امریکا میں چھ نومبر کو 45ویں امریکی صدر کے چناؤ کے لئے ہونے والے صدارتی انتخابات منعقدہوئے جن کے بارے میں امریکی اور عالمی مبصرین کایہ خیال ہے کہ اِس بار یہ انتخابات امریکی تاریخ کے سب سے مہنگے الیکشن ثابت ہوئے ہیں اِن صدراتی انتخابات میں ڈیموکرٹیک پارٹی کے نامزداُمیدوار پہلے سیاہ فام مسٹر بارک اوباماجن کا انتخابی نشان ”گدھا” تھااپنے مدمقابل رپبلکن پارٹی کے اُمیدوار میٹ رومنی کو بھاری اکثریت سے شکست دے کرایک مرتبہ پھرامریکی صدر منتخب ہوگئے ہیں جبکہ اِنہیں جیت کے لئے538ارکان پر مشتمل الیکٹورل کالج کے 270ووٹ درکا تھے مگر یہ 26امریکی ریاستوں میں اِس سے بھی زائد 303ووٹ لے کر فتح سے ہمکنار ہوئے گئے ہیں جبکہ اِن کے مقابلے میں میٹ رومنی 24ریاستوں سے صرف 203ووٹ حاصل کرپائے اس سارے عمل میں امریکی عوام نے بھی اپنے اور اپنے ملک کے لئے بہتر رہنماکے چناؤ میں خاصی دلچسپی کا مظاہر ہ کیا۔
یہا ں ہم اپنے اُن پاکستانی ہم وطنو..! بھائیوں اور بہنوں کے لئے جو اپنی ذاتی انا پرستی اور کئی خودساختہ بنائی گئیں پابندیوں اور جاہلانہ رسم و رواج کی وجہ سے اپنے یہاں ہونے والے جنرل الیکشن میںاپنی ووٹ جیسی قومی ذمہ داری اداکرنے سے کتراتے ہیں اُنہیں سمجھانے اور سبق دینے کے خاطر شگاگو کی اُس اکیس سالہ امریکی خاتون گیشامیلن کا ذکرکرناضروری سمجھتے ہیں جس نے زچگی کے لئے اسپتال جاتے ہوئے راستے میں صرار کرکے ایک پولنگ اسٹیشن پر رک کراپنی زندگی میں پہلی مرتبہ ووٹ کاسٹ کرکے یہ بتادیاکہ اپنے ملک اور اپنی قوم سے اِسے کتنی محبت ہے کہ اِس نے اپنی اور اپنے ہونے والے بچے کی پرواہ کئے بغیرپہلے اپنے ملک اور قوم کے بہتر مستقبل کے لئے اپناووٹ کاسٹ کیا اور پھر یہ زچگی کے لئے اسپتا ل گئی یوں اِس خاتون جیسے کڑوروں امریکیوں کے ووٹ سے ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدارتی اُمیدوار مسٹربارک اوباما فتح سے ہمکنار ہوئے اور دوسری مرتبہ امریکی صدر منتخب ہوگئے کیا ہم نے کبھی ایساکیا جیساشگاگو کی اِس خاتون نے کیا ہے اِس کو کہتے ہیں احساسِ ذمہ داری اِس موقع پر میں یہ سمجھتاہوں کہ شائدایسی احساس ذمہ داری ہم نے نہیں ہے ہم میں ایسی احساس ذمہ داری پیداکرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے ووٹ کے درست استعمال سے اپنے اور اپنے ملک کے لئے بھی امریکیوں کی طرح اپنے اچھے حکمران کا چناؤ کرسکیں۔
اِس طرح امریکیوں کے تعاون اور اِن کی احساسِ ذمہ داری وجہ سے ڈیموکریٹک پارٹی کے اُمیدوار بارک اُوبامانے دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کرلی جس کے بعد وائٹ ہاؤس کے باہر اپنی جیت کا جشن منانے کے لئے جمع ہونے والے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہاکہ ” یہ سب کچھ آپ سب کی وجہ سے ممکن ہواہے ہم امریکاکوترقی کی نئی بلندیوں تک لے جائیں گے اُنہوں نے کہاکہ میں آئندہ چار سالوں میں اپنے شہریوں سے کئے گئے تمام وعدے پورے کروںگا جن میں سرِ فہرست شہریوں کے لئے یکساں روزگار کے مواقع فراہم کروں گا اور ملکی معیشت کو بغیر وقت کے ضیائع کے بہتر بناؤں گا، جمہوریت اور 30کڑور امریکیوں کو ایک ساتھ لے کر چلوں گا اِس موقع پر بارک اوباما نے اِس عزم کا اعادہ کیا کہ میں پہلے سے زیادہ سب کو ساتھ لے کر چلوں گااور اپنے ملک جِسے ہم اور دنیا سُپر طاقت کی حیثیت سے جانتی ہے اِسے ترقیوں کے سفر پر لے جاؤں گا اِس موقع پر صدر بارک اوباما نے اپنے خطاب میں مستقبل قریب میں اپنے ملک و شہریوں سمیت دنیا بھر میں بہتری لانے اور ساری دنیا کودہشت گردی سے نجات دلاکر امن و آشتی کا گہوارہ بنانے بنانے کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک کی امداد کرنے کا بھی برملااعلان کیا ۔یوں آج سے اُوباما کا ایک ایساکڑاامتحان شروع ہوگیاہے جس میں کامیابی حاصل کرنااَب اِن کے لئے بہت ضروری ہوگیاہے یہ اور بات ہے کہ نومنتخب امریکی صدر نے اپنے پہلے غیرسرکاری عوامی خطاب میں اپنے عوام سے ملک کے مستقبل اور اپنے عوام سے متعلق کئے جانے والے اقدامات کے بارے میں پھر کئی وعدے کرڈالے ہیں۔
مگروہ اپنے اِس خطاب میں شائد دیدہ ودانستہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے اپنے ملعون شہریوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا کوئی ذکرنہ کرکے امریکا میں آنے والے سینڈی طوفان کی طرح ایک اور طوفان”ٹونی ” جو قدرت کا عذا ب بن کر امریکا میں نازل ہونے کو ہے اِس کی دعوت دے چکے ہیں اَب دیکھنایہ ہے کہ یہ طوفان امریکا میں کیا تباہی مچاتا ہے۔ بہرحال..! یہا ں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ آج جہاں امریکی مسٹربارک اوباما کو دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے پر خوشی کا اظہارکررہے ہیں اور سارے امریکا میں جشن کا سماں ہے تو وہیں بارک اوباما کو اگلی چار سالہ مدت کے لئے دوبارہ امریکی صدر منتخب ہونے پر پاکستان میں حکمران جماعت سمیت اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے کثر سیاستدانوں اور اِ ن کی حامی جماعتوں میں بھی خوشی اور مست و سُرور کا اظہار کیا جارہاہے جبکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ نومنتخب امریکی صدر اُوباما نے اپنی پچھلی چار سالہ مدت کے دوران پاکستان کے لئے سوائے پریشانیاں پیداکرنے اور ڈرون حملوں کے سلسلے کو بڑھانے کے کوئی ایسا خاطر خواہ اقدام نہیں کیا جسے دیکھ کر یہ کہہ سکیں کہ اِنہوں نے پاکستان اور اِس کے عوام کے لئے ایک بھی اچھا فیصلہ کیا ہے مگر پھر بھی معلوم نہیں کیوںہمارے حکمران اور سیاستدان بارک اُوباما کو دوسری بار امریکی صدر بننے پر اندر ہی اندر خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں اپنے سیاستدانوں کی خوشی کا عالم دیکھ کرراقم الحرف اِس نتیجے پر پہنچ پایاہے کہ کہیں یہ ایسا اِس لئے تو نہیں کررہے ہیں کہ اُوباما کی دوبارہ کامیابی سے اگلے سال ہمارے یہاں ہونے والے جنرل الیکشن میں ہمار ے سیاستدانوں اور موجودہ حکمران جماعت کو بھی فوائدحاصل ہوں گے اور اِن سب کوکہیں نہ کہیں سے امریکی صدر کی خوشنودی کی کرن نظرآئے گی جس سے فیضیاب ہوکر یہ عام انتخابات میں اپنے کرسی مضبوط کرنے کا خواب بھی دیکھ رہے ہیں۔
Obama Wins
امریکیوں کی اپنے پہلے سیاہ فام صدر اُوباما کو دوسری بار صدر منتخب ہونے پربے انتہا خوش ہونے اور خوش کا اظہارکے لئے امریکا بھر میں جشن کا سماں پیداکرنے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے مگر امریکی صدر کی جانب سے پاکستان سمیت افغانستان اور دیگر ممالک میں جہاں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا بہانہ بنا کر اِن ترقی پذیر ممالک میں ہونے امریکی دہشت گردی کے حوالے سے امریکی خارجہ پالیسی کو ایک رتی برابر بھی تبدیل نہ کرنے کے عندیئے اور واضح اعلانات کے باوجود پاک افغان میں اُوباما کی کامیابی پر خوشی اور تسکین کا اظہارکرنا کم ازکم میری سمجھ سے تو بالاتر ہے۔
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com