پاکستان کی سیاست مفاد پرستوں کے ٹولے کے ہاتھوں میں ہے جو وقت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنانے سے نہیں کتراتے پیپلز پارٹی کی اتحادی مسلم لیگ ن نے پہلے تین سال تو کھل کر پیپلز پارٹی اور انکے اتحادیوں کا ساتھ دیا اور بعد میں بھی ایک سال تک ملکر بندر بانٹ کرتے رہے اور اب جب دیکھا کہ الیکشن قریب آرہے ہیں ملک میں مہنگائی کا جن قابوسے باہر ہورہا ہے لوڈ شیڈنگ اور گیس کی قلت پر قابو نہیں رہا تو میاں برادران کھل کر سامنے آگئے جن کو کچھ دوست اس طرح سے بتا رہے ہیں کہ کسی گائوں میںایک چور چوری کررہا تھاکہ کسی کی نظر پڑ گئی اور پھر فضاء چور چور کے نعروں سے گونج اٹھی اور چور نے بھی آفیت اسی میں جانی کہ جان بچائو اور بھاگواب چور آگے آگے تھا اور گائوں والے پیچھے پیچھے ایک کھیت میں سے بھاگتے ہوئے چور ایک چھوٹے سے گڑھے میں گرا تو وہی دبک کر بیٹھ گیاجب گائوں والے چور چور کا شور کرتے ہوئے اسکے قریب سے گذرے تو چور شریف نے بھی موقعہ غنیمت جان کر باہر چھلانگ لگائی اور گائوں والوں کے ساتھ چور چور کا شور مچاتے ہوئے بھاگنے لگا ۔اب کچھ ایسے ہی ہمارے حکمران خاص کر پنجاب کے وزیر اعلی میاں شہباز شریف بھی کررہے ہیں پہلے( بقول میاں برادران) علی بابا اور چالیس چوروںکے ساتھ ملکر مزے کرتے رہے عوام کو لوٹتے رہے اور جب حکمرانوں اور انکے حواریوںنے اس ملک کے غریب عوام کو لوٹ لوٹ کر کنگال کردیا ہر طرف کرپشن کی انتہا ہو گئی اور عوام ان لٹیروں سے تنگ آگئی بجلی ،گیس ،روزگارکی عدم دستیابی پر سڑکوں پر احتجاج شروع ہوا تو جناب خادم اعلی بھی ان احتجاج کرنے والوں میں شامل ہوگئے حیرت اس بات پر نہیں کہ وزیر اعلی خد احتجاج میں شامل ہو رہے ہیں بلکہ افسوس اس بات پر ہورہا ہے مسلسل چار سال تک عوام کولوٹنے میں یا لوٹنے والوں کا ساتھ دینے والوں کو اب ببھی پہچان نہیں سکی جنہوں نے مسلسل چار سال سے عوام کو بیوقوف بنا رکھا ہے کرپشن اور مہنگائی نے ملک کی بنیادوں تک کو ہلا کررکھ دیا ہے عوام بھوک اور افلاس سے خود کشیوں پر مجبور ہے غریب دن بدن غریب تر جبکہ حکمران اور انکے حواری دن بدن امیر تر ہورہے ہیں اور ایسے وقت میں جب عوام احتجاج کرنے سڑکوں پر آرہی ہے تو ایسے وقت میں ہی مفاد پرستوں نے پھر عوام کو بیوقوف بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اپنی اپنی دوکانداری سجانے کیلیئے پھر اپنے ٹھنڈے کمروں سے نکل پڑے ہیں عوام ایسے وقت میں ایسے سیاسی ٹھگوں کو پہچانیں اور دودبارہ پھر انکی سیاسی چالوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں گذشتہ روز قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی ہنگامہ آرائی دلچسپ تھی۔
عوام نے اپنے نمائندوں کے اصلی چہرے دیکھ لیے اب پنجاب اسمبلی کے جاری اس سیشن میں بجٹ والے دن ہمارے یہ نمائندگان کیا گل کھلاے ہیں ایک دو روز میں سامنے آجائے گا اسی بجٹ سیشن میں پنجاب کے سابق وزیر اعلی اور ایک پسماندہ علاقے سے عوامی درد محسوس کرنے والے سیاستدان سرداد دوست کھوسہ نے مینار پاکستان میں وزیر اعلی پنجاب کے کیمپ آفس،سستی روٹی سکیم ،دانش سکول سسٹم اور لیپ ٹاپ پر کھل شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب ہر کام میں جلدی کرتے ہوئے بہتر کام کو بھی خراب کردیتے ہیں اور مینار پاکستان میں کابینہ کے اجلاس سے عوام میں غلط تاثر پیدا ہورہا ہے وزیر اعلی پنجاب اپنی مرضی سے ہر کام کررہے ہیں جسکا آنے والے وقت میں پارٹی کو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا جبکہ مفاد پرست ٹولہ اپنے مفاد میں وزیر اعلی پنجاب کو استعمال کررہا ہے جبکہ دانش سکول سسٹم کا حال بھی سستی روٹی سکیم جیسا ہو گا کیونکہ سستی وٹی سکیم شوع کرنے سے قبل کوئی پلاننگ نہیں کی گئی تھی یہی وجہ ہے کہ اسے بند کرنا پڑا اور اگلی حکومت آنے کے بعددانش سکول سسٹم کا بھی بوریا بستر گول کردیا جائے گا کیونکہ جتنی زمین ان اداروں کو دی گئی ہے اس میں سے تو ایک خاندان اپنے بچوں کی فیسیں بھی ادا نہیں کرسکتا اور اتنے بڑے ادارے کے اخراجات کون برداشت کرے گاسرادر دوست کھوسہ نے طلبہ کو لیپ ٹاپ دینے پر بھی وزیر اعلی پنجاب کو آڑے ہاتھو لیتے ہوئے کہا کہ یہ بھی پیسے کا ضیاع ہے جس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا الٹا حکومت کی بدنامی ہوئی ہے اس کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی کے سپیکر رانا اقبال کے بیٹے کو دس منٹ چائے تاخیر سے دینے پر سپیکر ہائوس میں اسکے سیکیورٹی گارڈ نے جس طرح ایک غریب ملازم کی پٹائی کی وہ بھی لمحہ فکریہ ہے۔
اس کی تفصیل کچھ اسطرح ہے پنجاب اسمبلی کے متاثرہ ملازم وحید نے بتایا کہ سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال کے بیٹے رانا شہزاد جو کہ سپیکر ہائوس میں رہائش پذیر ہے اس نے چائے لانے کا حکم دیا چائے لانے میں 10منٹ تاخیر ہوگئی تو رانا شہزاد کے سیکیورٹی گارڈ نے گندی گالیاں دیتے ہوئے ڈنڈے سے مجھے شدید تشدد کا نشانہ بنایا میرے سر اور کمر میں شدید ضربیں لگی اور مجھے بے ہوشی کی حالت میں سپیکر ہائوس ہی کے ایک کمرے میں دو دن تک قید رکھا بعد میں مجھے ہوش آنے پر سروسز ہسپتال داخل کروا دیا گیا جہاں پر میرے سر میں دس ٹانکے لگے اور گذشتہ روزپنجاب اسمبلی کے ہونے والے اجلاس کے بعد جب میں اور اسمبلی کے چند دوسرے ملازمین سپیکر پنجاب اسمبلی سے ملے اور مجھ پر ہونے والے تشدد کے خلاف کاروائی کامطالبہ کیا گیا تو انہوں نے بغیر بات سنے ہمیں چلے جانے کا حکم دیا بعد میں پولیس تھانہ ریس کورس نے بھی کسی قسم کی کاروائی کرنے سے انکار کردیا۔
اب عوام میں شعور کی لہر پیدا ہورہی ہے اور ایسے ہی وقت مجھے اپنے ایک مرحوم شاعر دوست جناب اسماعیل عاطف جن کے ساتھ پرانی انارکی میں بیتے ہوئے دن بہت یاد آتے ہیں کے چند اشعائر سیدھے دل پر اثر کرتے ہیں آپ بھی پڑھیئے۔ ستم گروں کے ستم کے آگے نہ سر جھکا ہے نہ جھک سکے گا شوار صادق پہ ہم ہیں نازاں جو کہہ رہے ہیں وہی کریں گے وفا ء کروگے وفاء کریں گے جفا کرو گے جفا کریں گے کرم کرو گے کرم کریں گے ستم کرو گے ستم کریں گے ہم آدمی ہیں تمھارے جیسے جوتم کروگے وہ ہم کریں گے