ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں وسائل کی کوئی کمی نہیں لیکن اس کے باوجود انسان کا سانس لینا محال ہو چکا ہے کوئی کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو اسے زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہیں ہر کوئی ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر رہا ہے کہ وہ لوٹ رہا ہے وہ کھا گیا ہے کیا ہو گیا ہے اس ملک کو کس کی نظر لگ گئی ہے ہمارے وطن کو کہ اس ملک میں زندگی محال ہو چکی ہے حکمران محالفین پر اور اپوزیشن حکومت پر الزام تراشیاں کر رہی ہے عوام ٹرانسپورٹروں کو نشانہ بنا رہے ہیں کہ وہ عوام کا خون چوس رہے ہیں ٹرانسپورٹر حکمرانوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں کون جھوٹا ہے،،،،،؟ کون سچا اب آپ حالات کا جائزہ لیں ایک شخص بارہ لاکھ کی گاڑی لیتا ہے اسے میانی سے چکوال کے لئے چلاتا ہے ایک ہائی ایس گاڑی میں وہ اٹھارہ سواریاں بٹھاتا ہے فرض کرووہ 70 روپے کرایہ لیتا ہے تو اس کا ووچر 1404 روپے بنتا ہے جس میں 700روپے گاڑی کا خرچ ہوتا ہے باقی اسے 704روپے بچتے ہیں 100اسکے عملے کا خرچہ ہے باقی600روپے بچ گئے 50 روپے کنڈیکٹر اور 100 ڈرائیورباقی گاڑی مالک کو بچے ساڑھے چار سو روپے جس میں موبل آئل گاڑی کے ٹائروں کا خرچ انجن کا خرچ نکال کر بارہ لاکھ کی گاڑی خرید کر روڈ پر لانے والے مالک کو 300 روپے فی پھیرا ملتا ہو تو کون بیوقوف شخص ایسا کاروبار کرے گا لیکن اس کے باوجود سڑکوں پر ٹرانسپورٹ رواں دواں ہے فرض کیا کہ حکومتی کرایہ نامہ پر گاڑی والے عمل کرتے ہیں تو حکومتی کرایہ نامہ کے مطابق میانی سے چکوال کا کرایہ 35روپے بنتا ہیمیانی سے چکوال کا کل کرایہ 630 بنتا ہے اب بتائو کہ 700روپے خرچہ کر کے 630ٹوٹل بنائے ڈرایئور کنڈیکٹر ان کا خرچہ گاڑی کے ٹائر اور دیگر اخراجات وہ کیسے اور کہاں سے حاصل کرے گا اس کا کیا ھل ہے عوام چیخ رہے ہیں گاڑی والے دھاڑھیں مار کر رو رہے ہیں حکمران آئے روز پیٹرول مہنگا کردیتے ہیں اب دیکھیں ناں ان کا کیا قصور وہ بچارے IMFسے قرضہ لیتے ہیں پھر قرضہ کی شرائط اگر وہ آپ سے نہ لیں تو وہ بیچارے کیا کریں موبائل سم پر لوڈ کا اگر دو روپے زرداری فنڈ میں چلا جاتا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے تماری صحت پر اور پھر IMFسے لیا گیا ڈالر پاکستان میں بسنے والوں کے پائوں کی زنجیر نہیں بنے گا تو،،،،؟ قصور ہمارا اپنا ہے الزام کسی پر دھرتے ہیں ہمارا غصہ گاڑی والے پر ٹھنڈا ہوتا ہے۔
حقیقت کو ہم کیوں نہیں دیکھتے کہ اتنے کرائے کس وجہ سے ہیں اگر CNGکی قیمت کم ہو گئی ہے تو وہ بڑھی بھی تو کس تناسب سے تھی کیا اس وقت لوگ سو رہے ہوتے ہیں جب حکمران اپنی عیاشیوں کے لئے پیٹرول CNGکی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں مہنگائی کا طوفان کھڑا کیا جاتا ہے ہم چپ کیوں ہوتے ہیں ہمیں جہاں بولنا ہوتا ہے ہم بولتے نہیں اور جہاں پہلے ہی مظلوم کھڑا ہے اس پر چڑھائی کر دیتے ہیں آکر ہم لوگوں کو کب سمجھ آئے گی ہمیں۔
آج سوچ سمجھ کر کام کرنا ہوں گے برائی کی شاخیں ،تنا نہیں بلکہ جڑ کو اکھاڑنا ہوگا کیسے،،،،،،،،؟ہمیں ملک کی تقدیر سنوارنے والے سیاست دانوں کا احتساب کرنا ہوگا ووٹ سے میں افسوس کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ اس ملک کی تقدیر سنوارنے والے سبھی برے ہیں اب ہم کیا کریں ہمیں کم برے کو آگے لانا ہوگا مثال کے طور پر آپ نے سبھی کے اقتدار دیکھے ہیں کوں ملک کے لئے اچھا ہے کس نے عوام کے لئیء اچھے کام کئے اسے ہی ملک کا اقتدار دلواہیں مل کر ہمارا ملک تضربات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ ہم تجربے کرنے نکل کھڑے ہوں۔
تحریر : ریاض احمد ملک بوچھال کلاں malikriaz57@gmail .com 03348732994