امام حسین علیہ السلام

Pir Muhammad Afzal Qadri

Pir Muhammad Afzal Qadri

امام عالی مقام کا نام و نسب یوں ہے: حسین بن علی بن ابوطالب بن عبدالمطلب بن ہاشم القرشی الہاشمی۔ آپ کی کنیت ابوعبداللہ ہے (عبداللہ آپکے چھوٹے بیٹے حضرت علی اصغر کا نام ہے)، آپ کے القاب سبط رسول، ریحانہ رسول، سید شباب اہل الجنہ وغیرہا ہیں۔ آپ کی والدہ سیدہ النساء حضرت فاطمة الزہراء ہیں۔ آپ 5 شعبان المعظم 4 ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے آپ کی ولادت سے پہلے ہی آپ کے متعلق پیش گوئی فرمادی تھی۔ چنانچہ ”مشکوة المصابیح” کی کتاب مناقب اہلبیت کی فصل ثالث صفحہ نمبر 572 میں حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا (زوجہ عم رسول حضرت عباس رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ”وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم میں نے ایک ناپسندیدہ خواب دیکھا ہے۔ فرمایا: وہ کیا ہے؟ عرض کی وہ بہت ہی ناپسندیدہ ہے۔

فرمایا: وہ کیا ہے؟ عرض کی میں نے دیکھا ہے گویا آپکے جسم کا ایک ٹکڑا آپکے جسم سے جدا ہوا ہے اور میری گود میں رکھ دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے اچھا (خواب) دیکھا ہے، فاطمہ انشاء اللہ بیٹا جنم دے گی وہ تمہاری گود میں ہوگا۔” پس جیسے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ویسے ہی ہوا اور حسین (رضی اللہ عنہ )میری گود میں آئے۔ فرماتی ہیں ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور انہیں (حسین علیہ السلام کو) آپکی گود میں رکھا دیکھا تو آپکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں ۔ میں نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان کیا وجہ ہے؟ فرمایا جبرائیل علیہ السلام ابھی آئے ہیں اور انہوں نے خبر دی ہے کہ ”بیشک میری امت کے لوگ میرے اس بیٹے کو قتل کر دینگے۔ میں نے کہا اس بیٹے کو۔

تو کہا ہاں اور میرے پاس سرخ رنگ کی مٹی بھی لائے ہیں۔” جبکہ ”تہذیب التہذیب” امام ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی، جز: 2، صفحہ: 300، طبع دار الفکر بیروت میں ہے: محدث ابو نعیم نے روایت کیا کہ ”حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس مٹی کو سونگھا اور فرمایا ”کرب وبلاء کی بو ہے۔ اور اے ام سلمہ جس روز یہ مٹی خون میں بدل جائیگی تو جان لینا کہ میرا بیٹا قتل کردیا گیا ہے۔ فرماتی ہیں میں نے اس مٹی کو ایک شیشی میں محفوظ کرلیا۔”علاوہ ازیں سیدہ عائشہ صدیقہ حضرت علی المرتضیٰ حضرت فاطمہ الزہراء حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم اور دیگر سے امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور مقام شہادت کے بارے میں روایات اور پیش گوئیاں کتب معتبرہ میں موجود ہیں۔

لیکن یہ بات قابل حیرت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور آپکے اہلبیت میں سے کسی سے اس حادثہ فاجعہ کے ٹل جانے کی دعاء ثابت نہیں۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور تمام اہل بیت رسول چاہتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام اس امتحان عظیم سے گزر کر جہاد اور شہادت فی سبیل اللہ کا حق ادا کرکے مسلمانوں کیلئے روشنی کا اونچا مینارہ ثابت ہوں اور خدا تعالیٰ کے ہاں اعلیٰ و ارفع درجات کے مستحق ٹھہریں۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب حسین کی ولادت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھائو! تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا ”حرب” فرمایا بلکہ وہ حسین ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے تینوں نواسوں (حسن، حسین اور محسن) کے نام حضرت ہارون علیہ السلام کے بیٹوں شبر، شبیر اور مشبر کے نام پر رکھے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے خود کان میں اذان پڑھی۔ تحنیک فرمائی (یعنی کھجور چبا کر لعاب میں مکس کرکے کھلائی)، عقیقہ فرمایا، بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلمکو حضرت حسین علیہ السلام سے بے حد پیار تھا۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سیاہ رنگ کی بالوں سے بنی ہوئی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ حسن آئے تو انہیں چادر میں داخل فرمالیا پھر حسین آئے تو انہیں چادر میں داخل فرمالیا پھر فاطمہ آئیں تو انہیں چادر میں داخل فرمالیا پھر علی آئے تو انہیں چادر میں داخل فرمایا پھر فرمایا: ”اللہ یہی ارادہ فرماتا ہے کہ تم سے پلیدی کو دور رکھے اے اہلبیت اور تم کو خوب پاک فرمائے۔” اسی حدیث مبارک سے پنجتن پاک کی اصطلاح بنی۔

ہجرت کے 9 ویں سال جب نجران کے عیسائیوں کو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی جب آپ نے دلائل سے اتمام حجت فرمائی تو آپ نے انہیں مباہلہ (ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے) کا چیلنج کیا۔ اس موقع پر جب حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم مباہلہ کیلئے تشریف لائے تو حضرت حسین علیہ السلام کو آپ اٹھائے ہوئے تھے۔ حضرت حسن علیہ السلام دائیں جانب اور حضرت علی و حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما آپ کے پیچھے۔ اس موقع پر عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری (اسقف) نے کہا: ”اے عیسائیوں کی جماعت ہرگز مباہلہ نہ کرنا میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اللہ سے سوال کریں کہ وہ پہاڑوں کو جڑ سے اکھاڑ دے تو اللہ تعالیٰ پہاڑوں کو جڑوں سے اکھاڑ دے گا۔ پھر کہا اگر تم نے آج مباہلہ کرلیا تو تمہارا نام ونشان مٹ جائیگا اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی عیسائی نظر نہیں آئیگا۔ اسکے بعد عیسائیوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کردیا اور جزیہ دینے پر صلح کرلی۔” ان روایات سے شہزادہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت شان روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
اسی طرح خلفاء ثلثہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم نے بھی اپنے اپنے دور خلافت میں شہزادہ رسول حضرت حسین علیہ السلام سے بے پناہ محبت فرمائی۔ فتح ایران کے بعد جب بے پناہ خزانے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آئے تو آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کا وظیفہ 2 دو ہزار درہم مقرر فرمایا اور نواسہ رسول حضرت حسین علیہ السلام کا وظیفہ پانچ ہزار درہم مقرر فرمایا اور شاہ ایران یزد جرد کی بیٹی حضرت شہر بانو کو امام حسین علیہ السلام کے نکاح میں دیا۔

آپ انتہائی خوبصورت تھے۔ بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کوئی شخص حضرت حسن سے بڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مشابہ نہ تھا اور فرمایا حضرت حسین بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے بہت مشابہ تھے. جامع ترمذی میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حسن سینہ سے سر تک اور حسین سینہ سے قدم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلمسے بہت مشابہ تھے۔ غرض یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور حضرت علی المرتضیٰ وسیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہما کی بے مثال تربیت کے نتیجے میں امام حسین علیہ السلام انتہائی پاکباز، متقی، پرہیزگار، شب بیدار، روزوں کی کثرت کرنے والے، بے حد صدقہ و خیرات کرنے والے، انتہائی بہادر، غیور، صاحب استقامت، حق گو، نیکی کے کاموں میں بڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔

رجب 60ھ میں صحابی رسول کاتب وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ وصال فرماگئے۔ ان کے بعد ان کا بیٹا یزید بن معاویہ تحت نشین ہوا تو گورنر مدینہ ولید بن عقبہ نے حضرت امام حسین علیہ السلام سے یزید کی بیعت (یعنی یزید کی حکومت کی تائید کرنے) کا مطالبہ کیا تو آپ نے یزید کے فسق و فجور کی بنیاد پر اس کی بیعت کرنے سے صاف صاف انکار فرمادیا۔ اس کے بعد آپ 4 شعبان 60ھ کو مکہ مکرمہ چلے گئے۔ اسی اثناء میں کوفہ کے لوگوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو کوفہ آنے (اور وہاں خلافت راشدہ کی بنیاد رکھنے) کی دعوت دی۔ آپ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم ابن عقیل کو اپنا نمائندہ بنا کر کوفہ بھیجا۔

اہل کوفہ نے ابتداء میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی لیکن بعد میں یزیدی گورنر عبید اللہ ابن زیاد کے ڈرانے دھمکانے کے بعد آپ کا ساتھ چھوڑدیا اور امام مسلم اور آپ کے دونوں بیٹوں محمد وابراہیم کو بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کردیا۔ایک روایت کے مطابق یہ 3 ذوالحج 60ھ کا دن تھا اسی روز امام حسین علیہ السلام اپنے خاندان اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے کوفہ روانہ ہوئے۔ راستے میں حضرت مسلم ابن عقیل رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر ملی آپکو کوفہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ آپنے راستہ تبدیل کیا طف (کربلا) کے مقام پر پہنچے یہ محرم الحرام 61ھ کی تین تاریخ تھی۔ یزیدی افواج نے جنکی کمان عمرو ابن سعد کررہا تھا، آپکو گھیرے میں لے لیا اور آپ سے یزید کی بیعت کا مطالبہ کیا جسے آپنے مسترد کردیا۔7 محرم الحرام کو اہل بیت کے لیے پانی بند کردیا گیا اور امام حسین علیہ السلام کو سخت ترین جنگی کارروائی کی دھمکی دی گئی لیکن پھر بھی آپ اپنے شرعی موقف پر ڈٹے رہے چنانچہ 10محرم الحرام 61ھ کو یزیدی افواج نے جنگ چھیڑ دی۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں بھائیوں بھتیجوں بھانجوں آپ کے پیارے بیٹوں حضرت علی اکبر اور علی اصغر کو ایک ایک کرکے شہید کردیا گیا اور پھر بالآخر آپ خود بھی درجنوں شدید زخم کھانے کے بعد شہید کردیئے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!

آپکی سیرت کے چند درخشاں گوشے
1۔ آپ کی سیرت کا سب سے روشن و درخشاں پہلو یہ ہے کہ آپ نے یزید جیسے فاسق و فاجر ظالم حکمران کی حمایت نہیں فرمائی اور اس سلسلہ میں نہ صرف بڑی بڑی پیش کشوں کو ٹھکرادیا۔ بلکہ ہجرت وطن سے لے کر مال و اولاد، احباب اقرباء حتیٰ کہ جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں فرمایا۔ آپ کا یزید سے کوئی ذاتی اختلاف نہ تھا۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ ”سرالشہادتین” میں فرماتے ہیں: ”پس امام حسین یزید کی بیعت و حمایت سے رک گئے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فاسق و فاجر، شرابی اور ظالم تھا۔” اور مشہور مفسر محدث اور مؤرخ حافظ ابن کثیر دمشقی اپنی تصنیف ”البدایہ و النہایہ” جلد: 8 میں لکھتے ہیں: ”یزید کے متعلق یہ باتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ وہ سازو راگ کا دلدادہ، شرابی، ناچ، گانے کا شیدائی، خوبرو لڑکوں اور نو عمر حسین و جمیل گانے والی لونڈیوں کا شوقین تھا….. اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ہر صبح شراب کے نشہ میں مدہوش اٹھتا تھا۔” جبکہ اسلام میں ایسا شخص مسلمانوں کی امامت وحکومت کا اہل نہیں ہوتا۔ چنانچہ قرآن پاک میں سورة شعراء کی آیت 181 میں ہے: ترجمہ: اور تم گناہ کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو۔ جو کہ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔” اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ فاسق و ظالم کو امیر و حکمران نہ بنائو۔ جبکہ حدیث پاک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: ترجمہ: ”ایسے شخص کی اطاعت نہیں جو اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہو۔”

لہذا امام حسین رضی اللہ عنہ کیلئے کیسے ممکن تھا کہ ایسے خبیث و لعین کی بیعت کرتے۔ آپ نے ظالم و جابر، فاسق و فاجر حکمران کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ اپنا سب کچھ لٹا دیا اور قیامت تک کے مسلمانوں کو درس دیا کہ امارت و حکومت صرف صالح لوگوں کا حق ہے۔ فاسق و فاجر، ظالم و جابر مسلمانوں کا حاکم نہیں ہوسکتا۔ نیز آپ نے مسلمانوں کو یہ درس دیا کہ ایک مسلمان کی شان کے لائق نہیں کہ وہ اسلام کے اصولوں پر سودے بازی کرے۔ مسلمان جان و مال و اولاد اور عزت وآبرو تو قربان کرسکتا ہے لیکن اسلام کے اصولوں پر سودے بازی نہیں کرسکتا۔ لہذا آج اگر ہم محبت حسین کا دعویٰ کرکے فاسقوں، فاجروں اور ظالموں کو ووٹ دے کر حکومت کیلئے منتخب کریں تو اس سے بڑھ کر امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ منافقت اور کیا ہوگی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ غلامان حسین یزیدان وقت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور کسی فاسق و فاجر کو ووٹ دے کر اسے حکومت کیلئے منتخب نہ کریں۔

2۔ آپ کی سیرت کا ایک اور روشن ترین پہلو صبر واستقامت ہے کہ آپ پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے… میدان کربلا میں آپ کے ساتھی، بھتیجے، بھانجے اور بیٹے خاک و خون میں غلطاں تھے… خیموں میں بیٹیاں، بہنیں اور بیویاں اپنے بعد بے سہارا نظر آرہی تھیں… ان نہایت خوفناک حالات میں یزیدی افواج آپ کو بار بار پیش کش کررہی تھیں کہ آپ اگر اب بھی یزید کی بیعت کرلیں تو آپ کو قتل نہیں کیا جائیگا… لیکن آپ استقامت کا پہاڑ بن کر اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے…
3
۔ آپ صبر کا مجمسہ بنے رہے اور اپنے اہل بیت کو بھی صبر کی تلقین کرتے رہے۔ ” اِعْلَامُ الْوَرٰی بِاَعْلَامِ الْہُدٰی” میں ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی ہمشیرہ سے فرمایا اے میری بہن! اللہ سے ڈرنا اور صبر کرنا ہر شئی فانی ہے۔ میرے باپ مجھ سے بہتر تھے۔ جن کی شہادت پر تم نے صبر کیا تھا۔ بیشک میرے لیے اور ہر مسلمان کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بہترین نمونہ ہیں۔ پھر فرمایا: اے میری بہن! میں تجھے قسم دیتا ہوں میری قسم کو پورا کرنا: ”مجھ پر اپنا گریبان چاک نہ کرنا اور مجھ پر اپنے چہرے کو ہرگز نہ نوچنا اور ہائے افسوس اور ہائے ہلاکت کے الفاظ سے بین نہ کرنا… جب میں جام شہادت نوش کر جاؤں۔”الغرض امام حسین امام الصابرین تھے۔ لہٰذا آپکے محبین کو بھی صبر و استقامت کا پیکر بننا چاہئے۔

4۔ آپ نے میدان کربلا میں ایسے حالات میں جبکہ آپکے تمام ساتھی اور رشتہ دار شہید ہوچکے تھے اور آپکا اپنا جسم تیروں سے چھلنی ہوچکا تھا۔ نماز کو ترک نہیں کیا اس میں بھی امت کیلئے درس تھا کہ نماز بڑا قیمتی متاع ہے۔ ایسے خوفناک حالات میں بھی نماز کا ترک کرنا جائز نہیں۔ آج جو لوگ محبت حسین کا دعویٰ کرکے نماز کے قریب نہیں جاتے۔ یقین کرلینا چاہئے کہ وہ دعویٰ محبت میں منافق ہے۔ امام صادق کا جو محب صادق ہوگا وہ نماز میں کوتاہی نہیں کریگا۔

5۔آپ نے یزید کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس سلسلہ میں کسی خطرہ کی پرواہ نہیں کی۔ جبکہ اس سے قبل حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما نے تینوں خلفائے رسول حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اعظم، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم سے مکمل تعاون فرمایا بلکہ اپنے بیٹوں کے نام خلفاء کے نام پر رکھے اور ان کی بیعت کی ان کی اقتداء میں نمازیں پڑھیں۔ لہذا جو شخص حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان سے دشمنی رکھتا ہے وہ نہ صرف ان کا دشمن ہے بلکہ وہ اہلبیت رسول کا بھی دشمن ہے۔

6۔خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں شدید اختلاف پیدا ہوگیا۔ خلیفہ چہارم امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں صحابی رسول حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے شام و مصر میں الگ خلافت قائم کرلی۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما دونوں بھائیوں نے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح و اتحاد کی خاطر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرکے امت کو ایک امیر کی امارت پر متحد فرمادیا۔ اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی پیش گوئی پوری ہوئی۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے امام حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: ”میرا یہ بیٹا سردار ہے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائیگا۔” (بخاری شریف)الغرض امام حسین علیہ السلام کی محبت مسلمانوں پر لازم کردی گئی ہے جسکا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ یزیدیوں کے مقابلہ میں قافلۂ امام حسین میں شامل رہیں۔ وما علینا الا البلاغ المبین۔

تحریر : پیر محمد افضل قادری