زندگی خا لق ِ کائنات کی ایک عظیم اور خو بصورت امانت ہے۔جو ربِ کائنات نے انسان کو بخشی کہ وہ دنیا میں ایک مخصوص مدت کے لیے اس کی حفا ظت کرے۔اُسے دنیا کے سرد گرم سے بچا ئے اور اپنے رب کو اسی طرح لٹا ئے جس طرح اسے دی گئی۔ذرا سوچیں کیا ہم اسے خوبصورت نعمت کی حفاظت کرتے ہیں یقینا نہیں۔ بلکہ ہم نے تو اس کو آزمائش کی چیز بنا رکھا ہے ۔ ہم اس پر ستم روا رکھتے ہیں ۔ یہ خوبصورت نعمت جسے ہم زندگی کہتے ہیں۔ زندہ لاشوں کو صورت میں سسکتی انسانیت کی صورت میں ہمیں گلی کوچوں میں ، نالیوں کے پاس مزاروں کے احاطے میں، قبر ستانوں میں مُردوں کے درمیان اس طرح پڑی نظر آتی ہے جیسے کوئی بے مایہ اور حقیر چیز ۔
کیا یہ افسوس کا مقام نہیں؟ اس کے پیچھے کیا عناصر کار فرما ہیںجو ایک جیتے جاگتے ہنستے مسکراتے انسان کو اس مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں کہ وہ معاشرے کے لیے قابل زحمت اور قابل نفرت بن جاتا ہے۔ایسا زہر جو انسانیت کی رگوں میں سرایئت کر کے اُسے خود کو گِدھوں کی طرح نوچنے پر مجبورکر دے۔ بارہ سالہ علی نے اپنے ہم عمر نوید کے آگے گڑ گڑاتے ہوئے ہاتھ جوڑے ” پلیز فار گاڈ سیک ایک پڑیا لا دے دو میں تمہارے سارے پیسے ادا کر دونگا پلیز”۔
یہ ہیں اقبال کے شاہین جن کے قوتِ بازو پر اقبال کو ناز تھا ۔ لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ قصور وار کون؟؟ کیا وہ جو اس زہر کو استعمال کرتے ہیں ؟ یا وہ جو اس کو مہیا کرتے ہیں ؟ یا وہ جو اس کا کاروبار کرتے ہیں ؟ یا پھر جو اس کی سر پرستی کرتے ہیں ؟ یا وہ جو اس کو روکنے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی نہیں روکتے ۔ ہم سب ذمہ دار ہیں۔26 جون کو ” عالمی انسداد منشیات ڈے” منایا جاتا ہے۔ چند دھواں دار تقریریں جن میں وہ لوگ شامل ہیں جو سوٹڈ بوٹڈ جن کا ایسے مسائل سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ایک پر تعیشی ڈنر ، قہقہے اوردن ختم یہ ہے ہماری کارکردگی۔
انسان کی فطرت میں تجسس کا مادہ بدرجہ انتہا پایا جاتا ہے۔ یہ چیز جہاں اس کے لیے فائدہ مند ہے وہاں نقصان دہ بھی ہے نقصان دہ اس حوالے سے کہ ذرائع ابلاغ بھی نشہ یا منشیات کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ منشیات میں صرف ہیروئن یا حشیش ہی شامل نہیں بلکہ بھنگ ، تمباکو، شراب ، نسوار ، پوست بھی اسی زمرے میں آتی ہے ۔ کیونکہ یہ تمام اشیاء نشہ پیدا کرتی ہیں۔
بھنگ:۔ بھنگ قنب ہندی کے مادہ پودے کے پھولوں اور پتوں سے تیار ہونے والی ایک نشہ آور ترکیب ہے۔ بھارت اور پاکستان میں روایتی شے کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ پاکستان ، بھارت ، پنجاب میں سردائی اور بھارت کے دیگر علاقوں میں بھنگ لسی کی شکل میں پی جاتی ہے۔
شراب:۔ کشید کیا ہوا مشروب جو انگور کے عرق سے تیار ہوتا ہے۔اس سے انسان میں نشہ اور سرور پیدا ہوتاہے۔
نسوار:۔ تمباکو سے بنی گہرے سبز رنگ کی نشہ آور چیز ہے یہ تمباکو کے پتوں کو باریک پیس کر اور اس میں حسبِ منشا چونا مِلا کر تیار کی جاتی ہے۔
پوست:۔ پوست افیم سے بنتی ہے ۔ اس کا نباتاتی نام نیند لانے والی بوٹی ہے ۔ کاشت کا بڑا مرکز افغانستان ہے۔ اس کے بیج کو خشخاش کہتے ہیں۔ جو کھانے اور ادویہ میں استعمال ہوتا ہے۔
Tobacco
تمباکو:۔
یہ تمباکو کے پودے سے براہ راست تیار ہوتا ہے اور سگریٹ نسوار اور پان میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ عموماً ہلکا نشہ آور ہے تمباکو دنیا میں کیوبا، چین اور امریکہ میں پیدا ہوتا ہے۔ مگر پاکستان میں پیدا ہونے والا تمباکو دنیا کا اعلیٰ ترین تمباکو ہے۔ تمباکو سگریٹ کے علاوہ چبانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اس میں چونکہ نکوٹین شامل ہے اور نکوٹین میں زیادہ تر خصوصیات نشہ آور ہیں اس وجہ سے اس کے زیر استعمال شخص میں جسمانی برداشت متاثر ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بالغ انسانوں کی آبادی میں 1/3 حصہ اس عادت کا شکار ہیں۔اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال دنیا میں تقریباً 54 لاکھ افراد اسی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
جب کہ اس کا تدارک ممکن ہے۔ ایک محدود اندازے کے مطابق دنیا میں ایک ارب دس کروڑ تمباکو نوش ہیں اگر سال میں 443,000 اموات ہوتی ہیں تو 49,000 تمباکو نوش یا اس سے متعلقہ نشہ کرنے والے افراد ہوتے ہیں۔ ایک سموکر (Smoker) اپنی طبعی زندگی میں سے 13-14 سال کم کر لیتا ہے اور جلد موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں ایک کروڑ افراد منشیات کے عادی ہیں۔پاکستان میں کام کرنے والے عالمی ادارے کے مطابق 6 فیصد مرد اور 20 فیصد عورتیں ہیں، 25 فیصد زندگی میں ناکام لوگ22 فیصد بُری صحبت کی وجہ سے اور 7.5 فیصدخود کو گھریلو پریشانیوں اور مسائل سے پر سکون رکھنے کے لیے اور2-1/2 فیصد نوجوان نسل فیشن کے طور پر منشیات کو استعمال کرتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر نشہ کیوں کیا جاتا ہے؟ اور وہ کیا عوامل ہیںجو اس کی ترغیب دلاتے ہیں؟ اس میں کافی حد تک میڈیا کا بھی ہاتھ ہے وہ اس طرح دکھائی جانے والی چیز مثلاً سگریٹ ، فلٹر اور تمباکو وغیرہ کو اسطرح منظر کشی کی جاتی ہے۔ کہ وہ ایک انداز سے بالغانہ سرگرمی دکھائی دیتی ہے۔ تمباکو والی کمپنیاں لاکھوں ڈالر خرچ کرتی ہیں اور اس کو ایک شاندار اور بہادرانہ کام کے طور پر پیش کرتی ہیں ۔ اس کے علاوہ ذہنی دبائو کی وجہ سے طلباء میں بوریت اور زیادہ رقم کی دستیابی کی صورت میں ایسے تجربے جنم لیتے ہیں اور رفتہ رفتہ وہ تجربہ ایک عادت بن جاتا ہے۔اگر ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ انسان نشہ کیوں کرتا ہے؟ اور اُس کے احساسات کیا ہوتے ہیں؟ پہلی بار استعمال کرنے پر معدے میں جلن، متلی یا گلے میں درد، کھانسی محسوس ہوتی ہے۔
مگر رفتہ رفتہ یہ حالت ایک سرور میں بدل جاتی ہے ۔ نکوٹین کے اثرات آپ کے دماغ اور جسم کو عادی بنا لیے ہیں اور جسم بار بار اس کی طلب محسوس کرتا ہے۔اور یہ اثرات وقت کے ساتھ ساتھ سرطان ، پھیپھڑے اور دل وجگر پر مہلک اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جب ایک سگریٹ سلگایا جاتا ہے تو زندگی کے 5-20 منٹ کم ہو جاتے ہیں ۔ تبھی تو کہتے ہیں سگریٹ کے ایک سرے پر آگ اور دوسرے پر بے وقوف ہوتا ہے۔اس کے علاوہ رفتہ رفتہ Reproduction کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ Sexual Health پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ حاملہ خواتین میں بچے اور خود ماں پر بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔Breast Cancer کے امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔شراب کی وجہ سے ذہن اور جسم میں ہم آہنگی ختم ہوجاتی ہے۔اندازہ لگانے کی صلاحیت میں کمی ، جسمانی اور اعصابی نظام کا متاثر ہونا شامل ہے۔
Sheesha Smoking
آج کل نوجوانوں میں ایک نئے نشے کا تعارف سامنے آیا ہے جسے لوگ شیشہ کہتے ہیں۔ اکثر لوگون کا یہ خیال ہے۔ یہ قطعی محفوظ ہے۔ مگر WHO کے مطابق ” لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا دھواں استعمال سے پہلے پانی سے گزرتا ہے ۔ لہذا یہ بے ضرر ہے جبکہ حقیقتاً جب اس کا دھواں پانی سے گزرتا ہے۔ شیشے کا دور20-80 منٹ تک چلتا ہے۔ جس کے دوران شرکاء 50-200 بار کش لگاتے ہیں۔ اس طرح شیشے کا دھواں جس میں زہریلے مادے (کاربن، مونوآکسائیڈ اور Carcinogen ) کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے۔ اور تمباکو کو اکثر میٹھا اور خوشبودار بنایا جاتا ہے۔ اس وجہ سے یہ بالغوں اور بچوں کے لیے پرکشش بن جاتا ہے۔ جبکہ اس طریقے سے 100 سگریٹ پینے سے زیادہ دھواں پھیپھڑوں میں جاتا ہے۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ یہ کاروبار کھلے عام ہوتا ہے۔ اس کے باقاعدہ کیفے بنائے جا رہے ہیں جہاں ہر عمر کے نوجوان اور بچے اس سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ کراچی کے ایک سروے کے دوران پتہ چلا کہ سکول جانے والے بچے جن میں 7 سال کے کم عمر بچے شامل تھے۔ ان میں سے 70% بچوں نے شیشے کو آزمائشی طور پر آزمایا اور استعمال کیا۔ ہم نہ جانے کب تک انجانے میں اپنی مائوں کی گود ااُجڑتی دیکھیں گے۔ اخلاقی طور پر ہم اتنے پس ماندہ ہو چکے ہیں کہ ایمان کے کمزور ترین درجے یعنی بُرا دیکھ کر دل میں بُرا سمجھنے کے درجے سے بھی گر گئے ہیں۔ ہم سب دیکھتے اور سمجھتے ہیں ۔ مگر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے تماش بین بن جاتے ہیں حالانکہ اس میں ہمارا ہی نقصان ہے مگر اتنی ہمت کہاں سے لائیں کہ غلط ہوتا دیکھ کر روک سکیں۔المیہ ہے یہ ہمارے معاشرے کا کہ ہم گونگے بہرے اور اندھے بن چکے ہیں۔ نفسا نفسی کی دوڈ میں انسانیت کے تقاضوں کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے ہمیں ہوش میں آنا چاہیے اور اپنے معاشرے سے ان ناسوروں کو ختم کر دینا چاہیے جو ہمیں گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں۔