کچھ عرصہ پہلے ضلعی حکومت نے مغربی ایجنڈے پر کام کرنے والی اسلام دشمن این جی اوز پر پابندی عائد کر کے ایک تاریخی کا رنامہ سر انجام دیا تھا مگر وہی ہوا جو 65سال سے اس قوم کے ساتھ اس دھرتی پر ہوتا آیا ہے بس ایک ”فون کال ” پھر کیا پابندی اُٹھا لی گئی !ضلع لیہ کے اِن بونے اورمغرب کی ”ذہنی غلام ” این جی اوز کے نمائندگان نے ضلع لیہ کی غریب عوام کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لیے کچھ بھی نہیں کیا اور ہمیشہ اپنی تجوریوں کو بھرا ہے ضلع لیہ کے یہ لُٹیرے این جی اوز کے نمائندگان ڈینگی مچھر سے بھی زیادہ خطر ناک ہیں۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی شعوری سپرے کے ذریعے اِن مغربی ایجنڈے پر کام کرنے والے اسلام دشمن اور وطن دشمن” مچھروں” کا خاتمہ بہت ضروری ہے اگر ڈینگی نما مچھروں اور مگر مچھوں کا صفایا نہ کیا گیا تو یہ ہر دور میں اپنی اسلام دشمنی ،وطن دشمنی اور کرپشن کا ڈنگ غریب عوام کو مارتے ہی رہیں گے جس کی مثال مغرب کی ایک لے پالک این جی او ہے جس نے ضلع لیہ کی تعمیر و ترقی کے لیے اربوں روپے کی گرانٹ وصول کی مگر وہ ساری گرانٹ دوبئی اور پاکستان کے مختلف بینکوں میں ان کے ذاتی اکاؤنٹس میں جمع ہے اور آج تک قوم کو اس کا حساب نہیں دیا گیا قوم ان لُٹیرے نمائندگان سے عوامی گرانٹ کا حساب مانگتی ہے کہ وہ اربوں روپے کہاں اور کس مد میں خرچ کیے گئے ہیں۔
آئے روزاپنے ضلعی ہیڈ کوارٹر پر سیمینارز کا انعقاد کر کے اسلام کے آئیڈیاز اور تصورات کی غلط انداز میں تشریح کرنا اِن مغربی لے پالکوں نے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے اور ضلع لیہ گوٹھوں ، قصبوں ، دیہاتوں حتیٰ کہ شہروں میں بھوک و مفلسی کا راج ہے ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ نہایت ہی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور گزشتہ سیلاب نے تو ضلع لیہ کے قصبات اور دیہاتوں کی حالت ہی بدل کے رکھ دی تھی سیلاب کے دوران ہی مغرب کے راتب پر پلنے والے یہ اسلام دشمن ایجنٹ اپنے چہرے پر ”ہمدردی ” کا لیپ چڑھا کر میدان میں آگئے اور غریب و سادہ لوح عوام کے نام پر اپنے مغربی باسز سے اِن سادہ لوح سیلاب زد گان دیہاتیوں کے نام پر کروڑوں روپے وصول کیے اور آج تک ان کا کوئی حساب نہیں ہے بھوک اور مفلسی کے مارے اِن غریبوں کے لیے تو کچھ بھی نہیں کیا یہ لوگ آج بھی کسی جینوئن مسیحا کی راہ تک رہے ہیں اور ضلع لیہ میں ہزاروں ایسے گھرانے ہیں جن میں بچیاں ”بابل ”کی دہلیز سے” پیا ”تک کی دہلیز کا سفر طے کرنے کی منتظر ہیں اور اِن کے سروں میں چاندی اُتر آئی ہے اور وہ دل ہی دل میں سہاگن بننے کی خواہش لیے ہر لمحہ یوں تڑپتی رہتی ہیں بقول شاعر
مِلیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بُنتی ہیں کہ دُخترانِ وطن تار تار کو ترسیں چمن کو اس لیے مالی نے خون سے سینچا تھا کہ اِس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
مگر آج تک کسی عوامی ڈویلپمنٹ کے منصوبوں پر کام کرنے والی این جی اوز ودیگر ویلفیئر سوسائٹیز کو یہ احساس نہیں ہوا کہ اِن گھرانوں سے رابطہ کرکے اِن کی بچیوں کے لیے جہیز کا بندوبست کیا جا سکے تاکہ وہ با عزت طریقے سے اپنے ”پیا ” کی سہاگن بن کر خوش وخرم زندگی گزار سکیں مگر اِن کا تو سارا زور اور” فوکس ”بس نکاح ، طلاق اور نکاح خواں پر ہی صرف ہو رہاہے اور آئے روز اسلامی قوانین کے پیچھے مغربی لَٹھ لے کر اپنے باسز کی خواہشات کو عملی جامہ پہنا نے کے لیے سر گرداں ہیں ، کبھی تو ”خواتین کے عالمی ” دن کے موقع پراپنی جہالت کی بنیاد پر شوشہ چھوڑا جاتا ہے کہ ”اسلام میں مرد وعورت کا رتبہ برابر ہے ”اور کبھی بہادر کیمپس میں سوشیالوجی کے پیریڈ میں نام نہاد لیکچرار ”پردہ ” کے خلاف خرافات کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں اُنہیں نہ تو کچھ دِکھا ئی دے رہا ہے اور نہ ہی اُنہیں کچھ سُجھائی دے رہا ہے ۔
اِن مغربی ایجنٹوں نے اپنے کا نوں پر کاگ اور آنکھوں پر بے حسی ، بے غیرتی و بے شرمی کی پٹی باندھی ہوئی ہے ، کیا ضلع لیہ سے بھوک و مفلسی ، بے روز گاری ، جہالت ، عدم تحفظ کا خاتمہ ہو گیا ہے ؟ لوگ خوش حالی کی زندگی بسر کرنے لگے ہیں ؟ہر گھر میں چہل پہل ہو گئی ہے ؟سوچنے والی بات ہے کہ اِن این جی اوز کو سوائے طلاق و نکاح کے کوئی اور مسئلہ نظر ہی نہیں آرہا ہے، اِن مغربی این جی اوز کے بھاڑے پر گزر بسر کرنے والے ”نمائندگان ” کے بینک بیلنس بھی چیک کیے جائیں کہ اِن کے پاس این جی اوز میں شامل ہونے سے پہلے کتنے اثاثے تھے اور اب یہ کتنے اثاثوں کے مالک ہیں۔
اگر اِن کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے تو معلوم ہو گا کہ ٹوٹی پھوٹی سائیکل پر سفر کرنے والے آج ٹوڈی گا ڑیوں کے مالک ہیں اور کروڑوں کی جائیداد اِن کی ملکیت میں ہے آخر یہ سارا پیسہ کہاں سے آیا ہے اور اس کے ذرائع کیا ہیں ؟کبھی کسی نے بھی اس طرف دھیان نہیں دیا ،جن ویلفیئر سو سائٹیز نے ضلع لیہ میں حقیقی معنوں میں کام کیا ہے اور سیلاب زدگان کی امداد کی ہے اُ ن میں منہاج ویلفیئر سو سائٹی، اُمید ویلفیئر ٹرسٹ، الخدمت فائونڈیشن سرِ فہرست ہیں جنہوں نے ضلع لیہ کی سسکتی ، بلکتی اور تڑپتی عوام کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کیا ہے اور اسلام کے اصلی حُسن خدمت خلق کے جذبے کو اُجاگر کیا ہے ضلع لیہ کی عوام اب شعور کی منازل طے کر رہی ہے اور آہستہ آہستہ اِن لُٹیرے اور وڈیرے ناسوروں کو پہچان رہی ہے جنہوں نے غریب عوام کی خو شیوں کو لوٹا ہے اور اب غریب عوام اِن لُٹیروں کا احتساب کرے گی اور لُوٹی گئی رقم کا حساب طلب کرے گی۔
سُننے میں آیا ہے کہ اُمید ویلفیئر ٹرسٹ بہت جلد اِن لُٹیروں سے نجات کے لیے ایک ڈاکو منٹری کے ذریعے ”شعوری مہم ” کا آغاز کر رہا ہے جس میں اِن ملک دشمن ایجنٹوں کے بھیانک چہروں کو عوام کے سامنے لا یا جائے گا جنہوں نے عوام کا پیسہ لُوٹ کر اپنے ذاتی بینک بیلنس میں اضافہ کیا ہے فرانس میں تو سنا تھا کہ حجاب کے حوالے سے پابندی کا بل پیش ہوا تھا اور فرانس نے حجاب پر پابندی کا بل منظور کرکے اپنے خبث باطن اور تعصب کا مظاہرہ کیا تھامگر کیا خبر تھی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی کچھ گماشتے ایسے ہیں جو اپنے آپ کو ماڈریٹ ،اپ ٹو ڈیٹ اور لبرل ثابت کرنے کے لیے اسلامی شعائر کا مذاق اُڑانے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں حالانکہ حجاب ہمارے اسلامی کلچر کا لازمی جزو ہے پاکستان میں ہر مذاہب کے ماننے والوں کواپنے کلچر کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہے مگر اسلامی اقدار سے اظہارِ نفرت کیوں ؟ فرانس میں حجاب پر پابندی دراصل مسلمان بچیوں کے لیے حصول ِ تعلیم کے دروازے بند کرنے کے مترادف تھا۔
فرانس میں نئے قانون کے تحت عوامی مقامات اور عدا لتوں میں چہرہ چھپانے پر پا بندی لگا ئی گئی ہے ایسا کرنے والی کسی بھی عورت کو پو لیس اسٹیشن بلا کر نقاب اُتارنے کو کہا جائے گا حکم عدولی پر ڈیڑھ سو یو رو جر مانہ کیا جائے گااس موقع پر مقامی مسلمانوں نے نئے قا نون پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا مسلم خواتین کا موقف تھاکہ وہ نقاب پہن کر اپنا کام جاری رکھیں گی فرانس میں 2ہزار سے زائد خواتین برقع پہنتی ہیں فرانس چہرے پر نقاب پر پابندی پر عمل کرنے والا پہلا ملک بن گیا تھا حجاب پر پابندی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے کیونکہ فرانس میں اس وقت 60لاکھ کے قریب مسلمان بستے ہیں وہ یہاں سب سے بڑی اقلیت ہیں فرانس کی حکومت کو اقلیت کا احترام کر نا چاہیے تھاپا کستان دنیا میں واحد ملک ہے جہاں اقلیت محفوظ ہے اور اُن کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہے ہم نے آج تک احتجاج نہیں کیا کہ اقلیتیں مسلمانوں والا لباس استعمال کریں حتیٰ کہ گرجا گھروں میں اپنے مذہب کے مطا بق عبادت کرنے والی نن ز اور رہبائیں بھی آزاد ہیں کہ وہ اپنے مذہبی لباس میں عبادت کریں ، سکھ اپنے لباس میں اور ہندو اپنے لباس اور کلچر کے مطابق زندگی گزارتے ہیں ہماری طرف سے کبھی بھی تعصب کا اظہار نہیں کیا گیا۔
جس طرح زمانہ جاہلیت میں عورت کی مظلوم ذات ذلت اور بے بسی کا شکار تھی،عزت و توقیر کا کوئی لفظ اس کے لیے وضع نہیں ہواتھا۔ابن آدم کی ہوس کا نشانہ بننے والی یہ صنف نازک مجروح جسم اور تارتار دامان عصمت کے ساتھ اپنی عزت و ناموس اور حقوق کے لیے سر گر داں تھی ۔آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جلوہ گر ہوا تو اس کی تابناک کرنوں نے نجاست و غلاظت سے لتھڑی ہوئی نسوانیت کو ماں، بہن،بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے شرف و وقار کے دیدہ زیب تاج پہنائے،اسلام نے جہاں زندگی کے دوسرے شعبوں کا احتساب و مواخذہ کیا وہاں عورت کے حقوق و فرائض بھی متعین کیے۔اس کے ساتھ ساتھ کچھ احکامات میں عورت کو بھی پابند کیا گیا جن میں سے ایک پردہ ہے۔
قرآن مجید میں ارشادربّانی ہے!”اے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم !آپ اپنی بیویوں،صاحبزادیوں اور مسلمان عورتوں سے فرمادیجئے کہ(جب باہر نکلا کریں تو) اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ امر ان کے لیے موجب شناخت و (امتیاز )ہو گا تو کو ئی ان کو ایذا نہ دے گا اللہ تعالیٰ عزوجل بڑا بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے”(الاحزاب۔59)مگر افسوس کہ آج دخترانِ اسلام حکمِ ربانی کو فراموش کر چکی ہیںمکینِ گنبدِ خضرٰی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی آفاقی تعلیمات کو چھوڑ کر مغرب کے بنائے ہوئے قوانین میں تلاشِ سکون کے لیے سر گرداںہیں۔یورپ کی اندھی تقلید میںپردے کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کرتی ہیں۔ہندو کلچر کی دلدادہ ہو کر اسلامی روایات سے ناطہ توڑ رہی ہیں۔آزادی نسواں کے نام پر چراغِ خانہ کی بجائے شمع ِمحفل بننے کے لیے پر تول رہی ہیں۔
کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی زمانے کی نظر آج وہ رونق ِ با زار نظر آتے ہیں اندیشہ ہے کہ عریانی،فحاشی، بے حیائی،نام نہاد روشن خیالی اور بے پردگی کا یہ سیل رواں ہماری پہچان ، ہمارا تشخص ، ہماری حمیت ، ہماری غیرتِ ملی اور ہماری متاع ِایمانی کو بہا کر نہ لے جائے۔ مغرب کا ”تھنک ٹینک ”الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے عورت کی عصمت و پاکیزگی کو تار تار کر نے میں مصروف عمل ہے اور حجاب کی اہمیت و افادیت اور شناخت کے خاتمہ کے لیے اپنے تمام تر مادی ذرائع بروئے کار لا رہا ہے اور مختلف ممالک میں حجاب پر پابندی کے بل منظور کرانے میں سر گرم عمل ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ گھروں میں شرم و حیاء کے فروغ اور اہل مغرب کی گھنائونی سازش کو بے نقاب کر نے کے لیے آفاقی پیغام انقلابی کتاب قرآن مجید کی روشنی میں عوام الناس تک پہنچا یا جائے مملکت خداداد میں اسلام کے دیئے گئے اصولوں کے مطابق شرم و حیاء کے فروغ کے لیے جدوجہد کر نا ہے جس کے لیے مندرجہ ذیل اغراض و مقا صد رکھے جائیں تو بہتر ہو گا اور مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔
مسلمان خواتین کو یہود و ہنود کی تہذیب سے بچا کر مصطفوی تہذیب کے سانچے میں ڈھالنا چاہیے، ان کو قرآن و سنت کے مطابق پردے کی ترغیب دلانا اور چادر اوڑھنے کے لیے چارہ جوئی کرنا،معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی اور بے راہ روی کو روکنے کے لیے عملی جدوجہد کرنا، مرد حضرات میںنہ صرف بے پردگی کے خلاف عزت و غیرت کے جذبے کو ابھارنا بلکہ خواتین کی عزت و احترام کا بھی جذبہ بیدار کرنا،خواتین میں خود اپنی پاسداری کی حفاظت کا جذبہ پیدا کرنا اور شرم و حیاء اپنانے کے جذ بے کوپروان چڑھانا، دینی اجتماعات میں چادر یں تقسیم کر کے ہر طبقہ کی خواتین کو دین کی جانب رغبت دلانا اور انہیں دین کی طرف سے دیئے گئے تحفظ کا احساس دلانا دینی اجتماعات میں خواتین و حضرات کے باہمی حقوق و فرائض کو بیان کرنا،گھریلو ناچاقیو ں، شبہات ، شکوہ جات کے ماحول کو شیر و شکر کے ماحول میں تبدیل کرنے کے لئے ذہن سازی کرنا،قانونی طور پر ملکی سطح پر سکارف کو لازم قرار دلوانے کی کوشش کرنا،عالمی سطح پر پردے کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کا ہر فورم پر نہ صرف دفاع کرنا بلکہ اس کا مؤ ثر جواب دینا۔
گھروں کے ماحول کو اسلامی ماحول میں تبدیل کرنا اورحصول برکات کے لیے لازم قرار دیں کہ گھروں میں روزانہ بعد نماز مغرب صرف آدھا گھنٹہ ٹی وی آف کر کے گھر کے تمام افراد با وضو ہو کر 313با ررسولِ رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بار گاہ اقدس میں درودو سلام کا نذرانہ پیش کریں ، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور رسول رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی نگا ہ ِ کریمی سے تمام قسم کی جسمانی اور روحانی بیماریوں کا خاتمہ ہو جائے گا ،اولاد کو والدین کی فر مانبرداری ، احترام ، ادب اور خدمت کا درس دینا ،نوجوان نسل کو منشیات کی لعنت سے محفوظ رکھنے کے لیے ”ترکِ منشیات تحریک ” کا آغاز شامل ہے اگر ہر فرد انفرادی سطح پر ان نکات پر کام شروع کر دے تو فحاشی و عریانی کا خاتمہ ہو سکتا ہے ،ملوکیت کے پیکر میں ڈھلے حکمرانوں کو ان کے ایوانوں سے جاری کی گئی رسوم ِ بد سے روکنا اور بڑھتے ہوئے گندگی و غلاظت کے سیلاب کا رخ موڑنے کے لیے دو قومی نظریے کا پر چارک ضروری ہے اور دو قومی نظریے کی بنیاد حضرت امام ربانی ،شیر یزدانی ،واقف ِ رموز ِ آیاتِ قرآنی ، قندیلِ نورانی ،محبوب ِ حقانی ،دو قومی نظریہ کے بانی حضرت شیخ احمد مجدد الف ثانی فا روقی ما تریدی رضی اللہ ہی نے رکھی تھی۔
جس کی دعوت پر برِ صغیر کا مسلمان متحرک ،خوابِ غفلت سے بیدار اور بر سرِ پیکار ہوایہ بھی حقیقت ہے کہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی کی متبرک تحریک ہی کے اثرات تھے جو 1857ء میں جنگ آزادی 1930ء میں مطالبہ پاکستان اور 1947ء میں مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں نمودار ہوئے اور نہ صرف مسلما نانِ ہند کو ایک با وقار قوم کی حیثیت دے گئے بلکہ خود حضرت مجدد الف ثانی کے لیے بھی حیاتِ جاودانی کا سبب بن گئے ،آج اس مملکت کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے جہاں مذہبی تفرقہ بازی اور مسلمانوں کے در میان اختلاف کی خلیج وسیع کرنے کے لیے غیر مسلم طاقتیں اپنے باطل کا جال پھیلا رہی ہیں وہاں پر مسلمانوں کی مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کی سوچ کو با قاعدہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت فحاشی و عریانی کی طرف دھکیلا بھی جا رہا ہے الہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی کے افکار و نظریات کی روشنی میں ایک منظم تحریک بپا کی جائے تاکہ دیارِ اغیارسے برآمدہ کلچر کو دیس نکالا دیا جا سکے اور نوجوان نسل کو مغربی ثقافت سے بچا کر سیرت مصطفوی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے سانچے میں ڈھالا جائے اور قوم کی مائوں کی گودکو سیرت فاطمتہ الزہرہ کا گہوارہ بنایا جائے تاکہ اس کی گود سے حسینی افکار کے محافظ ، حضرت مجدد الف ثانی کی پاکیزہ سوچ کے وارث اور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کی گفتار و کردار کے پہریدار جنم لے سکیںجہاں آپ کو جگہ جگہ فحاشی و عریانی کے اڈے نظر آئیں ،مغربی تہذیب سانپ کی طرح پھن پھیلائے معصوم انسانیت کو ہڑپ کرنے کے لیے بے تاب ہو،غلاظت میں لتھڑے اور کثافت سے بھر پور ایسے تعفن زدہ ماحول میں چادر اور چار دیواری کی بات کرنابہت ہی کمال اور جرات کا کام ہے اور یقیناایسی آفاقی فکر کے پیچھے گنبد خضراء صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے مکیں کی تائید و نصرت کا حاصل ہو نا لازمی امر ہے کیو نکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی شفقت و تائید کے بغیر اتنا بڑا منصوبہ پا یہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔
اس وقت امت مسلمہ کو ہنود و یہود نے ہر جہت سے اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے اور کوئی بھی میدان ایسا نہیں ہے جس میں انہوں نے اپنا گھنائونا کھیل نہ کھیلا ہو، شاطر اور مکار کھلاڑی امت مسلمہ کو چاروں شانے چت گرانے کے چکر میں سر گر داں ہیں یہ سب کچھ امت مسلمہ کے پاس تعلیم یافتہ ،بہادر ،نڈر ،باشعور ،گنبد خضراء کو اپنا محور و مرکز سمجھنے والی با اصول اور با حیاء قیادت کے نا پیدہونے کی وجہ سے ہو رہا ہے آج کا نوجوان کنفیوزڈ ہے ،فرسٹریشن کا شکار ہے اس کے سامنے کوئی واضع منزل نہیں ہے نہ تو سیاسی جماعتوں نے آنے والی نو جوان نسل کے لیے کچھ کیا نہ ہی مذہبی تحریکوں نے اس کو گا ئیڈ لائن مہیا کی ،سیاسی جماعتوں کی بونی قیادتوںنے ہمیشہ اپنی عوام کے ساتھ انہونی شطرنج کا کھیل کھیلا کچھ اس سے ملتی جلتی رام کہانی سماجی تنظیموں کی ہے انہوں نے بھی فارن پیڈ اور فارن میڈ ایجنڈے پر کام کیا ، مغرب نے پری پلان سازش کر کے امت واحدہ کے تصورکا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیا ہے کبھی تو وہ قرآن کی آفاقی اور عا لمگیر تعلیمات میںاپنی مرضی کی تحریف کر کے ,,الفرقان،، نامی کتاب کا پلندہ مارکیٹ میں لے آتاہے اور کسی وقت رسولِ رحمت ،پیغمبر انسانیت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی پا کیزہ شان میں گستاخی کا مرتکب ہو تے ہوئے آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے نعوذ با اللہ خاکے بنا کر اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل چا ہتا ہے جب مغرب کے تھنک ٹینک نے یہ محسوس کیا کہ وہ ان دونوں شیطانی محاذوں پر نا کام ہو چکا ہے کیو نکہ قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ خود رب ذوالجلال نے اٹھا یا ہوا ہے۔ ,,انا نحن نذلنا الذکر و انا لہ لحفظون،، اور اپنے پیارے محبوب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی شان میں کسی جگہ ا رشاد فرمایا ,,واللہ یعصمک عن الناّس ،، اور کہیں فر مایا ,,ورفعنا لک ذکرک ،،اور اب ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کی اولین درس گاہ ,,ماں کی گود ،،کو مغربی تعلیمات کے سانچے میں ڈھا ل کر اور اس کے سر سے عصمت و پا کیزگی کی چادر اتار کر اسے سر با زار رسوا کرنے اور گھر سے برہنہ نکال کرتماشائی بنانا چاہتا ہے۔
یہود و ہنود کے ٹکڑوں پر پلنے والے حاشیہ نشین ممالک نے با قاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اپنے سکولوں ،کالجزاور یو نیورسٹیزمیں مسلمان بچیوں کے سکارف پہننے پر پا بندی عائد کر دی ہے ا ور فرانس جیسے ملک میں تو جہاں مسلمانوں کی خاصی اکثریت ہے اور ہر سال اللہ پاک کے فضل و کرم سے 20ہزار لوگ مسلمان ہو رہے ہیں وہاں سکارف اوڑھنا ایک جرم ڈیکلیئر کر دیا گیا ہے حالانکہ پردہ ایک مسلمان ماں ،بہن اور بیٹی کے لیے عصمت و طہارت کی علامت ہے بلکہ اب تو میڈیکل سائنس نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ پردہ اور حجاب اوڑھنے والی خواتین بہت سی خطرناک قسم کی بیماریوں سے محفوظ رہتی ہیں اور اسی چیزکی افادیت کو دیکھتے ہوئے مغرب کے ماحول میں پر ورش پانے والی کثیر تعداد میں خواتین دائرہ اسلام میں داخل ہو چکی ہیںکیو نکہ اسلام اور بانی اسلام حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ہر بات میں حکمت و دانائی کے پھول اور افادیت کے موتی ملیں گے ،چادر اوڑھ تحریک نے قوم کی مائوں ،بہنوں اور بیٹیوں کے سروں پر عصمت و طہارت کی چادر اوڑھا کر ثابت کر دیا ہے کہ ابھی بھی اس دھرتی پر ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی مائوں،بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت کی حفاظت کرنا جانتے ہیں ممی ڈیڈی این جی اوز لاکھ کوششیں کرتی پھریں مگر جنہوں نے بازار مصطفی ٰصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم میں اپنا سودا کر لیا ہے دنیا کے کسی اور بازار میں ان کا سودا نہیں کیا جا سکتا۔
کچھ عرصہ پہلے اچانک اخبار کے صفحہ اول پر ایک تصویر نظر سے گزری جس کو دیکھ کر راقم پہلے تو چونک اُٹھا تھامگر جب حکمرانوں کی تاریخ پر نظر دوڑائی تو یہ معمول کی کاروائی نظر آئی جس میں وزیر خارجہ حناربانی کھر بڑے تپاک سے فرانسیسی صدر سے ہاتھ ملا رہی ہیں اور ساتھ ہمارے سابق وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی پھیکا پھیکا مسکرا رہے تھے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزیرخارجہ حنا ربانی کھر کا فرانس کے دورہ میں فرانسیسی صدر سے ہاتھ ملانا اُمت مسلمہ کی غیرت کو مٹی میں ملانے کے مترادف تھا اس موقع پر حضرت غوث الاعظم کی اولاد ہونے کے دعویدار جناب ِ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا مسکرانا اس بات کی دلیل تھا کہ ہمیں اپنی اسلامی اقدار کا کوئی احترام نہیں ہے اور ہم صرف نام کے مسلمان ہیں ایسی ہی صورتحال کے پیش نظر نباض ِ اُمت ڈاکٹر علامہ اقبال نے کہا تھا کہ وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ ہیں مسلمان جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود ہما رے ”سُوٹڈ بُوٹڈ ”حکمرانوں کو ہمت نہیں ہوئی تھی کہ وہ فرانس کے صدرسر کولیزی سے اسلامی اقدار بالخصوص حجاب پر پابندی کے حوالے سے خالی خولی احتجاج ہی کر سکیں ،احتجاج کیسے کرتے اور کس منہ سے کرتے ؟ جنہوں نے ہمیشہ غیروں کے ٹکڑوں پر اپنی زندگی کی سانسیں باقی رکھی ہوں اُن کی غیرت اور اسلامی حمیت کب سلامت رہتی ہے ؟وہ اور تھے جنہوں نے یورپ کی سرزمین میں ببانگ ِ دہل کہا تھا کہ خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش ِ فرہنگ سُرمہ ہے میری آنکھ میں خاک ِ مدینہ و نجف گزشتہ دنوںکراچی یونیورسٹی کی ایک دردِ دل رکھنے والی ، اسلامی اقدار کی محافظ ،حجاب کی پابندی کرنے والی اور اسلامی شعائر کی ترویج کرنے والی محب ِ وطن بیٹی نے ملک کے مقتدر کالم نگاروں ،دانشوروں اور مشائخ عظام کو ایک خط لکھا جس میں اُس باحیا اور باوقار بیٹی نے امت مسلمہ بالخصوص پاکستانی حکمرانوں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ” ا سلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جس شدت سے بے حیائی اور مغربی ثقافت کو فروغ دیا جا رہاہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔
کراچی یو نیورسٹی کی طالبات کو کلاس رومز میں ڈانس پر مجبور کرنے اور دورانِ انٹرویوز چہرے سے زبر دستی نقاب اُتارنے کو کہا جا رہا ہے اور ساتھ دھمکی بھی دی جارہی ہے کہ اگر نقاب نہ اُتارا تو نمبرز کاٹ لیے جائیں گے کیونکہ اس سے چہرے کے ایکسپریشنز صاف ظاہر نہیں ہو رہے اور طلبہ سے پوچھے گئے سوالات میں یہ بھی سوال شامل ہو تا ہے کہ” آپ کی کتنی گرل فرینڈز ہیں ؟”اور آپ نے داڑھی کیوں رکھی ہوئی ہے ؟آپ پانچ وقت کی نماز کیوں پڑھتے ہیں ، کیا اس سے آپ کا قیمتی وقت ضائع نہیں ہوتا ؟وغیرہ وغیرہ ،دردِ دل رکھنے اور اسلامی شعائر کی پابند میری بیٹی نے اس موقع پر انٹرویو لینے والے کو کہا کہ بے شک آپ میرے نمبر کاٹ لیں مجھے اپنے تعلیمی ادارے میں داخلہ نہ دیں مگر میں چہرے سے نقاب کبھی بھی نہیں اُتاروں گی ہم فرانس اور بلجیئم کو روتے ہیں ہمارے اپنے وطن میں چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال اور اسلامی شعائر کی تضحیک کی جا رہی ہے تعلیمی اداروں میں مخلوط سسٹم نے ہماری اخلاقی اقدار اور اسلامی شعائر کی دھجیاں اُڑا کے رکھ دی ہیں ”یہ کراچی یونیورسٹی کا ہی قصہ نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ کے کم و بیش تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کا یہی حال ہے۔
جس کا واضع ثبوت گزشتہ مہینے لیہ کے بہادر کیمپس میں نظر آیا کہ کس طرح ایک لبرل ازم کے پرچارک ، دینی شعائر سے نا بلد لیکچرار نے پردہ کی توہین کی ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں ٹیبلو شو زاور مینا بازار کے نام پر فحاشی و عریانی کو کھلم کھلا فروغ دیا جا رہا ہے پنجاب گورنمنٹ نے تو خادم اعلیٰ پنجاب جناب میاں شہباز شریف کے حکم پر ٹیبلو شوز پر پابندی لگا دی ہے جو کہ نہایت ہی مستحسن فیصلہ ہے مگر وفاقی حکومت نیند کی میٹھی گو لیاں کھا کے سو رہی ہے نصاب سے مجاہدین کے کارناموں کو خارج کیا جا رہا ہے نوجوان نسل کو سلطان صلاح الدین ایوبی ، سلطان ٹیپو شہید ، سلطان محمود غزنوی اور محمد بن قاسم کے کارناموں سے دور کیا جا رہا ہے دو قومی نظریہ کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے اور ہندو بنیئے کے ساتھ اکھٹے رہنے کو پھر سے مہم شروع کی جا رہی ہے مادر پدر آزاد سوسائٹی شترِ بے مہار کی طرح ہے جو جس کے جی میں آتا ہے اُسی طرف چل پڑتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی کے خلاف محراب و منبر سے بھی توانا آواز آنی چاہیے اور ہمارے علماء کرام اپنے خطبوں میں عوام کو فحاشی و عریانی کے مضر اثرات سے آگاہ کریں ،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی فحاشی و عریانی کی اس بد بودار فضا کو عام کرنے میں اپنا ”خاص”رول پلے کر رہا ہے کیونکہ ہم سراپاکمرشلائز ہو کر رہ گئے ہیں ہر ادارہ عورت کو اشتہارات کی زینت بنا کر اُس کی تذلیل کر رہا ہے اور عورت بھی ہوس کے طبلے کی تھاپ پر سرکاری و اشتہاری محفلوں میں رقص و سرور میں مصروف ِ عمل نظر آتی ہے وہ عورت جو کبھی چادر اور چار دیواری کی آبرو ہوا کرتی تھی اور اُس کے گھر کی دہلیز پر شرم و حیا باندی بن کر کھڑے ہوا کرتے تھے تو پھر اُس کی پاکیزہ گود سے حضرت امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ جیسے مردانِ حُر جنم لیتے تھے آج جب سے عورت غیروں کی ثقافت اپنانے لگی ہے اور چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنے لگی ہے اس کی گود سے لُٹیرے ، فصلی بٹیرے ، نیب زدہ ،بدعنوان ، چور اُچکے ، بد معاش ، بد کردار اور اسلامی اقدار و شعائر کی پا مالی کرنے والی نسل ِ بد پیدا ہونے لگی ہے۔
فحاشی و عریانی کے بڑھتے ہوئے اس سیلاب کے آگے اگر حیا و پاکیزگی اور طہارت کا بند نہ باندھا گیا تو پھر آنے والی نسل کو یہ بد تہذیبی اور بد تمیزی کا طوفان بہا کر لے جائے گا اس پر وطن عزیز کی تمام تر دینی ، سماجی اور سیاسی تحریکیں چُپ سادھ لیے ہوئے ہیں خانقاہوں کے سجاد گان بھی لمبی تان کے سو رہے ہیں جبکہ یورپ اور مغرب ہماری ثقافت کی دھجیاں بکھیرنے پہ تُلا ہوا ہے مادر پدر آزاد این جی اوز مختاراں مائی کے مسئلے پر تو آسمان سر پر اُٹھا لیتی ہیں اور پلے کارڈ لے کر ”پلے بوائز ” و ”کال گرلز ” کا تحفظ کرنے کے لیے پریس کلبز کے باہر ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہیں اور پھر ڈالرنائنز ڈ این جی اوز کی حمایت میں امریکی سفارت خانہ بھی حرکت میں آجاتا ہے امریکی راتب پر پلنے والوں کی ”حالت زار” دیکھ کر ٹیلی فون کی گھنٹیاں کھڑکنے لگ جاتی ہیں اور ہمارے حکمرانوں کے دل بھی ساتھ ساتھ دھڑکنے لگ جاتے ہیں مگر تعلیمی اداروں میںاسلامی اور اخلاقی روایات کو پامال کیا جا رہا ہے اس پر اس طرح کی خاموشی ،چہ معنی دارد۔
”امن کی آشا ” والے بھی اس بے حیائی کے فروغ پر چُپ سادھ لیے ہوئے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں فحاشی و عریانی باقاعدہ حکمرانوں کی سرپرستی میں پروان چڑھ رہی ہے اور کیبل سسٹم نے ہماری اخلاقی اور دینی اقدار کا جنازہ نکال کے رکھ دیا ہے اور حکمران فقط اپنے ذاتی اور سیاسی فائدے کے لیے ایک دوسرے کے ہاں حاضری ہی کو منزل ِ مقصود تصور کر رہے ہیں اور اپنے کیسز کو ختم کرانے کے لیے کل کے حریف آج کے حلیف بنے ہوئے ہیں غریب عوام کا کوئی پر سانِ حال نہیں ہے جب تک اس ملک سے فحاشی و عریانی کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک وطن عزیز کے قیام کے حقیقی مقاصد کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا ، آج تک وزیر اعظم نے فحاشی و عریانی کی مخالفت میں اور اس کی روک تھام میں کوئی پالیسی بیان جاری نہیں کیا ایوانِ وزیر اعظم اور ایوان ِ صدر نے فحاشی و عریانی کے حوالے سے ”چُپ کا روزہ ” رکھا ہوا ہے اور نہ معلوم یہ خاموشی و چُپ کا روزہ کب کھُلے گا ؟ روز بروز بڑھتا ہوا شراب نوشی اور ہیروئن فروشی کا سیلاب بھی نوجوان نسل کو بہا کر لے جا رہا ہے حکمران بھی کاش ہوس کے طبلے کی تھاپ پر رقص کرنے والی کے پائوں میں پہنی پائل کی جھنکار سے خواب ِ غفلت سے بیدار ہو جائیں اور فحاشی و عریانی کے خلاف عملی قدم اُٹھا سکیں۔