سانحہ کارساز کو پانچ برس ہوگئے لیکن اس دلخراش واقعے کی یادیں آج بھی رونگٹے کھڑی کردیتی ہیں۔ زندگی کا جشن موت کے ہولناک رقص میں کیسے بدل گیا۔اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو بینظیر کی طویل جلاوطنی کے بعد کراچی ایئرپورٹ آمد پر لاکھوں جیالوں نے فقید المثال خیرمقدم کیا۔ لیکن یہ تاریخی استقبال کا ہی نہیں المناک سانحے کا دن بھی ثابت ہوا۔ شاہراہ فیصل کارساز پر رات بارہ بجے ہولناک بم دھماکے نے ایک سو ستر جانیں لے لیں اور دو سو سے زائد زخمی ہوئے۔
جاں بحق ہونے والوں میں بینظیر کی حفاظت پر مامور پچیس سے زائد جانثاران بینظیر بھی تھے۔ لیاری نوالین کے رہائشی اور جانثاران بینظیر دستے میں زخمی ہونے والے داد رحیم کاکہنا ہے کہ یہ واقعہ بھلائے نہیں بھولتا۔ پیپلزپارٹی کی رکن سندھ اسمبلی فرزانہ بلوچ کا کہنا ہے کہ بینظیر کی واپسی پر منائی جانے والی خوشیاں خونی واقعے سے ماتم میں بدل گئیں۔
جہاں زندگی جشن منارہی تھی آن کی آن میں وہیں موت کا ہولناک رقص ہوا۔ اٹھارہ اکتوبر کا واقعہ آج بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ تحقیقات کیلئے قائم مختلف کمیٹیاں کوئی ملزم گرفتار نہیں کرسکیں۔ ایک تفتیشی افسر ڈی ایس پی نواز رانجھا کو ڈھائی برس قبل ایم اے جناح روڈ پر قتل کردیا گیا۔ ایک سو ستر انسانوں کی جانیں لینے والے قاتل آج تک بے نقاب نہیں ہو سکے۔