زندہ اور ذی شعور قوموں کی یہ نشانی ہے کہ وہ تاریخ کو فراموش نہیں کرتیں اور نہ ہی اپنے ان ہیروز کے احسانوں کو بھولتی ہیں جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دے کر اپنے ملک، علاقے اور مٹی کو ایک پہچان دی ہوتی ہے۔ وہ اُن کی یاد سے جڑی ہر شے محفوظ کر لیتی ہیں تاکہ اس کے ذریعے نئی نسل کو اپنے اسلاف اور ہیروز کے بارے میں مکمل آگاہی ہو مگر یار لوگ کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی مردہ پرست قوم بنتے جا رہے ہیں۔ ہم اپنے بڑے لوگوں کو ان کی زندگی میں تو نظرانداز کئے رکھتے ہیں لیکن جب وہ دُنیا سے چلے جاتے ہیں پھر ان کی بڑائی کا احساس و ادراک ہوتا ہے جبکہ اکثر ایسے لوگوں کو ہمیشہ کیلئے ہی بھول بھی جاتے ہیں۔ سرزمینِ ہزارہ نے کئی ایسی عظیم شخصیات کو جنم دیا جنہوں نے مختلف شعبوں میں نہ صرف اپنا نام روشن کیا بلکہ ملک و قوم کو بھی عزت بخشی۔ ان شخصیات میں ایک نام نامور ادیب اور مزاح گو شاعر نیاز سواتی کا بھی ہے جن کا تعلق سبزہ زاروں، جھیلوں اور چراگاہوں کی سرزمین مانسہرہ کے علاقے وادیٔ کونش سے تھا۔
وادیٔ کونش ضلع مانسہرہ کا ایک خوبصورت سیاحتی اور تفریحی مقام ہے جو پاک چین دوستی کی علامت شاہراہ قراقرم کے دونوں جانب واقع ہے۔ دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے جنت کی حیثیت رکھنے والے ملک پاکستان کے تفریحی مقامات سوات، کالام، مالم جبہ، کاغان، ناران، شوگراں، ایوبیہ، ٹھنڈیانی، مری، ہنزہ، کالاش اور شمالی علاقہ جات اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں لیکن حالیہ برسوں کے دوران جس علاقہ نے سیاحوں کو اپنی جانب راغب کیا وہ وادیٔ کونش یا کونش ویلی کہلاتا ہے۔ یہ علاقہ اپنے دلفریب، موہ لینے والے مناظر، روح پرور آب و ہوا، بلند و بالا فلک بوس سفید لباس اوڑھے کوہسار، دیدہ زیب اور دل کشا مرغزاروں اور جنگلات، جاذب نظر آبشاروں، حد درجہ خوبصورت، پُراسرار اور طلسماتی نیلگوں جھیلوں کی وجہ سے خاص شہرت رکھتا ہے جبکہ وادیٔ کونش کی جغرافیائی حیثیت یہ ہے کہ اس کے گردونواح کا ہر علاقہ قدرتی حسن سے مالامال ہے۔ جہاں تک نظر دوڑائی جائے قدرتی مناظر کا ایک دلکش سلسلہ جا بجا پھیلا دکھائی دیتا ہے۔
اس حسین و جمیل وادی کے گائوں بھوگڑمنگ میں 29اپریل 1941ء کو نامور مزاحیہ شاعر نیاز سواتی نے جنم لیا۔ نیاز سواتی کا اصل نام نیاز محمد خان تھا۔ آپ نے ڈگری کالج ایبٹ آباد سے بی اے اور لاء کالج پشاور سے ایل ایل بی کیا جبکہ ایبٹ آباد میں بطور سینئر پاپولیشن پلاننگ آفیسر کام کرتے رہے۔ اس دوران آپ اُردو اور ہندکو زبان میں طنزیہ و مزاحیہ شاعری بھی کرتے رہے۔ نیاز سواتی کی شاعری مختلف اخبارات و رسائل اور عام مشاعروں کے ذریعے عوام تک پہنچی۔ اس شاعری میں انہوں نے سماجی برائیوں اور زندگی کے حقائق پر خوب نشترزنی کی ہے۔ نیاز سواتی کی نظموں میں طنز و مزاح کی کئی جہتیں بیک وقت عمل پذیر ہو کر قاری کے ذہن کو جھنجھوڑنے لگتی ہیں اور وہ گہری سوچ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ ہزارہ کے مشاعروں کے روح رواں سمجھے جاتے تھے۔ اُن کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری واعظ و محتسب، عشق و محبت، صنفِ نازک اور اس کے متعلقات پر مبنی ہے جبکہ سیاسی لیڈروں اور سیاسی رحجانات پر بھی تسلسل کے ساتھ طبع آزمائی کر چکے ہیں۔
نیاز سواتی گو کہ سنجیدہ شاعری بھی کرتے رہے مگر انہیں طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے سبب زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ طنز و مزاح سے لبریز ان کا کلام پڑھنے سے قاری کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہو جاتی ہے۔ راجہ مہدی علی خان، حاجی لق لق، مجید لاہوری، حضر تمیمی، سید محمد جعفری، ظریف جبل پوری، نذیر احمد شیخ، آزر عسکری کی طرح نیاز سواتی بھی ایک ایسے ہمہ وقت مزاح گو شاعر تھے جنہوں نے چمنستانِ طنز و مزاح کو تروتازہ کیا جبکہ انور مسعود، امیر الاسلام ہاشمی، سرفراز شاہد، عنایت علی خان، خالد مسعود، زاہد فخری، انعام الحق جاوید ، سلمان گیلانی اور افضل خاکسار جیسے نامور شاعروں کی شہرت دوام کا باعث بھی یہی طنزیہ و مزاحیہ شاعری ہے اور یہ شعراء اب بھی دنیائے ادب کا ایک بے حد معتبر نام، طنز و مزاح کے افق پر سب سے منور اور درخشاں روشن ستارے سمجھے جاتے ہیں۔
Khamosh Tamasha
مجھے سنجیدہ شاعری سے اتنی دلچسپی نہیں البتہ طنزیہ و مزاحیہ شاعروں کے کلام پڑھنا اور سننا ضرور پسند کرتا ہوں۔ نیاز سواتی میرے پسندیدہ شاعر تھے مگر افسوس کہ طنز و مزاح کا ایک مقبول اور روشن باب اُس وقت ختم ہو گیا جب وہ 13اگست 1995ء کو ہری پور (ہزارہ) میں ایک المناک ٹریفک حادثے کے دوران اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ جب میں آٹھویں یا نویں جماعت کا طالبعلم تھا اُن دنوں ہمارے گھر میں پاکستان آرمی کا ماہنامہ میگزین ”ہلال” باقاعدگی سے آتا تھا۔ اس میگزین کے ذریعے میرا پہلی بار نیاز سواتی کی شاعری سے تعارف ہوا ۔ ادب اور شاعری قوموں کو زندہ و تابندہ رکھنے کے وسیلے ہیں۔ کسی بھی زندہ قوم کی پہچان اس کی تہذیب، زبان، ادب اور فلسفے سے ہوتی ہے جنہیں پھیلانے اور مشتہر کرنے کیلئے شاعری سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ نیاز سواتی خود تو ہم میں موجود نہیں لیکن اُن کی شاعری آج بھی زندہ ہے البتہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم اس نامور مزاح گو شاعر کو بھولتے جا رہے ہیں۔