بابو1988ء میں سائوتھ انڈیا کیرلا سے روزگار کے سلسلے میں دبئی آیا تھا ۔وہ پیشے سے ایک درزی تھا ۔ 1986ء میں بابو کی شادی ہوئی اور وہ اپنی شادی کے تقریبا ً پونے دو سال بعد ہی انڈیا سے دبئی آگیا تھا۔ اپنے وطن سے دور دیارِ غیر میںاپنے آپ کو سٹیبلش کرنے کے لئے شروع شروع میں جو پریشانیاں سب کو اٹھانی پڑتی ہیں بابو کو بھی ان تماما پریشانیوں کا سامنے کرنا پڑا تھا۔ بابو سے میری جان پہچان تقریباً پچھلے کوئی چھے سات سال سے تھی وہ پینٹ شرٹ کی سلائی میں بہت مہارت رکھتا تھا ہم سب دوستوں کو صرف بابو ٹیلرماسٹر کے ہی سلئے ہوئے کپڑے پہننے کی عادت سی ہو گئی تھی ۔با بو ایک اچھا درزی ہونے کے ساتھ ساتھ خوش مزاج اور بلند اخلاق کا مالک تھا ہم جب بھی اس کی شاپ پر جاتے وہ ہمیں کسٹمروں کی طرح نہیں بلکہ دوستوں کی طرح ٹریٹ کرتا تھا ۔ شاید اب چند دوست بور ہونے لگے ہونگے کہ یہ میں نے کیا اپنے درزی کی کہانی شروع کردی ہے تو میںان معزز دوستوں سے معذرت خواہ ہوںلیکن آ پ سب کو بابو ٹیلر ماسڑ کے بارے میں اتنا سب کچھ بتا نے کی وجہ اس لئے پیش آئی ہے کیونکہ آج وہ بابو ٹیلرماسڑ ہم میں موجود نہیںہے۔
آخری بار میری جب اس سے ملاقات ہوئی تھی تو وہ بتا رہا تھا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دبئی چھوڑ کر انڈیا واپس جارہاہے لیکن شاید خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا کیونکہ بابوٹیلر ماسٹر نے صرف دبئی کو ہی نہیںچھوڑ ا بلکہ اس دنیا کو ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیاہے اب ہمارا با بو ٹیلر ماسڑ اس دنیا میں نہیں رہا 15اکتوبر 2012ء کو دبئی میں ہی اچانک دل کا دورہ پڑنے سے بابو کی موت ہوگئی تھی ۔ معزز قارئین بس یہی کھر ا سچ ہے مرنا تو ہر کسی نے ہے کوئی آج تو کوئی کل لیکن چند اموات ایسی ہوتی ہیں جن کو بھول پانا نا ممکن ہوجاتا ہے بابو ٹیلر ماسٹر کی موت کا صدمہ بھی میر ے لئے ایک ایسا ہی غم ہے شاید میںاپنی زندگی میں کبھی بھی بُھلا نہ سکوں صرف اس لئے نہیں کہ وہ ایک اچھا درزی تھا بلکہ اس لئے کہ اس جیسا بد نصیب انسان میںنے اپنی زندگی میںنہیںدیکھا۔بابو کی وہ کہانی جو اس کی موت کے بعد ہمیں پتہ چلی جس نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا ۔ بد نصیب بابو ٹیلر ماسٹر کی وہ کہانی میں اپنے تما م قارئین کو سنا نا چاہتا ہوں ۔درپن جو بابو ٹیلر ماسٹر کے ساتھ کام کرتا تھا اس نے ہمیں بتایا کہ بابو نے تقریباً چوبیس سال کے بعد20اکتوبر 2012 کو پہلی بار انڈیا اپنے گھر جانا تھا کیونکہ وہ جب سے دبئی آیا تھاتب سے واپس انڈیا نہیں گیا تھا۔
ہم نے بابو کی چوبیس سال تک اپنے ملک واپس نہ جانے کی وجہ دریافت کی تو درپن نے بتایا کہ اصل میں بابو بچارے کا بال بال قرض میں ڈوبا ہوا تھااس نے وہ قرض اپنی شادی اور دبئی آنے کے لئے اٹھا رکھا تھا لیکن بدقسمتی یہا ں دبئی آکر بھی وہ ایک سال تک تو بالکل فارغ رہا اسے کوئی کام نہ مل سکا اور قرض میں اضافہ ہوتا گیا جب کام ملا تو اس کے کچھ عرصے بعدہی بابو کی انڈیا میں بیٹی پیدا ہوئی جس پر تقریباً ہسپتال کاایک لاکھ روپے سے بھی زیادہ کا بل بنا تب با بو نے ایمرجنسی میںیہ رقم اپنے ارباب (مالک) سے ادھار لے کر انڈیا بھیج دی تھی۔بابو کی تنخواہ اتنی زیادہ نہیں تھی کہ جس سے وہ انڈیا اور دبئی سے لیا ہو ا قرض بھی اتارتا اور اپنے گھر کے اخراجات بھی پورے کرتا اسی طرح دن گزرتے گئے لیکن با بو کے اخراجات اور قرض میںکمی آنے بجائے اضافہ ہوتا چلاگیا ملک میں کبھی کوئی بیمار ہے تو کبھی کسی رشتہ دار کی شادی ہے کبھی کوئی پھٹیک تو کبھی کوئی انہیں حالات میں بابو کو 16برس بیت گئے اپنو ں سے دور ہوئے اب بابو کو اپنوں کی یاد نے ستانا شروع کردیا تھا خا ص طور پر اسے اپنی بیٹی کی بہت یا د آتی تھی جو اب جوان ہوچکی تھی لیکن بابو کی بدقسمتی تھی کہ اس نے ابھی تک اپنی بیٹی کو دیکھا تک نہیں تھا آخر کار بیٹی کے پیار میں مجبور باپ سے رہا نہ گیااور با بونے کچھ اور قرض لے کر انڈیا واپس جانے کا ارادہ کرلیا۔
بابو نے یہ خوشخبری سنانے کے لئے انڈیا اپنے گھر فون کیا تو اس سے پہلے کہ بابو اپنے انڈیا آنے کی خوشخبری دیتا اسکی بیوی نے اسے یہ خوشخبر ی سنا دی کہ اسکی بیٹی نے انٹر میڈیٹ کا امتحان اچھے نمبروں میںپاس کرلیا ہے اور اب گریجوایشن کرنے کے لئے کسی اچھی بونیورسٹی میںبھیجنا ہوگا جس کے لئے کافی پیسوں کی ضرورت ہوگی اس لئے آپ جلدی سے پیسوں کا بندوبست کردیں۔بابو نے اپنی بیوی کی بات سنتے ہی اپنی خوشخبری کو اپنے اند ر ہی چھاپا لیااور پر نم آنکھوں سے اپنی بیوی کو جواب دیا پیسوں کا بندوبست ہوگیا ہے میری بیٹی یونیوورسٹی ضرور جائے گی۔
بابو نے وہ رقم جو انڈیا جانے کے لئے ادھار لی تھی وہی رقم اپنی بیٹی کے ایڈمیشن کے لئے بھیج دی اس طرح بابو کا سولہ سال بعد بھی اپنے ملک واپس جانے اور اپنی بیٹی کو دیکھنے کا خواب پورا نہ ہوسکا ۔بابوکی بیٹی پیدا ہوئی جوان ہوئی اور گریجویٹ بھی ہوگئی لیکن بدنصیب باپ بیٹی کو دیکھنے کے لئے ترستا رہا۔لیکن اب جو درپن نے بتایا وہ سن کر میری آنکھوں سے آنسوں سیلاب کی طرح بہنے لگے جب درپن نے یہ بتایا کہ 25مئی 2009ء میںبابو کی بیٹی کی شادی ہوئی تھی لیکن لاکھ کوششیںکرنے کے باوجود وہ بیٹی کی شادی میں بھی شرکت نہ کرسکااور وجہ تھی وہی پیسہ کیونکہ اسکی بیٹی کی شادی پر جو اخراجات آرہے تھے اگر اس میںبابو انڈیا جاتا تو وہ اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے لہذا اس بار بھی بابو نے اپنی بیٹی کی شادی کو اپنے انڈیا جانے سے زیادہ ضروری سمجھا اور اپنی خوشی سے زیادہ اپنے فرض کو اہمیت دی۔20اکتوبر 2012ء کا دن بابو کے لئے زندگی کا سب سے زیادہ خوشی کا دن تھا کیونکہ یہ وہ تا ریخ تھی جس تاریخ کو بابو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے انڈیا واپس جارہاتھا ۔اب ہمارے ساتھ ساتھ درپن کی آنکھوںمیں بھی آنسوں بھر آئے تھے اس نے بتایا کہ بابو انڈیا واپس جانے کے لئے بڑا بے تاب اور بہت خوش تھا ۔15اکتوبر کی شام تقریباً ساڑھے پانچ کا ٹائم ہوگا بابو انڈیا جانے کے لئے ٹکٹ آفس سے ٹکٹ خرید کر باہر نکلا ہی تھا کہ اچانک دل کادور ہ پڑنے سے بابو کی موقع پر ہی موت ہوگئی۔بابو کا وہ خواب جو اسکی جاگتی آنکھیں دیکھتی تھیں وہ اسکی بند آنکھوں نے پورا کردیا اور تقریباً ایک ہفتے بعد بابو کی لاش اس کے گھر انڈیا پہنچ گئی۔
بابو جیسے آج بھی ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو کئی کئی سالوں سے اپنے پیاروں سے دورپردیس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیںروزگار کے سلسلے میں بیرونِ ممالک جانیوالے لوگ جانے انجانے میں ایسی دلدل میںپھنس جاتے ہیں جہاں سے ان کا نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر ہمارے ایشین ممالک میں سے کسی بھی ایک گھر کا ایک فرد اگر روزگار کے لئے بیرون ملک چلا جائے تو ساتھ ہی ان کے گھر والوں کی خواہشات بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور ان خواہشات کی خاطر بَلی چڑھنا پڑتا ہے کسی ایک بابو ٹیلر ماسٹر کو جو اپنی تمام تر زندگی ان خواہشات کو پور ی کرنے میں صرف کردیتا ہے ۔بیرون ممالک میںکام کرنے والے لوگوں کے رشتہ دار ،گھروالے اور دوست احباب کبھی کبھی تو ایسی نامعقول خواہشات کا اظہار کرتے ہیں کہ جن کو پورا کرنا بالکل ناممکن ہوتا ہے اور پھر اگر وہ خواہشات پوری نہ کی جائیں تو ان کی طرف سے شدید ناراضگی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے شاید وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بیرون ممالک میں پیسہ کمایا نہیں جاتا بلکہ درختوں پر اگتا ہے۔
International calls
اب تو شاید ہمارے حکمران بھی یہی سمجھنے لگے ہیں اسی لیے توبے حس حکمرانوں نے پاکستان میں آنے والی ہر انٹرنیشنل کال کے ریٹ میں500%اضافہ کر دیا ہے۔ پردیس میں رہتے ہوئے پردیسیوں کے پاس اپنوں کی خوشیوں اورغموں میں شریک ہونے کا ٹیلی فون ایک واحد ذریعہ تھا لیکن ظالم حکمرانوں نے پردیسیوں سے وہ خوشی بھی چھین لی ہے۔شاید ہمارے حکمران پردیس میں رہنے والے پاکستانیوں کو پاکستانی ہی نہیں سمجھتے ہیں اور شاید وہ چاہتے ہیں کہ روزگار کے لئے پاکستان چھوڑ کر جانے والے پاکستانی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پردیس میں ہی رہیںا ور ایک دن ،بابو ٹیلر ماسٹر کی طرح بے بسی کی موت مر جائیں۔ بچارے بابو ٹیلر ماسٹر کی ڈیڈ باڈی تو کسی نہ کسی طرح انڈیا پہنچ ہی گئی تھی لیکن ہمارے حکمرانوں کی بے حسی دیکھ کر تو ایسے لگتا ہے کہ کہیں یہ حکمران بیرون ممالک میں مر جانے والے پاکستانیوں کی ڈیڈ باڈیز کوپاکستان بھیجنے پر بھی ا تنا بھاری ٹیکس نہ عائد کر دیں کہ لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں دیکھنے سے بھی محروم ہوجائیں۔دیارِ غیر میںرہ کر اپنے خاندان کی خاطر روزگار کے لئے جدوجہد کرنا بھی ایک طرح کا جہاد ہے کیونکہ پردیسی بن زندگی گزارنا کتنا مشکل ہے اس اہمیت کو وہی سمجھ سکتا ہے جو ایسی اذیت بھری زندگی گزار چکا ہو۔ پردیس میں رہنے والے پوری دنیا کے تمام پردیسیوں کو میں اپنی طر ف سے خراج تحسین پیش کرتا ہوںاور اپنے پرودگار کے حضوریہ دعا کرتا ہوں کہ اللہتعالیٰ سب کو اپنی حفظ و امان میںرکھے اور اگر موت دے تو اپنے ہی دیس میں دے پردیس میں نہ دے۔
تحریر : کفایت حسین کھوکھر(صدر کالمسٹ کونس آف پاکستان۔u.a.e)