بلوچستان (جیوڈیسک) گزشتہ ایک ماہ سے ماہر امراض چشم ڈاکٹر محمد سعید خان کے اغوا کے خلاف ڈاکٹروں کی جانب سے سرکاری ہسپتالوں میں ہڑتال کا خیال آ گیا اور انہوں نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نوٹس لے لیا۔ وزیر اعلی بلوچستان نے چیف سیکرٹری بلوچستان اور سیکرٹری صحت بلوچستان کو ہدایت کی ہے کہ غیر حاضر ڈاکٹروں کو 24 گھنٹے کا نوٹس دیکر انکے خلاف انضباطی کاروائی کی جائے۔ بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال اور سنڈیمن صوبائی ہسپتال کوئٹہ کے لئے پاک فوج سے ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کی جائیں اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ڈاکٹروں کی خالی آسامیوں پر فوری طور پر بھرتی کا عمل شروع کیا جائے۔
دوسری جانب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ڈاکٹر سلطان ترین نے وزیر اعلی بلوچستان کے الٹی میٹم کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کی بھی دھمکیوں میں نہیں آئیں گے۔ وزیر اعلی بلوچستان کو سب سے پہلے امن و امان کی صورتحال پر نظر رکھنی چائیے انہیں ایک ماہ بعد ڈاکٹروں کی ہڑتال کا یاد آیا اور وہ ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن گزشتہ چار سالوں سے امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا انہیں شاید اندازہ نہیں ہم سپریم کورٹ کے مشکور ہیں کہ انہیں ڈاکٹر برادری کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے حالات کا اندازہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی بلوچستان کی جانب سے دئیے گئے الٹی میٹم کو مسترد کرتے ہیں اور ہم احتجاج میں مزید شدت لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے انتقامی کاروائیوں جیسے اقدامات اٹھانے کی کوشش کی تو اجتماعی استعفے زیر غور ہیں ہمیں تحفظ چائیے سرکاری ملازمت نہیں اس حوالے سے جنرل باڈی کا اجلاس پیر کو ہو گا جس میں ہم اپنا موقف حکومت کو واضح کرینگے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز چیف سیکرٹری بلوچستان نے رابطہ کیا اور انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر غلام رسول کے اغوا کار خضدار میں قلعہ بنا رہے ہیں تو ہم حکومت کو یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ حکومت کے لئے کھلا چیلنج ہے کہ ڈاکٹر غلام رسول کے تاوان کی ادا کی گئی رقم سے خضدار میں ایک بہت بڑا قلعہ بن رہا ہے اور بلوچستان کے حکمران اتنے بے بس ہیں کہ خضدار میں موجود اغوا کاروں کے خلاف کاروائی نہیں کر سکتے۔