کہتے ہیں کہ حضرت انسان روزاول سے امید کے سہارے زندہ ہے. اور آج بھی وہ امید کا دامن تھامے پھر رہا ہے کہ شاید کل نہیں تو آج یا پھر آنے والے کل اسکی امیدیں پوری ہوں اسکی خواہشات کی تکمیل ہوجائے اور اسکے سہانے سپنے پورے ہوجاہیں اور وہ اطمینان سے اپنے فرائض پورے کرتا اگلے جہاں سدھار جائے.امید کی کشتی میں کیا امیر کیا غریب سب ہی براجمان نظر آتے ہیں.اور امید بھی کیا ایاز کیا محمود سب کو تسلی تشفی اور آس دیتی نہیں تھکتی،بلکہ بعض اوقات تو امید قسمیں کھاتی دکھائی دیتی ہے کہ وہ اسکی امید بر لائے گی.اب یہ اور بات کہ حضرت انسان ایک طرف امید کا دامن اوردوسری طرف بے یقینی کا پلو پکڑئے گومگو کی کیفیت میں کھڑا کبھی ادھر کو جاتا اور کبھی ادھر کو گرتا ہے۔
ایک قصہ کا خلاصہ کہ ایک شخص دوسرے گاؤںاپنی دو شادی شدہ بیٹیوں سے ملنے گیا ایک جو کمہار کے ہاں بیاہی تھی اس نے کہا ” ابا ..!! دعا کرنا آج یا کل بارش نہ ہو..کہ میرے سارے مٹی کے برتن دھوپ میں سوکھ رہے ہیں.” دوسری جو زمیندار کی بیوی تھی اس نے کہا ” ابا..!! دعا کرنا آج یا کل بارش ہو ..ہر طرف جھل تھل ہو جائے مردہ فصلوں میں جان آئے اور گھر اناج سے بھر جائے” واپسی پر اس شخص نے اپنی بیوی سے کہا ” نیک بخت آج یا کل ہماری ایک بیٹی تو لازمی معاشی بدحالی کا شکار ہوگی.” امید اور یقین کا چولی دامن کا ساتھ ہے.ہر بیٹی کو امید تھی کہ اللہ اسکی مدد کرئیگا…مگر باپ کو صرف یقین تھا کہ کسی ایک کی امید تو لازمی پوری ہوگی۔ہماری قوم بھی اسی آس ویاس میں ہے کہ بارش ہودوسرے کی خواہش کہ بارش نہ ہو،کوئی ن لیگ کی امید لیے مرا جا رہا ہے، کوئی پیپلز پارٹی کی اگلی باری کا انتظارموت سے بڑھ کے کر رہا ہے. اور بیشتر بھلے مانس لوگ کپتان کو لانے پر بضد ہیں، زمینی حقائق سمجھنے کو کوئی تیار نہیں۔
سب بزرجمہراپنے اپنے زبردستی کے فیصلوں پر قائم،ہٹ دھرمی کا سونامی اٹھائے فتح پور کا سیکری ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ زمینی حقائق سمجھنے کو کوئی تیار نہیں !! امید کی ٹرین پر سب بغیر ٹکٹ چڑھ جاتے ہیں، یہ کسی کو نہیں پتہ کہ جانا کہاں ہے منزل کونسی ہے انجن آگے لگا ہے یا پیچھے، بس سب کو ایک فکر ہے کہ گاڑی ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے!! شیخ رشید کو امید کہ کپتان کی پارٹی اسے سنبھالا دے گی اور اسکی گرتی ساکھ بحال ہوگی ادھر کپتان کو امید کہ لال حویلی تحریک انصاف کا ‘پنڈی پوائنٹ ‘ ثابت ہوگی لیکن افسوس کہ معاملہ ‘ زیرو پوائنٹ ‘ پر ختم ہوتا نظر آرہا ہے.ن لیگ کو امید کہ اب کہ باری انکی ہے لیکن ‘ اگلی باری پھر زرداری ‘ کا نعرہ بھی پریشان حال اور دنیا کی مظلوم پاکستانی ستائی عوام اور لیگیوں کے کانوں پر سوہان روح بن کے گونج رہا ہے.حالانکہ زمینی حقائق کچھ اور کہہ رہے ہیں.عوام پر گرائی جانے والی بجلیاں میں سے کوئی ایک شرارہ ہی بلاآخر موجودہ حکومت کے تابوت کا آخری کیل ثابت ہو سکتا ہے،عوام کی یہی ایک امید ہے جس پر وہ کل کی بہتری کی آس پر زندہ ہیں.میڈیا اور اسکے سردار اس امید پر ڈٹے رہیں گے کہ اس ملک کا مستقبل اسکے بچے،نوجواں اور ووٹر ز نہیں۔۔۔بلکہ انکے زرگزیدہ اینکرز کے وہ افلاطونی زریں خیالات رہیں گے جو وہ ہمیشہ دیتے چلے آئے ہیں. اور انہی کی بدولت جمہوریت کا فروغ اور اسکا حسن برقرار رہے گا. ڈرون گزیدہ اس آس اور امید پر جیئے جارہے ہیں کہ کبھی تو کوئی غیرت کھائے گا ، انہیں اور انکے معصوم پھول جیسے بچوں کو آسمان سے گرتے آگ کے قہر سے بچائے گا، اور وہ امید بھی حکومت سے نہیں فوج سے لگائے بیٹھے ہیں۔
Pak Army
وہ فوج جو خود دہشت گردی کے ہاتھوں آہ و فغاں کے خارزار سے گزر رہی ہے ،اور اس امید پر اپنی ساکھ بچانے میں لگی ہے کہ اسے ‘گرین سگنل’ ملے اور وہ کوئی کاروائی کرئے،اب کون اور کب گرین سگنل اسے دئے گا بقول شاعر ” توں امید دا ڈیوا بال رکھ۔۔۔ہوا جانے خدا جانے!!!” لوڈشیڈنگ کے مارے لوگ یعنی ذلتوں کے مارے لوگ اس امید پر اگلے الیکشن میں ووٹ دیں گے کہ شاید نئی حکومت کو ان پر رحم آجائے اور 2015 تک پاک ایران گیس ان کے دلدر دور کر دئے،لیکن زمینی حقائق سمجھنے کو کوئی تیار نہیں !! لیکن حکمرانوں کے وعدوں،دلکش نعروں اورخود فریبی کی جلیبی بائی بے چاری عوام کو امید کی چھمک چھلو دکھا دکھا کے اب خود تنہائی کا شکار ہو چلی ہے کہ اسکے اعتبار کا کریکٹر کچھ ڈھیلا سا پڑ گیا ہے،لیکن بے چاری عوام آج بھی حضرت اقبال کا قول نبھائے چلی آرہی ہے کہ پیوستہ رہے شجر سے۔۔امید بہار رکھ کے مصداق وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی پرامید ہیں اور پھر وہ جائے بھی تو جائے کہاں،نہ کوئی جائے امان نہ کوئی ٹھکانہ،لے دے کہ یہی ایک ملک انکی امیدوں کا مرکز اور وہ کلینک ہے جہاں پر سب کو خوشیاں مل سکتی ہیں بشرط کہ آپ امید سے ہوں۔