انگریزوں کی آمد سے قبل برصغیر معاشی طور پر مضبوط ترین گڑھ سمجھا جاتا تھا اور اس کی بازگشت پورے یورپ تک سنائی دے رہی تھی۔ اس خطے کی بہتر معیشت کی بدولت انگریزوں نے اسے سونے کی چڑیا یعنی گولڈن سپیرو کا نام دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تجارت کے نام پر اور کبھی مہارت کے نام پر وہ اس علاقے پر اپنی نظریں جما چکے تھے۔ انگریزوں نے ایک طرف جہاں برصغیر کو جی بھر کر لوٹا تو دوسری طرف اس خطے کو بے شمار پروجیکٹس بھی دیئے۔ان میں مختلف شہروں کی آباد کاری، ریلوے نظام، ہسپتال اور تعلیمی ادارے اہم گردانے جاتے ہیں۔
انگریزوں نے اس خطے میں رہتے ہوئے جہاں جیکب آباد سے ایبٹ آباد، لائل پور سے مری تک نئے شہر آباد کئے وہاں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، ایچی سن کالج، کوئین میری کالج، لارنس کالج، میو ہسپتال اور لیڈی ولنگٹن ہسپتال جیسے پروجیکٹس بھی شامل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان علاقوں کی اصل ترقی بھی انگریزوں کے آنے سے ہوئی لیکن یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ انہوں نے یہ پیسہ اپنی جیب سے نہیں لگایا بلکہ تجارت کے نام پر ہماری ہی دولت لوٹ کر اُس کا کچھ حصہ اس خطے میں لگا دیا اور اس میں بھی اُن کا اپنا ذاتی مفاد پنہاں تھا۔
برصغیر میں رہتے ہوئے انگریزوں نے کئی نئے شہر بسانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور پھر ان شہروں کے نام بھی اپنے ناموں سے منسوب کر دیئے۔ موجودہ پاکستان میں کئی ایسے شہر موجود ہیں جو آج بھی انگریز اور سکھ حکمرانوں کی یاد دلاتے ہیں۔ ایبٹ آباد شہر بننے سے قبل وادی اورش کہلاتا تھا۔ یہ پرفضاء شہر انگریز کے زمانے میں ایک میجر جیمز ایبٹ نے 1853ء میں آباد کیا تھا۔ جیمز ایبٹ اُس وقت ضلع ہزارہ کا ڈپٹی کمشنر تھا اور اس شہر کی فطری خوبصورتی کا شیدائی رہا۔ سندھ کا خوبصورت شہر جیکب آباد برطانوی راج کے دور میں انگریز حاکم جنرل جان جیکب کے نام سے موسوم ہے۔ سرجان جیکب نے اس شہر کی بنیاد 1847ء میں رکھی تھی۔ اس سے قبل یہ علاقہ خان گڑھ کہلاتا تھا لیکن اس علاقے کیلئے انگریز جرنیل کی خدمات کے عوض اسے جیکب آباد کا نام دیا گیا۔ فیصل آباد کا پرانا نام ساندل بار تھا۔ 1896ء میں پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل سرجیمز بی لائل نے اس شہر کا باقاعدہ قیام عمل میں لایا۔ اس طرح یہ نام ساندل بار سے تبدیل ہو کر لائل پور بن گیا اور پھر قیام پاکستان کے بعد 1985ء میں اس شہر کو سعودی فرماں روا شاہ فیصل شہید کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔
اٹک انگریز کے دور میں کیمبل پور کے نام سے مشہور تھا۔ 1904ء میں سرکولن کیمبل نے اسے شہر کا درجہ دیا اورپھر اُسی کے نام سے منسوب ہو گیا۔ بلوچستان کے خوبصورت شہر ژوب کو 1889ء میں انگریزوں نے فورٹ سڈیمن کا نام دیا جبکہ اس کا پرانا نام اپوزئی تھا۔ 1976ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے اس کا نام تبدیل کرکے ژوب رکھ دیا۔ ساہیوال ایک خوبصورت اور سرسبز و شاداب شہر ہے۔ انگریز کے دور میں یہ شہر کراچی اور لاہور کے مابین ریلوے لائن پر واقع ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ 1865ء میں اُس وقت کے گورنر پنجاب سر رابرٹ منٹگمری نے اس علاقہ کو منٹگمری کا نام دیا تھا جبکہ 1966ء میں اس کا نام تبدیل کرکے ساہیوال رکھ دیا گیا۔ ملکہ کوہسار مری ایک صحت افزاء مقام ہے۔ برطانوی راج میں جب پنجاب پر قبضہ کیا گیا تو انگریزوں کو کسی سرد مقام کی تلاش تھی۔ اس مقصد کیلئے مری کے قریب ایک جگہ منتخب کی گئی اور اس طرح 1851ء میں وہاں پہلی بارک تعمیر ہوئی۔
صرف انگریز ہی نہیں بلکہ اس خطہ میں کئی شہر ایسے بھی موجود میں جو سکھ جرنیلوں نے آباد کئے اور بعد میں اُن کے ہی ناموں سے منسوب ہو گئے۔ مانسہرہ اور ہری پور دو سکھ جرنیلوں مان سنگھ اور ہری سنگھ کے ناموں پر رکھے گئے ہیں جنہوں نے سید احمد بریلی اور شاہ اسماعیل کو شہید کیا۔ مانسہرہ کا نام ”مان سنگھ” کے نام سے اخذ ہوا ، جو ایک زمانے میں اس علاقے کا حکمران تھا جبکہ ہری پور کی بنیاد ایک سکھ جرنیل ہری سنگھ نے 1821ء میں رکھی تھی۔ سکھوں کیخلاف جہاد کے دوران مان سنگھ کے ہاتھوں سید احمد بریلی جبکہ ہری سنگھ کے ہاتھوں شاہ اسماعیل کو شہادت نصیب ہوئی۔ پنجاب کا شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ بھی سکھ مذہب کے ایک پیروکار کے نام پر آباد ہے جبکہ ضلع ننکانہ صاحب کو سکھ مذہب کا سب سے مقدس مقام قرار دیا جاتا ہے۔
انگریزوں اور سکھوں نے جہاں کئی بڑے شہر آباد کئے وہیں کئی چھوٹے علاقے اور قصبات بھی اپنے ناموں سے منسوب کئے۔ فورٹ منرو ڈیرہ غازی خان کا ایک علاقہ ہے جسے 1886ء میں اُس وقت کے نوآبادیاتی حکمرانوں نے جو سرد علاقوں سے آئے تھے، اسے گرمیوں میں اپنے لئے پسند کیا اور فورٹ منرو کا نیا نام دیا۔ اسی طرح ایسے بہت سے قصبات موجود ہیں جو انگریزوں، سکھوں اور ہندوئوں کے ناموں سے منسوب ہیں۔
انگریزوں کے جانے کے بعد برصغیر میں کئی مقامات کے نام تبدیل کئے گئے۔ مثلاً بمبئی سے ممبئی، مدراس سے چنائے، کلکتہ سے کولکتہ، لائل پور سے فیصل آباد، کیمبل پور سے اٹک، منٹگمری سے ساہیوال اور فورٹ سنڈیمن سے ژوب میں تبدیل ہوئے۔ ناموں کی اس تبدیلی کے پیچھے کوئی نہ کوئی تاریخی منطق ضرور ہوتی ہے اور نئے نام دراصل ان علاقوں کے قدیم نام تھے۔پاکستان میں جہاں کئی مقامات اور اداروں کے نام تبدیل ہوئے وہاں اس وقت دو بڑے شہروں ایبٹ آباد اور جیکب آباد کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹے شہروں اور قصبات مثلاً فورٹ منرو، میکلوڈ گنج وغیرہ کے نام اب تک نہیں چھیڑے گئے۔
اسی طرح کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، میو ہسپتال، ایچی سن کالج، کوئین میری کالج، لیڈی ویلنگٹن ہسپتال، لارنس کالج، ڈیوس روڈ، ایبٹ روڈ وغیرہ کے نام بھی انگریز آقائوں والے چلے آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سکھ جرنیلوں کے ناموں سے منسوب کئی شہر، قصبات اور ادارے بھی تاحال پرانے ناموں سے پکارے جاتے ہیں جبکہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت تھوک کے حساب سے نام تبدیل کر چکا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بھی جبر و استبداد کی علامتوں اور دورِ غلامی کی یادگاروں کو مٹا دیں۔