انٹرنیٹ کی ایجاد سے پہلے عالم بننے کیلئے یار لوگوں کو کتنے پاپڑ بیلنا پڑتے تھے، ہزاروں میل کا سفر پیدل یا گھوڑوں، گدھوں کے ذریعے طے کر کے کسی اسکالر تک رسائی حاصل کرنا پڑتی تھی۔
اسکے پاؤں دابنا ہوتے تھے، اسکی چلمیں بھرنا ہوتی تھیں، اسکی جلی کٹی سننا پڑتی تھیں اور اسکے بعد بھی ضروری نہیں تھا کہ وہ عالم اپنا سارا علم آپ کی جھولی میں ڈال دیتا بلکہ بعض اوقات تو سمندر سے پیاسے کو شبنم ہی ملتی تھی اور اسے اسی پر گزارا کرنا پڑتا تھا مگر جب سے انٹرنیٹ ایجاد ہوا ہے دنیا جہان کا علم خود چل کر آپ کے گھر کی دہلیز تک آن پہنچا ہے۔
سو یار لوگ ایک بٹن دباتے ہیں اور علوم وفنون اس کے سامنے ہاتھ باندھے آن کھڑے ہوتے ہیں چنانچہ جنہوں نے عالم بننا ہوتا ہے، وہ یہ علوم اپنے سینے میں اتار لیتے ہیں اور جنہوں نے دوسروں پر اپنے علم کا رعب ڈالنا ہوتا ہے، وہ مآخذ کا حوالہ دیے بغیر اسے اپنی تحریروں کا حصہ بنا دیتے ہیں۔
اسی طرھ جب چھاپہ خانہ ایجاد نہ ہوا تھا، علم دوستوں کو علم کے حصول کے لیے اسی کھٹالی سے گزرنا پڑتا تھا جس کا ذکر میں نے اوپر کی سطور میں کیا ہے لیکن چھاپہ خانے کی ایجاد کیبعد علم تک رسائی کا ایک شارٹ کٹ کتابوں کی صورت میں ہمیں مل گیا ہے۔
Adam
بقول عدم میں میکدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا ورنہ سفر حیات کا بے حد طویل تھا
اب تو صورت حال یہ ہے کہ دنیا میں شاید اتنے علوم و فنون نہیں ہیں جتنی ان پر کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ میں ذاتی طور پر کتاب کو انٹر نیٹ پر ترجیح دیتا ہوں۔ اسکی کئی وجوہ ہیں۔
ایک وجہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ بستر پر لیٹ کر نہیں پڑھا جا سکتا۔ اس کی نسبت کتاب اگر ضخیم ہو تو لیٹ کر پڑھنے کیبعد اسے سرہانے کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ ضخیم کتاب تو بوقت ضرورت آلہ ضرب کا کام بھی دیتی ہے۔
کتاب کو انٹرنیٹ پر ترجیح دینے کی دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ کتابیں مجھے مفت مل جاتی ہیں جبکہ آج تک کسی کو کمپیوٹر بھجوانے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی اور انٹرنیٹ پر کتاب کو ترجیح دینے کی تیسری، آخری اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مجھے انٹرنٹ استعمال کرنا ہی نہیں آتا۔
اگر آتا ہوتا تو آج میری شہرت صرف بطور کالم نگار نہیں بلکہ ماہر معاشیات، ماہر تعلیم، سائنس دان اور مورخ کے طور پر بھی ہوتی کیونکہ میں نے ان علوم کے مآخذ کا حوالہ تھوڑے ہی دینا تھا، یہ سب کچھ میں اپنے کھاتے میں ڈالتا اور میرے قارئین علم کی اس فراوانی پر مبہوت کھڑے نظر آتے۔
لیکن ہمارے درمیان کچھ نادان ایسے بھی ہیں جو انٹرنیٹ کے ہوتے ہوئے ایسے منصوبوں میں ہاتھ ڈالتے ہیں جن کی تکمیل کے لیے انہیں خود ہی ہاتھ پاؤں ہلانا پڑتے ہیں۔ انٹرنیٹ انکی مدد کو نہیں پہنچ سکتا۔ انہی نادانوں میں میرے ایک دوست عقیل عباس جعفری بھی ہیں۔
حال ہی میں انہوں نے ایک عوامی ” انسائیکلوپیڈیا ” پاکستان کرونیکل کے عنوان سے مرتب کیا ہے۔ اس میں پانچ ہزار سے زائد واقعات کا احوال اور چار ہزار سے زائد تصویریں دی گئی ہیں۔
ان واقعات اور تصویروں کا تعلق پاکستان کی سیاست، ادب، موسیقی، مصوری، فن تعمری، سائنس، صحافت، فلم، ٹیلی ویژن، ریڈیو، صنعت و تجارت اور سپورٹس سے ہیں۔
عقیل عباس نے جہازی سائز کے 1080 صفحات میں یہ سب تفصیلات ہمیں فراہم کی ہیں۔ بقول مصنف یہ کتاب ماہ بہ ماہ طرز پر مرتب کی گئی ہے۔ کتاب کا آغاز اگست 1947ء سے ہوتا ہے اور اختتام دسمبر 2009ء پر۔
ہر ماہ کے واقعات کے پانچ حصے ہیں۔ پہلا حصہ اس ماہ کا کیلنڈر ہے جس کی مدد سے آپ ہر واقعے کی وقوع پذیری کا دن معلوم کر سکتے ہیں۔ پھر اس ماہ میں پیش آنیوالے نسبتا کم اہم واقعات کا ایک کالم ہے۔ اسکے بعد ہر ماہ کے چند اہم واقعات کی تفصیلات مع تصاویر، ان واقعات کی سرخی کے تحت درج کر دی گئی ہیں۔
چوتھا باکس ہجری تاریخوں کا ہے جس میں ہر عیسوی ماہ کی پہلی تاریخ سے مطابقت رکھنے والی ہجری تاریخ اور اس ماہ میں شروع ہونے والے ہجری مہینے سے مطابقت رکھنے والی عیسوی تاریخیں درج کی گئی ہیں۔ یہ تاریخیں کسی تقویم یا کسی فارمولے کی مدد سے نہیں بلکہ اخبارات کی فائلوں سے حاصل کی گئی ہیں۔ اسکے بعد ہر ماہ کا پانچواں اور آخری باکس پیدائش اور دینیات کا باکس ہے۔ جس میں اس ماہ پیدا ہونیوالے اور وفات پانے والی شخصیات کا نام اور وجہ شہرت درج کر دی گئی ہیں۔
کتاب کا ایک اختصاص ہر سال کا ایک منتخب اشتہار ہے جس سے پاکستان میں اشتہاریات کی صنعت کے ارتقاء کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کتاب کے آخر میں کتاب میں درج تفصیلی واقعات کا ایک الفبائی اشاریہ بھی شامل کیا گیا ہے جس کی مدد سے کتاب سے استفادہ کرنا بہت سہل ہو گیا ہے۔
اس تفصیل سے قارئین کو یقینق یہ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ہمارے عقیل عباس جعفری کو اس کتاب کی تدوین میں کتنی محنت کرنا پڑی اور انہیں کیسے کیسے مراحل سے گزرنا پڑا، اس طرح کے بڑے کام سید قاسم محمود کیا کرتے تھے، اکیلے مرحوم کا کام کروڑوں روپے گرانٹ حاصل کرنیوالے اداروں پر بھاری تھی۔
اب یہ ذمہ داری برادرم عقیل عباس جعفری نے اپنے سر لی ہے۔ میں دعا ہی کر سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید حوصلہ، مزید ہمت اور مزید طاقت عطا فرمائے تاکہ وہ اسطرح کے مزید کارنامے انجام دے سکیں۔ آخر میں ان کیلئے ایک مشورہ بھی جو بالکل مفت ہے اور وہ یہ کہ آئندہ وہ شخصیات اور کتابوں وغیرہ کے ذکر کے حوالے سے ایک معیار متعین کریں اور یہ معیار غیر معمولی خدمات کے حوالے سے ہو کیونکہ درمیانے درجے کے لوگ تو ہمارے ہاں ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور یوں وہ یہ شکوہ کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ انکا ” زکر خیر ” کتاب میں کیوں موجود نہیں۔
انہی دنوں ” پاکستان کرونیکل ” کے علاوہ اور بھی بہت سے کتابیں مجھے ڈاک میں موصول ہوئی ہیں جن میں غزل کے خوبصورت شاعر حسن عباسی کا شعری مجموعہ ” اک شام تمہاری جیسی ہو” نامور افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس یونس جاوید کے تازہ افسانوں کا مجموعہ ” ربا سچیا، رب قدیر ” پروفیسر فتح محمد ملک کی ایک منفرد کتاب ” ن ۔ م۔ راشد۔ سیاست اور شاعری”، پیر محمد ابراہیم شاہ کی سلگتا بغداد” مولانا جعفر قاسمی کے خیال امروز مضامین پر مشتمل کتاب ” محشر خیال ” فاخرہ رضوی کا شعری مجموعہ ” جدا ہونا نہیں ہم نے ” ۔ پروفیسر مرجب قاسمی کے خاکوں کی کتاب ” چنیدہ شنیدہ ” صاحب اسلوک مزاح نگار محمد کبیر خاں کی خاکوں کی کتاب ” پہاڑ لوگ (1) ”نوجوان شگفتہ نگار وحید الرحمٰن خان کی دو کتابیں” حفظ ماتبسم ” اور ” خانہ خرابیاں ” اس شہر خرابی میں اور سرائیکی ادب، افکار و جہات ایسی کتابیں بھی شامل ہیں جو میری لائبریری کا حصہ بن گئی ہیں۔
stack of books
سو اگر اللہ نے چاہا تو مجھے علم کے حصول کے لیے کالے پانیوں جیسا سفر طے کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ آپ بھی اس نسخے پر عمل کریں، کتابوں سے لو لگائیں اور گھر بیٹھے عالم بن جائیں، رام بھلی کرے گا!