کوئین اف او ائی سی

Benazir Bhutto

Benazir Bhutto

پاکستان کی سابق وزیراعظم ppp کی ملکہ عالیہ بے نظیر بھٹو نے انتہائی کم عمری میں سیاسی استعماریت ڈکٹیٹرشپ اور مذہبی انتہائی کے خلاف عملی جدوجہد و جنون بادہ پیمائی کا اغاز کیا۔بی بی نے نہ صرف ڈکٹیٹرشپ کو تہہ خاک کیا بلکہ وہ اپنے ادوار میں اسامہ بن لادن سے لیکر محسودوں تک مذہبی فرقہ پرستی کی اڑ میں خون انسانیت کے بیوپاریوں اور sucide بمباروں کے ساتھ لڑتی رہی۔ آخر کار وہ 2007 کی انتخابی مہم کے اخری دن غیر ملکی ایجنسیوں قاتلان جمہوریت، مذہبی ڈکیٹوں کی بہیمت و سفاکیت کا نشانہ بن کر عالم بالا کوکوچ کرگئیں۔شہید بی بی کو گرانقدر خدمات کے بدلے قوم نے شہید جمہوریت کا عوامی لقب عطا کیا۔ شہید جمہوریت کے بعد سوات کی رہائشی شجاعت و بسالت کی ائینہ دار آٹھویں جماعت کی ملکہ عالیہ نے قلم و کتاب کے ابدالی میزائلوں سے انتہاپسندی کے سومنات مندر کو پاش پاش کرکے دنیا بھر میں ہلچل مچادی۔ بی بی کو شہید جمہوریت کی تخت نشینی ودیعت ہوئی تو پھر ملالہ کوdaughter of uno یا پھر QUEEN OF OIC کا اعزاز دینا ناگزیر ہوگا۔ پی پی کی ملکہ بیظیر بھٹو کی شہادت پر پوری قوم سوگوار تھی تو اج ملالہ پر ڈھائی جانے والی ظلمت نے بھی 17کروڑ پاکستانی شدت غم سے چور چور ہیں۔ خیبر سے کراچی تک کروڑوں ہاتھ بارگاہ رب العالمین میں ملالہ کی صحت یابی کے لئے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ مغربی میڈیا بھی کابل میں امریکیوں اور ناٹو کو پڑنے والی متوقع شکست کے جوتوں کی مار کے پیش نظر ملالہ کی شان میں قصیدے اور نوحے سوز و گداز کے پیرائے میں چھاپ رہا ہے۔ تاکہ سول سوسائٹی کو طالبان سے متنفر کیا جاسکے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سانحہ دلسوز و دل گداز پر رنج و الم کا ماتم کررہے ہیں۔

ملالہ پر کیا جانیوالہ حملہ اقوام عالم میں بجلی کی کڑک سے گونج رہا ہے۔ بین الاقوامی جرنلزم چاہے پرنٹ ہو یا الیکٹرانک انٹرنیٹ ہو یا جدید سائنسی میڈیا یہودیوں کی ملکیت ہے جو فسوں کاری غلط بیانی حقائق سے کوسوں دور مخالفین کے خلاف ایسی خوفناک اور زہریلی میڈیا وار کرتا ہے کہ ہٹلر کے وزیراطلاعات گوئبلز کا وہ جملہ یاد اجاتا ہے جس میں گوئبلز کا کہنا تھاکہ جھوٹ کو تواتر کے ساتھ بولتے رہو ایک دن وہی جھوٹ سفید سچ کی شکل میں اپکو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ ملالہ کیس کو دنیا بھر میں اندازوں سے کہیں زیادہ پزیرائی مل رہی ہے۔ امریکہ سے یورپی یونین اور مڈل ایسٹ سے سنٹرل ایشیا تک پھیلے ہوئے دو سو ملکوں کے صدور وزرائے اعظم بادشاہ ملالہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کررہے ہیں۔ امریکی ایجنسیاں ناٹو صہیونی میڈیا پاک فورسز اور طالبان کے مابین رنجش کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔ امریکہ شمالی وزیرستان میں عسکری اپریشن کی خاطر کئی سالوں سے پاکستان کی منت و سماجت کررہا ہے مگر ہماری سیاسی و عسکری قیادت نے انکل سامکا مطالبہ رد کردیا تھا۔ جنرل کیانی نے دو ٹوک انداز میں امریکی ارمی چیف کو ٹکا سا جواب دیا تھا کہ اگر ضرورت ہوئی تو پاک فوج وزیرستان میں خود اپریشن کرے گی۔ ملالہ کیس میں عام پاکستانی سے لیکر حکومتی تھنک ٹینکوں اور GHQ سے لیکر سیاسی و دینی قائدین تک کو اس نقطے پر غور و خوض کرنا ہوگا کہ کہیں امریکہ پاک فورسزاور طالبان کے درمیان اگ و خون کا میدان سجانے کی پینترہ بازی کئے ہوئے تو نہیں۔ جنگ بدر کا میدان مسلمانوں کی فقید المثال کامیابی کے پھریرے لہرا رہا تھا۔

کفار مکہ عبرت ناک شکست سے دوچار ہوئے کئی میدان جنگ کے کام ائے تو درجنوں گرفتار ہوئے۔ کافر قیدی تھر تھر کانپ رہے تھے کہ اب مسلمان تلوار سے تن دھڑ علحیدہ کردیں گے مگر دونوں جہانوں کے لئے رحمت کا لقب پانے والے مجسم خیر نبی کا لقب پانے والے پیغمبر انسانیت سے مشفقانہ لہجے میں کفار سے ہمکلام ہوئے اپ میں سے تعلیم یافتہ قیدی بچوں کو پڑھائیں تو انہیں رہا کردیا جائیگا۔ جید اصحابہ کرام بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے کسی نے محبوب خدا کے فیصلے پر ایک حرف تک نہ کہا اور خوشدلی سے حضرت محمد صلعم کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کرلیامگر دکھ تو یہ ہے کہ ہر وقت آںحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کی ہر وقت تسبیح پڑھنے والے اسلامی قوانین کا دم بھرنے اور تعلیمات خدا اور زمین پر قران فرقان کی حاکمیت کا درس دینے والے کون لوگ ہیں؟ ایک طرف نبی آخرالزمان کا بلند قامت فیصلہ ملاحظہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود چل کر قیدیوں کے پاس گئے قیدیوں کو افر دی کہ وہ مسلمان بچوں کو زیور تعلیم سے ہم اہنگ کریں تو رہاہوجائیں گے دوسری طرف اسلامک شدت پسند تعلیمی اداروں کو بموں سے تباہ کررہے ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔

بے گناہوں کو خود کش بمباری سے مارا جارہا ہے۔ کم سن بچوں اور بچیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ہمارا دین تو ماں کی گود سے قبر کی گود تک تعلیم کا درس دیتا ہے مگر یہ شقی القلب قاتل کون ہیں انکا ایجنڈا کیا ہے؟ یہ درندہ صفت وحشی نسل کہاں سے نازل ہوئی ؟ کیا ایک پل کے لئے انہوں نے یہ سوچنا گوارہ نہیں کیا کہ جس معصوم ہیرو لڑکی کے سر میں گولی اتاری جارہی ہے وہ نئی نسل کی ہیرو ملالہ یوسف زئی ہے جس نے اپنے کارہائے نمایاں سے ملک و قوم کا نام روشن کیا ؟ قابل داد ہے وہ خون جس نے دو چار دنوں کے لئے ہی قوم کو سر اٹھا کر جینے کا صلہ دیا۔ ملالہ زئی کے ملزمان بگڑے ہوئے خونخوار درندے ہیں جو ایک طرف اپنی بربریت کا فخر سے اقرار کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ ظلمت کربلا ڈھا کر بھی غلطی تسلیم نہیںکرتے۔یہ عقل و فکر کی کونسی جہت ہے جو اس سفاکیت کی تائید کناں ہے؟ ایسے قاتلوں کو انسانوں کی فہرست میں شامل کرنے والے بھی ملزم ہیں۔ملالہ یوسف زئی کے حوالے سے مغربی میڈیا میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جس کے مفہوم و متن پر نگاہ دوڑانی ہوگی۔ نیویارک ٹائمز نے اپنے ادارئیے >ملالہ پاکستان کا مستقبلِ< لکھا ہے کہ ملا لہ یوسف زئی پاکستان کا مستقبل ہے طالبان شدت پسند دبلی پتلی لڑکی سے اتنے خوف زدہ تھے کہ اسے گولی مار دی ۔ اسکا قصور کیا تھا؟ قاتلوں کو قلق تھا کہ وہ لڑکیوںمیں تعلیم حاصل کرنے کے جذبے کو اگے بڑھا رہی تھی۔ ملالہ کوئی عام ہدف یا شخصیت نہیں تھا۔ملالہ یوسف زئی کا نام پہلی مرتبہ اس وقت کانوں میں رس گھولنے لگا جب اس نے طالبان کے ساتھ گزرے لمحات کو بی بی سی کی ڈائری میں قلم بند کیا۔

Malala Yousafzai

Malala Yousafzai

ملالہ کوپچھلے سال تو قومی امن ایوارڈ کا حقدار ٹھرایا گیا۔ دی ٹائمز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے انتہاپسند ظالمان کے ترجمان احسان نے کہا ملالہ مغربی کلچر کو فروغ دے رہی تھی۔ دہشت گردوں نے دوبارہ اعادہ کیا کہ اگر ملالہ بچ گئی تو اسے دوبارہ راندہ درگاہ بنادیں گے۔ پاک ارمی چیف جنرل کیانی نے اسے بذدلانہ اقدام کا نام دیا۔ جنرل کیانی اور عسکری قیادت ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔ طالبان اج تک مینگورہ سوات اور گرد و نواح میں200 تعلیمی ادارے بارود سے تباہ کرچکے ہیں۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ملالہ پاکستان کا مستقبل ہے اگر مستقبل میں ایسی گھناونی وارداتیں دوبارہ ہوئیں تو یاد رہے ایک طرف پاکستان کی ریاستی سلامتی خطرات و خدشات کے سمندر میں ڈوب سکتی ہے تو دوسری طرف ملک و قوم کا مستقبل تاریک سے تاریک تر بن سکتا ہے۔

تحریر : روف عامر