سورہ احزاب کی آیت نمبر 40 میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ارشاد فرما دیا ہے کہ حضرت سیدنا محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ ہاں البتہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور سب نبیوں علیہم السلام میں آخری اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
Ya Nabi
نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب ہوتے۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا” لا نبی بعدی ” حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔
درج بالا آیت اور احادیث سے ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ جو بھی دعویٰ کریگا جھوٹا ہو گا۔ عقائد کی رو سے کسی مدعی نبوت سے دلیل طلب کرنیوالا بھی خارج از اسلام ہو جاتا ہے۔
بمطابق فرمان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اگر نبوت کا امکان ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب نبی ہوتے۔ اسی طرح ارشاد ہوا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر کعبہ سے فراغت کے فورا بعد دعا فرمائی ” اے ہمارے رب بھیج ان میں ایک رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جو ان ہی میں سے ہو ان پر تیری آیات تلاوت فرما دے۔ انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے، انہیں خوب پاک اور ستھرا فرما دے۔ بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔
یاد رہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل پاک میں صرف سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہو کر آئے۔ باقی انبیاء و رسول علیہم السلام سیدنا اسحاق بن سیدنا ابراہیم علیہم السلام کی پشت سے پیدا ہوئے۔
یہ آیت مبارکہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی الزمان کی شان میں نازل ہوئی۔ کعبہ شریف اور اسکی آبادی کے ذکر سے دعائے ابراہیمی سے خاتم النبین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شان کا پتہ چلتا ہے اور حدیث میں ہے ” حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں دعائے ابراہیم علیہ السلام اور بشارت عیسیٰ علیہ السلام ہوں۔
ترجمہ: اور یاد کرو جب عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم علیہاالسلام نے کہا: ” اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، پہلی کتابوں، تورات کی تصدیق کرتا ہوں اور بشارت سناتا ہوں ایک رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی جو میرے بعد آئیگا، اسکا نام احمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ پس جب (احمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ) ان کے پاس نشانیاں لے کر آئے، بولے کھلا جادو ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے آنے کی بشارت دی اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبی کے آنے کا ذکر نہیں کیا گیا۔
quran majeed
ترجمہ: یاد کرو جب اللہ نے سب انبیاء علیہم السلام سے عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تمہاری کتابوں کی تصدیق فرما دے۔ تم ضرور اس پر ایمان لانا اور اسکی مدد کرنا۔ کہا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر ارواح انبیاء علیہم السلام نے میرا بھاری ذمہ لیا۔ سب نے عرض کیا: ہم نے اقرار کیا۔ کہا اللہ نے پس سب گواہ ہو جاؤ میں (رب) بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں اور جو کوئی اس کیبعد پھرے گا وہی فاسق ہو گا۔ ( پارہ سورہ آل عمران)
جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شان، عظمت اور وقار اللہ تعالیٰ کے نزدیک کس قدر ہے۔ بیشک حضور سید المرسلین اور امام الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مقام پر فائز ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جیسے بلند و بالا نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ہوتے ہوئے کسی اور نبی کی ضرورت نہیں ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اس عظمت کا انکار کرنیوالا بیشک فاسق، ظالم اور کافر ہے۔ اس آیت مبارکہ کے ایک لفظ سے ختم نبوت کی شان واضح ہو رہی ہے۔
1857ء کی جنگ آزادی کے فورا بعد انگریز حکمران کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ ہندوستان میں حکومت کو مستحکم کسطرح کیا جائے۔ ہندو قوم پر حکمرانی کرنا تو آسان تھا مگر مسلمان جو صدیوں تک ہندوستان پر حکمران رہے۔ ان پر حکومت کرنا مشکل ہو گا۔
انگریز بخوبی سمجھتا تھا کہ مسلمان کے جذبہ ایمان کی بنیاد اطاعت اور محبت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر مبنی ہے۔ ان کے جذبہ ایمان کو کمزور کرنے کیلئے ضروری ہے کہ محبت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو کمزور کیا جائے۔
اس کیلئے اپنی بے پناہ قوت اور سیاسی سوچ کے بل بوتے پر ایک مکروہ شخص کا انتخاب کیا گیا کہ وہ نبوت کا دعویٰ کرے اور ایک غیر متنازعہ اور مسلمہ حقیقت کو مجروح کر کے مسلمانوں کے دلوں سے محبت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا جذبہ کمزور کیا جائے تاکہ کمزور مسلمانوں پر حکومت کرنا آسان ہو جائے۔
اگرچہ کچھ مسلمان گمراہ ہوئے مگر اکثریت نے اس سازش کو خوب طریقے سے سمجھا اور اسکا مقابلہ کیا۔ بڑے بڑے جید علماء نے پوری کاوشوں کے ساتھ مرزائیت اور انگریز کا مقابلہ کیا اور بے پناہ صعوبتیں برداشت کیں۔
hazrat peer mehr ali shah sahib
اس موقع پر تحفظ ختم نبوت کیلئے سیدنا پیر مہر علی شاہ صاحب نے 1900ء ماہ اگست کے آخری عشرہ میں مرزا غلام احمد قادیانی کا چیلنج قبول کر لیا اور اہل علم و فضل اور صلحاء امت کے عظیم قافلہ کی امامت کا تاج پہن کر شہر لاہور میں وارد ہوئے مگر مرزا نے نہ آنا تھا اور نہ آیا۔ جواب میں کہنے لگا کہ میں تحریری مقابلہ کرونگا۔
خلفاء راشدین اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے زمانہ مبارک میں متعدد بدبختون نے دعویٰ نبوت کیا۔ مسلمہ کذاب، اسود عنسی اور ایک عورت سجاع بنت حارث کے نام آتے ہیں۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان اور خلفائے راشدین نے ان نبوت کے جھوٹے دعویدارون کیخلاف جہاد کیا اور بڑی خونریزی کیبعد انکو جہنم واصل کیا۔
امت محمدیہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر لازم ہے کہ وہ قیامت تک صحابہ کرام علیہم الرضوان، مہاجرین و انصار اور اہلبیت اطہار کی پیروی کریں تاکہ وہ اس مقام تک پہنچیں جس کی خبر اس آیت میں دی گئی ہے۔