ کرنے کے لئے کمر بستہ ہوناپڑے گا…؟؟