کراچی بدامنی (جیوڈیسک) ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے کراچی میں بدامنی سے متعلق حکومت سندھ کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی۔ سماعت میں پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری وسیم احمد، ایڈیشنل آئی جی کراچی، سندھ رینجرز کے نمائندے بھی عدالت میں پیش ہوئے۔سپریم کورٹ کے جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بنچ کراچی رجسٹری میں بدامنی کیس کی سماعت جاری ہے جس میں چیف جسٹس پاکستان کی ہدایت پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری وسیم احمد، ایڈیشنل آئی جی کراچی، سندھ رینجرز کے نمائندے بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے حکومت سندھ کی طرف سے رپورٹ عدالت میں پیش کی ۔سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر آئی جی کو ڈر لگتا ہے تو وہ عہدہ چھوڑ دیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پولیس افسران کو کسی حفاظتی سکواڈ کی ضرورت نہیں۔ جسٹس انورظہیر جمالی کے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہم بحالت مجبوری دوبارہ بدامنی کیس کی سماعت کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا اگر کراچی کے حالات میں بہتری آئی ہوتی تو ہم آج بدامنی کیس کی سماعت نہ کررہے ہوتے۔ بلال ہاس کے باہر 50فٹ بلند حفاظتی دیوار کھڑی کردی گئی مزید کتنی سیکیورٹی چاہیے۔ اگر سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کیا جاتا تو آج حالات بہت بہتر ہوتے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا پورے ملک سے دہشت گرد سیلاب کی طرح کراچی آرہے ہیں ۔
جس پر عدالت نے پوچھا کہ دہشت گردوں کے سیلاب کو روکنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں رواں سال 1900 افراد قتل کئے جا چکے ہیں۔ بینچ نے اس پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی سندھ 4 روز تک اکیلے شہر کا دورہ کریں۔ پولیس کی کارکردگی پر سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ اعلی پولیس افسران کے سیکیورٹی سکواڈ کا رویہ غیرمہذب ہوتا ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہاسپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اسلحہ رکھنے سے متعلق قانون سازی کیوں نہیں کی گئی جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کوشش کررہے ہیں کہ جلد قانون سازی کرلی جائے جس پر امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا حکومت جب چاہتی ہے آدھے گھنٹے میں قانون بنالیتی ہے ۔
بدامنی کیس میں چیف سیکرٹری سندھ اور الیکشن کمیشن کے نمائندے پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے تیرہ ماہ بہت ہوتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل ہر کسی کو خوش کرنے کی کوشش نہ کریں۔ایڈیشنل چیف سیکرٹری وسیم احمد کا کہنا تھا کہ روزانہ 20 افراد غیر قانونی اسلحہ سمیت پکڑے جاتے ہیں لیکن پکڑے جانے والے عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں۔بنچ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا یہ قابل ضمانت جرم ہے۔
آپ نئی قانون سازی کریں عدالتوں پر الزام نہ لگائیں۔ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے بتایا کہ اس سال 90 پولیس افسر شہید ہوئے ۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب آپ کی نااہلی اور غفلت ہے۔ غریب پولیس والے ہی مارے جارہے ہیں ۔جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ کوئی بڑا افسر شہید نہیں ہوا اے ایس آئی اور انسپکٹر کی سطح کے افسر شہید ہورے ہیں ۔عدالت عظمی کا کہنا تھا کہ 80 فیصد پولیس افسران نان پروفیشنل ہیں ۔