مختلف مذاہب میں عبادت کا تصور پایا جانا اس بات کی شہادت ہے کہ انسان بحیثیت بندہ ہے۔اور خدا کے تصور میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ بالا تر،سب پر دسترس رکھنے والا،عظیم قوتوں کا مالک، جبار و قہار کے ساتھ ساتھ رحمان و رحیم بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشکل لمحات سے نجات کی خاطر انسان اپنے عقیدہ کی روشنی میں اپنے خدا سے وابستہ ہوتا ہے۔اس کے سامنے اپنی حاجات بیان کرتا ہے اور امید رکھتا ہے کہ خدا اس کو پریشانیوں سے نکال کر سکون و اطمینان بخشے گا۔دیکھا جائے تویہ مختلف تہوار اور ان تہواروں کے آغازمیں “تصور خدا”کی روشنی میں منتوں اور نظروں کو پورا کیا جانا، خدا کے نام کو لے کر اس سے اپنے کاموں کا آغاز کرنا، بھجن اور کیرتن گانا اور اس میں تذکرہ ٔ خدا،شادی بیاہ اور زندگی کے دوسرے مراحل میں اپنے کاموں کی ابتدا میں خداکو مختلف انداز میں یادکرنا۔یہ تمام علامات ثابت کرتی ہیں کہ انسان کہیں نہ کہیں خدا سے اپنے رشتہ کو استوار کرنے کی خواہش رکھتاہے تاکہ وہ دنیا میں بھی اپنے تمام کاموں میں خدا کی خوشنودی حاصل کرے اور دنیا کے بعد کی زندگی میں بھی۔یہ بعد کی زندگی چاہے آواگمن کی شکل میں ہو یا کسی اور شکل میںہر صورت میں انسان کو خدا کی ناراضگی سے بچنے کی فکر ہوتی ہے۔ ایسے افراد تعداد کے لحاظ سے بہت ہی قلیل ہیں جو خدا ئی تصور کے قائل نہیں ۔اس کے برخلاف یہ محدودے چند بھی باطنی طور پر خدا کی عظمت و رحمت کو اپنے اعمال کے ذریعہ تسلیم کرتے رہتے ہیں گرچہ وہ زبان و قلم سے انکار ہی کریں۔معلوم ہوا کہ انسان کے تحت الشعور میں یہ بات پیوست ہے کہ وہ بندہ بن کر ہی دنیا میں زندگی گزار سکتا ہے۔اس کے علاوہ کوئی دوسری حیثیت اس دنیا میں اس کی نہیں ہے۔
عبادت کیسے کی جائے جبکہ۔۔۔۔۔ !
ہندوسستان وہ ملک ہے جہاں بے شمار عقائد رکھنے والے گروہ موجود ہیں۔اس کے باوجود وہ آپس میں مل جل کر رہتے ہیں اور یہی اس ملک کی صفتِ اعلیٰ ہے۔لیکن کبھی کبھی ایسے حادثات بھیسامنے آتے ہیں جو سوالات کا انبار کھڑا کر دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ واقعات اچانک رونما ہوتے ہیںبلکہ ان کا قدیم پس منظر ہے۔اسی طرح کا ایک واقعہ ضلع کے کھیتڑی تھانہ علاقہ بڑائو گائوں کا ہے ۔جہاں دلت ذات کے دونئے شادی شدہ جوڑوں کو مندر سے دھکے مار کر باہر نکالنے کا معاملہ روشنی میں آیا ہے۔متاثرین کا الزام ہے کہ مخالفت کرنے پر ان کے ساتھ گالی گلوچ بھی کی گئی۔ اس سلسلے میں مندر کے پچاری اور تین خواتین سمیت 8لوگوں کے خلاف معاملہ درج کیا گیا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ بڑائو گائوں کا باشندہ اشوک کمار میگھوال اور اس کے چھوٹے بھائی گلاب کی بارات مادھو گڑھ گئی تھی۔ 25اکتوبر کو یہ لوگ شادی کرکے لوٹے ۔26اکتوبر کی صبح تقریباً10 بجے دونوں شادی شدہ جوڑے دھوک لگانے گائوں کے مندر گئے۔ مندر میں پجاری گھیسارام سوامی سمیت کچھ لوگوں نے ان کو پوجا کرنے سے روکا۔ دونوں شادی شدہ جوڑوں نے ان کے ساتھ آئے ان کے رشہ داروں نے جب مخالفت کی تو پجاری اور دیگر لوگوں نے ان کے ساتھ گالی گلوچ کی اور دھکے مار کر مندر سے باہر نکال دیا۔ اتوار کی رات کو متاثراشوک کمار میگوال نے مندر کے پجاری گھیسا رام سوامی، گنگا سوامی، انل سوامی، پپو شرما اور سیارام سوامی کے ساتھ ہی 3خواتین کے خلاف معاملہ درج کرایا۔ اس سلسلے میں فی الحال کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ پولیس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔واقعہ کے پس منظر میں یہ بڑا سوال اٹھتا ہے کہ مندروں میں موجود “بھگوان”کس کے ہیں؟انسانوں کے یا مخصوص طبقہ کے؟جبکہعقیدہ کے اعتبار سے آپ بھی ہندو ہیں اور وہ بھی جن کودھکے مار کر باہر کیا جا رہا ہے۔معلوم ہوا یہ”بھگوان”ہندوئوں کے نہیں بلکہ ان مخصوص مجاوروں ہیں جو دن رات ان کی سیوا میں مصروف عمل ہیں۔اب یہ مجاور جس کو چاہیںپوجا پاٹ کرنے دیں اور جس کو چاہیں روک دیں۔
کثیر ثقافتی و تکثیری ملک میں:
Hindustan Cultural
چونکہ ہندوستان ایک کثیر ثقافتی و سماجی اور تکثیری ملک ہے اس لیے ملک کے آئین سازوں نے یہاں کے لوگوں کے حق میں ایک مختار اعلیٰ سوشلسٹ سیکولر جمہوری ری پبلک کی داغ بیل ڈالی تھی اور ساتھ ہی سارے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سماجی ، اقتصادی اور سیاسی انصاف ،آزادی اظہارفکر ، آزادی عقیدہ و اعتقاد اور آزادی عبادت ، مساوات، بھائی چارہ فرد اور جماعت کے وقارکی بات کہی تھی نیزملک کی سالمیت کو بنیاد بنایا تھا۔اس سب کے باوجود ملک میں اکثریتی مذہب ہندوازم کی وجہ سے ذات پات پروان چڑھی جس کے نتیجہ میں ملک وہ نتائج اخذ نہ کر سکا جو مطلوب تھے۔اس سلسلے میں آئین کے آرکیٹیکٹ ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکرنے لکھا: “ذات پات ہندئوں کی سانس ہے، ہندئوں نے پوری ہوا کو متاثر کیا ہے، اس کے اس جرثومہ سے سکھ، مسلم اور عیسائی سبھی متاثر ہیں”۔اور یہی وہ حقیقت ہے جس کی وجہ سے مذہبی ذات و طبقاتی تفریق پر مبنی سماج وقوع پذیر ہوا۔جسنے ہندوستانی سماج کی کایا پلٹ دی۔آزادہندوستان نے ان تفریقات اور مذہب پر مبنی عناد پر قابو پا نے کی ہر ممکن کوشش بھی کی لیکن معاشرتی بنیادوں پر اس کو گوارہ نہیں کیا جا سکا۔جہاں ایک طرف مذہبی پنڈتوں نے اس دوری اور اختلاف کو کم یا ختم کرنے کی منظم کوشش نہیں کی وہیں سماجی اور سیاسی پنڈتوں نے بھی اس کو مزید تقویت پہنچائی۔کہیں مذہب کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں تشکیل پائیں تو کہیں ذات پات اور اونچ نیچ کی بنیادوں پر ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی۔اس سب کے پس منظر میں آئین میں درج حقوق و انصاف کی باتیں صرف تحریر ی زینت سے زیادہ حیثیت نہحاصل کر سکیں۔وجہ بس یہی رہی کہ آئین پر عمل درآمد کرنے والوں کی نیتیں صاف نہیں ۔
صورتحال آج جو نظروں کے سامنے ہے اسی کا تذکرہ کرتے ہوئے قبل از وقت ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر نے آئینی اسمبلی میں کہا تھا” ہندوستانی سرزمین پر جمہوریت صرف ایک کھاد بچھانے کا نام ہے جو بنیادی طور پر غیرجمہوری ہے، آئین چاہے جتنا اچھا کیوں نہ ہو، وہ بھی برا ثابت ہو سکتا ہے جب کہ اس پر کام کرنے والے کافی برے ہوں”۔اورآج یہ بات کھل کر ثابت ہوچکی ہے کہ ہندوستان کا آئین بہت خوبصورت،جس میں کثیر ثقافتی اور تکثیری سماج کو پیش نظر رکھتے ہوئے بہت کچھ کہا گیا ہے اس کے باوجودآئین کو نافذ کرنے والے طبقاتی کشمکش کے شکار ہیں۔عصبیت و علاقائیت، رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پرآزادی کے 65سال بعد بھی ہندوستان انھیں جکڑ بندیوں میں مبتلا ہے جن میں وہ آزادی اور ملک کے آئین بننے سے قبل تھا۔لہذا ایسی صورت میں ملک کے اکثریتی طبقہ سے اس بات کی کسی صورت توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس نظام کو یکسر ختم کرنے کی سنجیدہ اور منظم کوشش کرے گا۔ انسانوں کو انسان سمجھا جائے، وہ مساوات و برابری حاصل کر سکیں،ان کے اندر بھائی چارہ اور محبت و الفت قائم ہو،ذلت و خواری کی زندگی سے وہ چھٹکارا حاصل کریں،امن و امان قائم ہو اور تکثیری سماج ہونے کے باوجود وہ مذہبی عبادات امن و امان کے ساتھ ادا کی جا سکیں۔یہ سب مواقع اگر کوئی پیدا کر سکتا ہے تو وہ صرف اسلام ، اسلامی تعلیمات اور اسلامی نظام حیات ہے۔لیکن افسوس! تمام خوبیوں سے مزین طریقہ حیات رکھنے والے خود ہی ان تعلیمات سے نابلد ہیں جو ان کو حاصل ہیں۔ممکن تھا اگر یہ خود اسلامی تعلیمات پر پوری طرح سے کاربند ہوتے تو دوسرے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے۔
ضرورت ہے کہ حق و باطل کا فرق خوب کھل کر بیان کیا جائے:
مخصوص واقعہ اور حالات کے پس منظر میں یہ حدیث کار آمد ثابت ہوگی۔ جس میں ام المومنین ام حکم زینب بنت حجش سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ایک روز) ان کے پاس بڑے گھبرائے ہوئے تشریف لائے۔آپ ۖ کی زبان پر یہ کلمات تھے:”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔عربوں کے لیے اس شر کی وجہ سے ہلاکت ہے جو قریب آگیا ہے۔آج یاجوج ماجوج کی دیوار سے اتنا حصہ کھول دیا گیا ہے۔ اور آپ نے اپنی دو انگلیوں (انگوٹھے اور اس کے ساتھ والی انگلی)سے حلقہ بنا کر دکھایا ۔ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول! کیا ہم ہلاک ہو جائیں گے جب کے ہمارے اندر نیک لوگ بھی ہوں گے؟ آپۖ نے فرمایا:ہاں جب برائی عام ہوجائے (تو پھر نیک بھی بدوں کی صفت میں شمار کرلیے جاتے ہیں)”(بخاری)۔صحیح مسلم میں نواس بن سمعان کی روایت میں صراحت ہے کہ یاجوج ماجوج کا ظہور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد ان کی موجودگی میں ہوگا، جس سے ان کی تردید ہو جاتی ہے،جو کہتے ہیں کہ تاتاریوں کا مسلمانوں پر حملہ، یا منگول ترک جن میں سے چنگیزبھی تھا یا روسی یا چینی قومیں یہی یاجوج و ماجوج ہیں، جن کا ظہور ہو چکا۔یا مغربی قومیںان کا مصداق ہیں کہ پوری دنیا میں ان کا غلبہ و تسلط ہے۔ یہ سب باتیں غلط ہیں کیوں کہ ان کے غلبے سے سیاسی غلبہ مراد نہیں ہے بلکہ قتل و غارت گری اور شر و فساد کا وہ عارضی غلبہ ہے جس کا مقابلہ کرنے کی طاقت مسلمانوں میں نہیں ہوگی، تاہم پھر وبائی مرض سے سب کے سب آن واحد میں لقمہ ٔ اجل بن جائیں گے۔ یہ تو اس حدیث کی تشریح ہوئی لیکن جو بات اس میں کہی اور سمجھائی گئی وہ یہ ہے کہ جب نیک لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں، برائیاں عام ہوتی جائیں اور لوگوں پرمختلف قسم کے ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جائیں، ان حالات میں نیک بھی بدوں کی صفت میں شمار کر لیے جاتے ہیں۔لیکن جیسے یہ حقیقت ہے کہ نہ آج یاجوج و ماجوج ہیں اور نہ ہی ان کی تباہ کاریاں ویسے ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ مختلف شکلوں میں ظلم و ستم کے پہاڑ چہار جانب توڑے جا رہے ہیں۔کہیں انسانوں کو اسلامی تعلیمات سے متنفر کرکے اللہ کی بندگی سے دور کرنے کی سعی و جہد کی جار ہی ہے تو کہیںمادیت کی چکاچوند اور تعیش پسندی میں مبتلا کرکے شریفانہ اور پر وقار زندگی متاثر کی جا رہی ہے۔کہیں طبقاتی کشمکش کے جال بن کر تو کہیں رنگ و نسل اور علاقائیت کو پروان چڑھا کر۔ ان حالات میں ضرورت ہے کہ اسلام کو اس کے حقیقی پس منظر میں پیش کیا جائے۔حق کی شہادت دی جائے اور باطل کو سر عام ننگ و عار کیا جائے۔ یعنی صحیح اور غلط اور حق و باطل کے فرق کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خوب اچھی طرح اپنے قول و عمل سے واضح کر دیا جائے۔
اور یہ کام اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ امت اسلامیہ تمام قید و بند سے نکل کر ہدایت خلق کے لیے اس طرح فکر مند نہ ہو جائے جس طرح انبیاء علیہم السلام انفرادی طور پر اس کے لیے فکر مند رہا کرتے تھے۔ حق ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ کام ہماری تمام اجتماعی کوششوں اور ملی سعی و جہد کا مرکزی نقطہ ہو۔ہم اپنے دل و دماغ کی ساری قوتیں اور اپنے سارے وسائل و ذرائع اس پر لگا دیں۔ ہمارے تمام کاموں میں یہ مقصد لازماً ملحوظ رہے اور اپنے درمیان سے کسی ایسی آواز کے اٹھنے کو تو کسی حال میں ہم برداشت ہی نہ کریں جو حق کے خلاف شہادت دینے والی ہو۔لیکن یہ کام اسی وقت ممکن ہے جب کہ ہم اللہ کاقرب حاصل کریںاوراللہ ہم سے محبت کرنیلگے پھر جب اللہ محبت کرے گا تو بندہ ٔ مومن کی تحریر و تقریر پیاسی روحوں کو متاثر کرے گی۔وہ مصنفین ومقررین جو بڑی محنت و جدوجہد کے ساتھ اپنی تخلیقات عوام کے سامنے اس گمان کے ساتھ لاتے ہیں کہ وہ اثر انداز ہو گی۔اُن کو یاد رکھنا چاہیے کہ تاثیر ان کی تقریر یا تحریر میں نہیں ہے بلکہ تاثیر تو دراصل اس جذبہ ٔ صادق اورخلوص نیت میں اللہ پیدا کرنے والا ہے جو دلوں کے حال سے باخوبی واقف ہے۔تاثیر اللہ کے دم سے ہے نہ کہ ان کی صلاحتیں اور ان کے علوم کوئی خاص کردار ادا کرنے والے ہیں۔اس صورت میں جو لوگ بھی ان عظیم ذمہ داری کو ادا کرنے کا شوق رکھتے ہوں انھیں چاہیے کہ وہ رجوع الی اللہ کی طرف راغب ہوں۔اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا ،اس کے باوجود وہ سعی و جہد میں مصروف رہے تو وہ لایعنی و لاحاصل ہی ثابت ہوگا۔گرچہ دنیا اور وہ خود اپنے آپ کو بظاہر ایک مخلص داعی الخیر ثابت کرنے کی تمام تر کوشش کریں۔ایسے لوگ آخرت میں مفلس ہی بن کر اٹھیں گے، اس کے سوا ان کے حصہ میں کچھ بھی نہیں آئے گا۔