نوجوان قوم کا سرمایہ ہیں۔ نوجوانوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ نوجوان ہی ملک کی طاقت ہیں۔ یہ وہ نعرے ہیں جو آج کل ہمارے سیاستدان جلسے اور جلسوں میں لگا کر نوجوانوں کے خون کو گرما رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے جب کسی کو متوجہ کرکے اس کے حق میں بات کی جائے تو وہ بہت جذباتی انداز میں سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال کچھ میں اپنی آپ بیتی پرسنا دیتا ہوں ۔
پچھلے دنوں مجھے واہگہ بارڈر پر جانے کا اتفاق ہوا تو میں وہاں پربچھی کرسیوں کی پہلی نشست میں جاکر بیٹھ گیا اور پروگرام شروع ہونے کا انتظار کرنے لگا اسی دوران دو شخص ہرے کرتے پہنے ہوئے سڑک کے درمیان آئے اور انہوں نے نعرے بازی شروع کردی نعرہ تکبیر اللہ اکبر۔اب جیسے جیسے ان کی آواز بلند ہو ان سے زیادہ جذبات ہمارے ابھرنا شروع ہوگئے۔ دوسری طرف انڈین عوام اپنے نعرے لگا رہی اور ان سے زیادہ ہماری کوشش تھی کہ ہم ان سے زیادہ اونچی آواز میں نعرے لگائیںاور ہماری دلی کیفیت بھی بڑی جذباتی ہورہی تھی۔ ہمارے کچھ دوست تو اتنے جذباتی ہوگئے کہ وہ اپنی نشست سے کھڑے ہوکر نعروں کے جواب دینے لگے۔
اب اسی طرح ہمارے سیاستدان نوجوانوں کے جذباتوں کو ابھار کر ان کواپنی سیاست کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ پچھلے ایک سال سے عمران خان کی تحریک انصاف کو سب سے زیادہ نوجوانوں نے کندھا پر اٹھایا ہوا ہے ۔ جدھر نظر اٹھاؤ آپ کو نوجوان قیادت نظر آئی گی۔اس کی وجہ عمران خان کا نعرہ تھا کہ ملک میں انقلاب لانا ہے اور اس کے لیے نوجوانوں کو آگے بڑھنا ہوگا۔ میں عمران خان کا شروع سے ہی شیدائی ہوں۔ عمران خان کی وجہ سے کرکٹ رسالہ اخباروطن خریدا کرتا تھا۔
اس کے مختلف پوز کاٹ کاٹ کر اپنی ڈائری میں لگایا کرتا تھا۔اس کا ایک سپیشل رسالہ نکلاتھا”عمران ہمارا ہے” اس کی قیمت اس وقت 50روپے تھی جو میرے لیے خریدنا بہت مشکل تھا مگر میں نے وہ بھی خریدا۔ عمران خا ن کا باؤلنگ سٹائل سے لیکر بیٹنگ تک ہر انداز کو دیوانہ وار پسند کرتا تھا۔عمران خان ایک کامیاب کرکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھا کپتان بھی ثابت ہوا۔ عمران خان کے خلاف کرکٹ میں بھی بہت سیاست ہوئی مگر اس نے ان سب کو ناکام کیا اور ایک کامیاب کپتان ہونے کا ثبوت 92ء کا ورلڈکپ جیتا کر دیا۔میں آج بھی میں عمران خان کو بہت اچھا سمجھتا ہوں مگر نہ جان کیوں سیاست میں مجھے کچھ فلاپ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ کرکٹ کے دور میں اس کے فیصلے پٹھانوں کی طرح دوٹوک اور اٹل ہوتے تھے مگر سیاسی میدان روایتی سیاستدانوں کی طرح صبح کچھ اور شام میں کچھ ۔
Imran Khan
جب خان صاحب نے انقلاب کا نعرہ لگادیا تو اب ان کو نوجوانوں پر انحصار کرنا چاہیے تھا۔کیونکہ کوئی بھی بزرگ براہ رست بزرگ نہیں بن جاتا بلکہ نوجوانی کے دور سے نکل کر بنتا ہے۔ بوڑھے اور لوٹنے والے سیاستدان تو پہلے بھی دوسری جماعتو ں میں موجود ہیں تو پھر عمران خان کو ایسے لوگو شامل کرنے کی کیا ضرورت پڑی؟پاکستان کے کسی بھی شہر میں تحریک انصاف کا موازنہ کرلو سب سے زیادہ نوجوان اس پارٹی سے وابستہ ملیں گے۔عمران خا ن کا یہ نعرہ کہ ”ہمیں بڑے ناموں کی نہیں نوجوانوں کی ضروت ہے” وہ آج عمران خان نے خود فلاپ کردیا ۔
آج یوتھ کنونشن میں عمران خان کے اس اعلان نے کہ 25فیصد ٹکٹ نوجوانوں کو دیں گے ۔انہوں نے نوجوانوں کو بہت زیادہ مایوس کردیا ہے۔ نوجوان تو سوچ رہے تھے کہ کم ازکم 75فیصد کوٹہ ان کا ہے اور باقی پر روایتی سیاستدان ہونگے مگر آج کے اس اعلان کے بعد خان صاحب کو معلوم ہوجائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ 25فیصد نہیں تو 20 فیصد تو کئی جماعتوں میں ٹکٹ نوجوانوں کو مل جاتے ہیں۔ ( بیشک وہ سیاسی وڈیروں کی اولادمیں سے ہی کیوں نہ ہو ) عمران خان کو چاہیے کہ وہ کسی معجزے کا انتظار کرنے کی بجائے اپنے ٹکٹ ہولڈرز کا اعلان کردے تاکہ وہ امیدوار ابھی سے اپنے حلقے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرسکیںکیونکہ عمران خان کی جماعت کا یہ پہلا الیکشن ہے ۔
نوجوانوں کاتو بس نام استعمال ہورہا ہے ۔سیاست میں جیسے جیسے الیکشن نزدیک آرہا ہے ایسی ہی سیاسی خاندان کے چشم وچراغ متحرک ہورہے ہیں اور جنہوں نے پارٹی کے لیے دن رات ایک کیا وہ پیچھے ہوتے جارہے ہیںاور جنہوں نے چوری کھانی ہے وہ آگے آرہے ہیں۔ کہیں پر نوجوانوں میں لیپ ٹاپ تقسیم کیے جارہے ہیں تووہ بھی اپنے اپنے حساب سے ۔ کسی کو بے نظیر انکم سپورٹ دی جارہی ہے تو وہ بھی اندھا بانٹے ریوڑھی والے حساب سے۔ نوجوانوں کو اب سوچنا ہوگا اور اس مورثی اور مفاد پرست کی سیاست سے پرہیز کرنا ہوگا ۔ اگر نوجوانوں نے ہی ملک کی تقدیر بدلنی ہے تو پھر اس کی باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں دینا ہوگی۔ نوجوانوں کو ملکی مفاد اور اپنے ملک کی بقا کے لیے اہم قدم اٹھا نا ہونگے ۔ کسی دوسرے کے مفاد کی بجائے اپنے ملک کی حفاظت اور ترقی کے لیے صف اول میں کھڑا ہونا پڑے گا۔تاکہ ہمارے ملک دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر سکے۔