کراچی میں فائر بریگیڈ کے محکمے کی کیا صورتحال ہے اور اسے فرائض کی ادائیگی میں کن دشواریوں کا سامنا ہے۔ ملکی تاریخ میں بدترین سانحہ بلدیہ ٹاون فیکٹری میں لگنے والی آگ ہے جس میں ڈھائی سو سے زائد افراد لقمہ اجل ہو گئے۔ کراچی میں آتشزدگی کے کئی واقعات ایسے بھی ریکارڈ پر ہیں جہاں فائر بریگیڈ کے پاس جدید سہولیتیں نہ ہونے کے باعث قیمتی جانیں اور املاک نذر آتش ہو گئیں۔ سانحہ بلدیہ ٹاون کے تفصیلی جائزے سے پتہ چلا ہے کہ فائر فائٹرز جدید تربیت، لباس اور آلات سے محروم ہیں۔ بلند عمارتوں کی آگ پر قابو پانے کیلئے اسنارکل اور فائر ٹینڈرز کی تعداد ناکافی ہے۔ کراچی کو 162 فائر ٹینڈرز درکار ہیں لیکن ہیں 40 اور صرف تین اسنارکلز ہیں۔ فائر فائٹنگ قوانین ہی موجود نہیں تو عمل کس پر کیا جائے۔ شہر میں برطانوی دور کے سمندری پانی کے ہائیڈرنٹس بند ہو گئے ہیں۔ ایک مکمل فائر اسٹیشن میں ڈیڑھ لاکھ گیلن پانی ہر وقت موجود ہونا چاہیئے لیکن شہر کے متعدد فائر اسٹیشنز کے پاس پانی جمع کرنے کی سہولتیں نہیں ہیں۔ شہر میں ہنگامی بنیادوں پر کم از کم 54 فائر اسٹیشنز کی ضرورت ہے لیکن اس وقت صرف 20 ہیں، جن میں سے زیادہ تر کسی کام کے نہیں۔ قیام پاکستان کے وقت صرف کراچی کے علاقوں صدر اور رنچھوڑلائن میں فائر اسٹیشن موجود تھے اور65 سال میں اب تک صرف 20 نئے بننے ہیں۔ وسائل کی کمی کا رونا کب ختم ہوگا؟ اور آخر کب اس محکمے کو جدید سہولتیں میسر ہوں گی۔