زندگی کے سفر میں وہ دن بہت پیچھے چھوڑ آیا ہوں لیکن اُس نوخیز لڑکے کی سوز میں ڈوبی تیکھی لے آج بھی لاشعور کی تمام پرتیں ہٹا کے پوری توانائیوں کے ساتھ میری سوچ میں اُدھم مچا دیتی ہے۔ یہ مارچ 1985ء کے آخری ایام تھے اور ہمیں سنٹرل جیل ساہیوال منتقل ہوئے تیسرا ہفتہ آن لگا تھا ۔ مارچ کے آخری دنوں میں اس قدر شدید گرمی سے سامنا پہلی مرتبہ ہو رہا تھا۔ ضیاء الحق کی سپیشل ملٹری کورٹ کی طرف سے سنائی جانے والی سزائے موت کو شدید بین الاقوامی دباؤ پر عمرقید میں بدل دیا گیا تھا۔ ضیاء الحق کے مخالفین کی سزائے موت کو عمرقید میں بدلنے کا فریضہ گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی مرحوم نے ادا کیا تھا۔ اور اب عمر قید کو بھگتنے کے لئے ہمیں سنٹرل جیل ساہیوال منتقل کر دیا گیاتھا۔ عمر قید کے ہم چودہ سیاسی قیدیوں کو سزائے موت کے احاطے کی چار چکی الاٹ ہوئی تھی جس میں ایک قطار اندر بیس کوٹھڑیاں تھیں۔ ساہیوال جیل میں ہماری آمد سے پہلے اُس احاطے کو اپنی مخدوش حالت کے باعث قیدیوں کے لئے غیرموزوں قرار دیا جا چکا تھا۔ چونکہ سیاسی قیدیوں کو عام قیدیوں سے الگ تھلگ رکھا جاتا تھا۔ اس لیے بہ امر مجبوری ہمیں یہ سیل الاٹ کر دیئے گئے۔ ہماری ان بیس کوٹھڑیوں کے سامنے ایک وسیع و عریض شورزدہ صحن تھا۔
صحن کی اس کلر اور شورزدہ مٹی کا یہ عالم تھا کہ جہاں پاؤں رکھتے زمین میں دھنس جاتے ۔ ہماری اس چارچکی کے ساتھ ہی ”منڈاخانہ” تھا۔یہ وہ جگہ تھی جہاں نابالغ قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ ہمارے احاطے کا انچارج ہیڈ وارڈن ہرروز منڈاخانہ سے دس پندرہ لڑکے منگوا کے اُن سے اس احاطے کے صحن میں ”پوچا” کرواتا۔ جس سے جلد اس صحن کی زمین بحال ہونا شروع ہو گئی۔ یہ انہی ایام کی بات ہے جب ہم گرمی کی شدت سے بچنے کے لئے احاطے میں موجود ایک درخت کی گھنی چھاؤں میں سستا رہے تھے۔ تو اک نوخیز قیدی لڑکے نے اپنی درد میں ڈوبی آواز یں تان اٹھائی۔(مور کُونجاں کو طعنڑ ے دیندے) لڑکا اپنے مخصوص سرائیکی لب و لہجے میں دوہڑا گا رہا تھا۔ جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ مور جو اپنے خوبصورت اور بڑے پروں کے باوجود لمبی اُڈاری نہیں اُڑ سکتا۔ کونجوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ تمہاری کسی کے ساتھ یاری ہے یا تمہارا دیس اچھا نہیں جو تم یوں نگر نگر بھٹکتی پھر رہی ہو جس کے جواب میں کونجیں مور کو کہتی ہیں کہ ہمارا دیس بُرا ہے نہ ہماری کسی سے دوستی ہے۔
جو ہم یوں دربدر ہیں، بلکہ ہمارے خالق نے ہمارا رزق ہی یوں بکھیر رکھا ہے جس کو چننے کے لئے ہمیں در بدر بھٹکنا پڑتا ہے۔ خدا معلوم وہ لڑکا اس دوہڑے کے مفہوم اور اس میں چھپی اس حقیقت کو سمجھ رہا تھا یا نہیں، لیکن میرا دھیان اپنے اُن پاکستانیوں کی طرف چلا گیا جو رزق کی تلاش میں نگر نگر بھٹکتے ہیں ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس کم عمر لڑکے کا دوہڑا سن کے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ کیا خبر تھی کہ اک دن آئے گا جب خود میرا شمار بھی ان کونجوں میں ہونے لگے گا، پرندے ہوں یا انسان وطن چھوڑنا کسی کے لئے بھی آسان نہیں ہوتا۔ وطن چھوڑنے میں جہاں ہجر، فراق اور بیراگ ہے وہیں دیارِ غیر میں کٹھن مشقت، نامساعد حالات، ناگوار اور ناپسندیدہ رویوں کا سامنا اور بے بسی بھی ہیں۔ پردیس مجسم اورپیہم درد کا نام ہے۔ پرانے وقتوں میں پردیس اور مسافت کو بھی اک مکتب اور درس کا حصہ مانا جاتا تھا۔ بڑے بڑے علماء ، اساتذہ اور اولیاء اللہ کے حالات ِ زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو بڑے واضح الفاظ میں رقم ملتا ہے کہ اُن کے اساتذہ اور پیرومرشد انہیں سفر کا حکم دیتے رہے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ اقدار بھی بدل گئی ہیں۔ آج سفر وسیلہ ظفر نہیں رہا۔ آج سفر تکمیل خواہشات و ہوس کا روپ دھار چکا ہے۔ ایک آدھ دہائی پہلے تک ہم اہل ِ پاکستان بھی جب پردیس کا قصد کرتے تو کٹھن محنت کا عزم ہمارے ہمرکاب ہوتا۔ لیکن آج گھر چھوڑنے والے اقدار و روایات دفن کر کے گھروں سے نکل رہے ہیں۔ گھر چھوڑتے وقت کوئی ان کے کان میں کہنے والا شاید نہیں رہا کہ بیٹا جہاں جا رہے ہو، وہاں صرف تم ہی نہیں ہو گے۔
تم اک معاشرت ، اک ماحول، روایات اور اک ملک کی شناخت بن کے جا رہے ہو۔ وہاں اگر کوئی غلط کام کرو گے تو کوئی تمہیں تمہارے نام یا ولدیت کے خانے میں لکھے گئے نام سے نہیں پہچانے گا، وہاں تمہاری شناخت تمہارا ملک تمہاری دھرتی ہوگی۔ اور اس دھرتی کی عزت و حرمت تمہاری ماں کی آبرو و عصمت کی طرح انمول ہے۔ اب تو لگتا ہے کہ وطن سے روانہ ہونے والے ہر بچے کو یہ پڑھا کے دربدری پہ روانہ کیا جاتا ہے کہ یہ دو ہاتھ جو تم لے کے جا رہے ہو کبھی بھی انہیں شافعی و کافی نہ سمجھنا۔ ان دو ہاتھوں کو بارہ ہاتھوں کی طرح استعمال کرنا اور جو جو بن پائے سمیٹ لینا۔ جتنا زیادہ کماؤ گے اسی قدر شان و عزت پاؤ گے۔ کوئی تمہارے ذرائع نہیں پوچھے گا۔ صرف لوگ تمہارا جمع کیا گیا مال و اسباب دیکھیں گے۔ اور یہ جو تم نے کہیں پڑھ یا سن رکھا ہے ”جس نے مال جمع کیا اور گن گن کے رکھا قیامت کے دن اس مال سے ان کی پیشانیاں اور پشتیں داغی جائیں گی” اس سب کو بھول جاؤ۔ جس قدر کماؤ گے اُس میں سے اگر تھوڑا بہت مساجد کو یا اِن کے رکھوالوں کو دے دو گے تو قیامت کے دن یہی تمہاری دریادلی اور نیک نامی کے گواہ بن کے اٹھیں گے۔ جاؤ اور اُدھم مچا دو۔
وقت کس قدر بدل گیا ہے ۔ کیا یہی ہماری قدریں، ہمارا ایمان اور ہمارا اسلام ہے۔ آخر ہم کس سمت بے لگام بھاگے چلے جا رہے ہیں ۔ کئی سالوں سے یونان معاشی بحران کا شکار ہے۔ جب سے یونان میں کسادبازاری بڑھی ہے ، بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے، تارکین وطن کے رویوں میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اک وقت تھا جب یونان میں البانوی اور کُرد تارکین وطن کو اچھی نظرسے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستانی ”کالو پیدی” یعنی” شریف انسان ”کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے تھے۔ لیکن آج کوئی مقامی باشندہ البانوی یا کُرد تارکین وطن کو برا نہیں کہتا۔ اور وہ جو نیک نام تھے برائیوں اور جرائم میں بازی لے گئے ہیں۔ آج یونان میں پاکستانی ہی پاکستانی کا گلا کاٹتا نظر آ رہا ہے۔ اک عرصہ سے اغواء برائے تاوان کی لگاتار اور مسلسل وارداتیں سامنے آ رہی ہیں۔ کئی لوگ گرفتار ہو کے انجام کو پہنچ چکے ہیں لیکن ہوس تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ آئے روز اغواء اور قتل کی وارداتیں سامنے آ رہی ہیں۔
کل تک اغواء برائے تاوان میں منڈی بہاؤالدین کا نام سرفہرست تھا، لیکن اس ہفتے اغواء برائے تاوان کے سلسلہ میں سامنے آنے والی قتل کی جس واردات نے سب کو دہلا کے رکھ دیا ہے اُس میں ملوث پانچوں افراد کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔ واقعات کے مطابق 7 ماہ پہلے یونان وارد ہونے والے 17 سالہ نوجوان فرحان کے ہمراہ اس کا ہم عمر پنڈی چک گجرات کا محمد کاشف بھی آیا تھا۔ دوران سفر شناسائی ہوئی اور یہ شناسائی دوستی میں بدل گئی۔ محمد کاشف اور صغیر یونان پہنچ کے اپنے اپنے جاننے والوں اور عزیزواقارب کے ہاں قیام پذیر ہو گئے۔ لیکن ان کے رابطے بحال رہے۔ محمد کاشف جب سے یونان آیا تھا روزگار کی تلاش میں تھا۔ اس نے فرحان سے بھی کہہ رکھا تھا کہ اگر کہیں کام ہو تو بتائے۔ اک روز فرحان کا فون آیا کہ تمہارے لئے کام مل گیا ہے آ جاؤ۔ محمد کاشف اپنے عزیز محمد افضال کو بتاکر کام کے سلسلے میں ایتھنز ایئرپورٹ کے قریبی علاقے پیانیا چلایا۔ یہ 11 ستمبر کا واقعہ ہے۔ 11 ستمبر کے بعد کاشف کا افضال سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ افضال اپنے ذرائع سے محمد کاشف کو تلاش کرتا رہا کہ 14 ستمبر کو اُسے اک ٹیلیفون کال موصول ہوئی ، اگر کاشف کو زندہ و سلامت حاصل کرنا چاہتے ہو تو دس ہزار یورو کا انتظام کرو۔ 15 ستمبر کو محمد افضال نے منیدی تھانے میں کاشف کے اغواء کی رپورٹ درج کروا دی، اس کے بعد بھی رقم کے مطالبہ میں افضال کو ٹیلی فون کالز موصول ہوتی رہیں جن کا ریکارڈ اب پولیس کے پاس بھی موجود ہے۔ ایک دو بار اغواء کنندگان نے کاشف کی افضال سے بات چیت بھی کروائی۔ 19 ستمبر کے بعد اغواء کنندگان نے کاشف کی رہائی کے لئے رقم نصف کر دی لیکن کاشف سے ٹیلی فون پہ بات کروانے سے انکار کردیا۔ محمد افضال کو اغواء کنندگان کی باتوں پہ شک گذرا کہ افضال کو کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے۔
اُس نے کاشف کی تلاش میں شدت اختیار کرتے ہوئے بالآخر صغیر تک رسائی حاصل کر لی اور 7 اکتوبر کو پیانیا کے علاقہ میں ایک ماندرہ (کباڑخانہ) سے صغیر کو قابو کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ دو دن کی لگاتار پوچھ گچھ کے بعد صغیر نے انکشاف کیا کہ اس نے گوجرانوالہ کے فرحان، عثمان، ارشاد اور فرخ کے ساتھ مل کے کاشف کو اغواء کیا تھا اور گرفتاری کے ڈر سے ہم نے اسے قتل کر کے اُس کی لاش جنگل میں پھینک دی ہے۔ 8 اکتوبر کو محمد افضال اپنے دوستوں، مقامی و سماجی رہنما حاجی محمد افضل اور وینس ٹیلی ویژن کی ٹیم کے ہمراہ صغیر کی نشاندہی پر مارکوپولو کی پہاڑیوں میں ایک جگہ پہنچے جہاں پہ محمد کاشف کی مسخ شدہ لاش پڑی تھی۔ اس واقعہ کے بعد ارشاد نامی ایک ملزم پاکستان فرار ہو چکا ہے جبکہ فرحان عثمان جو کہ سگے بھائی بھی ہیں اور ان کا ایک ساتھی فرخ جس کا تعلق نوشہرہ ورکاں گوجرانوالہ سے ہے ،مسلسل روپوش ہیں۔
kidnapping for ransom
بات یہیں ختم نہیں ہوتی فی الحال ہم اس اغواء کو آخری اغواء قرار دے سکتے ہیں نہ اس قتل کو آخری قتل کہنے پہ اکتفا کیا جا سکتا ہے۔ اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں کبھی کمی آنے کی خوش فہمی ضرور ہوتی ہے لیکن جلد یا بدیر پھر کوئی واردات سامنے آ جاتی ہے۔ ابھی چند روز پہلے ہی نیکیا سے عرفان میتلا نامی شخص نے کئی لوگوں کو اٹلی پہنچانے کے بہانے اکٹھا کیا اور جبراً اُن سے رقم سمیٹ کے پاکستان فرار ہو گیا ہے۔ اب دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ کل تک پاکستان سے سنگین جرائم میں ملوث کئی افراد ڈنکیاں لگا کے یونان پہنچ رہے تھے اور اب یونان سے لوٹ مار اور قتل و غارت گری رچا کے لوگ پاکستان جانا شروع ہو گئے ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا پاکستان سے نکل بھاگے مفرور قاتلوں اور ڈاکوؤں کو یہاں یونان اور یونان سے سنگین جرائم کا ارتکاب کر کے پاکستان چلے جانے والوں کو گرفت میں لینے کا کوئی انتظام کیا جا سکتا ہے کہ نہیں۔پاکستان سے سنگین جرائم کے بعد بھاگ نکلنے والے کئی جرائم پیشہ آج بھی یونان کی سرزمین پہ موجود ہیں جنہیں اکثر لوگ جانتے اور پہچانتے بھی ہیں لیکن خاموشی میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
اب یہی خاموشی یہی مصلحت ہم سب سے خراج مانگ رہی ہے یا تو ہم لوگ ان وحشی درندوں کی چوکھٹ پہ خون کا نذرانہ دیتے چلے جانے کو رب کی رضا مان لیں یا پھر سفارت خانہ پاکستان اور یونان میں قانون کے محافظ اداروں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے انہیں بلادریغ قانون کے حوالے کر دیں۔ اس سلسلہ میں ہم سفارت خانہ پاکستان اور بالخصوص سفیر پاکستان جناب عرفان الرحمان راجہ سے بھی یہ امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے ذرائع اور وسائل استعمال کرتے ہوئے ایک قدم آگے آئیں گے اور پاکستانی محنت کشوں کو مزید امتحان میں ڈالنے سے بچاتے ہوئے ، جرائم پیشہ افراد پہ مضبوط گرفت کا انتظام فرمائیں گے۔