جرمنی(انجم بلوچستانی) صدرمجلس شوریٰ ،منہاج القرآن انٹرنیشنل برلن خضر حیات تارڑپاکستان کی موجودہ صورت حال پر فکرمند ہیں۔انہوں نے پاکستانی جمہوریت کودھوکہ قرار دیتے ہوئے ملکی حالات کا دردانگیز تجزیہ اپنا انٹرنیشنل کے ذریعہ پیش کیا ہے: ”پاکستان میں رائج جمہوریت میں عوام صرف پولنگ والے دن نمائندوں کو وو ٹ ڈالنے کے علاوہ کسی قسم کے حقوق اور اختیارات کے حقدار نہیں ہوتے ۔اگلے سارے اختیارات صرف حکمرانوں کے ہیں،جو ہر سیاہ وسفید کے مالک اور کسی آئین، قانون، اقدار اور اخلاقی حدود کے پابند نہیں۔یہ نام نہاد لیڈران عوام کو جمہوریت کے نام پر دھوکہ ،تبدیلی کے نام پر دھوکہ،ملکی ترقی کے نام پر دھوکہ،معاشی خوشحالی کے نام پر دھوکہ،بجلی، پانی،خوراک، علاج اور روزگار کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں، یعنی آج کل ملک میں دھوکہ دہی کا بازار گرم ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ انہی کے خوشامدی کچھ دانشور ایسے ہیں، جو اس جمہوریت کی بلائیں لیتے نہیں تھکتے، بلکہ اس کو ملک و قوم کی بقا کیلئے نا گزیر قرار دیتے نظر آتے ہیں۔جس فرسودہ،استحصالی اور کرپٹ انتخابی نظام جمہوریت نے قوم کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ہمارے ہاں اصل جمہوریت کے تقاضوں سے نابلد، اس فرسودہ کرپٹ انتخابی نظام کو ہی جمہوریت سمجھنے والوں، اسے تمام مسائل کا حل قرار دینے والوں اور نام نہاد جمہوری قیادت کی شان میں قصیدہ گوئی کرنے والوں کویہ بھی سوچنا چاہئے کہ موجودہ نظام میں ووٹ لینے والے حکمران کیا اقتدار کے اہل بھی ہیںکہ وہ واقعتاََ کروڑوں عوام کے نمائندے بن سکیں،جن پر ناز اور فخر کیا جا سکے ۔
کیا اس موجودہ نظام کے تحت پاکستان حکمران ملک کے انیس کروڑ عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق دے کر ان کے غموں کا مداوا کر سکتے ہیں؟لیکن اگر ایسا نہیں تو موجودہ نظام جمہوریت نہیں مجبوریت ہے بلکہ جمہوریت کی آڑ میں لوٹو سسٹم ہے،میوزیکل چیر ہے،لاٹری ہے ،جوا ہے،جس پریہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جمہوریت کو اپنانا ہی نہیں چاہتے، صرف اس نام کو استعمال کرتے ہیں اور قوم کو جمہوریت کے جھانسے میں رکھ کر اسے غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔جمہوری ممالک کی طرح اگر ہماری سیاسی جماعتیںاپنے رہنما انتخابات کے ذریعے چننے لگ جائیں تو پھریہ خاندانی جاگیر پارٹیاں ان خاندانوں کے ہاتھ سے نکل کر عوام کے ہاتھ لگ سکتی ہیں اور ایسا ہو گیا توپھر تو بہت بڑا ظلم ہو جائے گا۔ اسحاق وارث کے بقول ”کیا وہ لوگ یہ گوارہ کر لیں گے کہ جس قوم کو انہوں نے غلام بنانے میں ساٹھ سال لگائے،اسے ایسے ہی جذبات میں آ کر اور جمہوریت پسندی کے جھانسے میں آ کر آ زاد کر دیا جائے؟؟؟”۔
ساٹھ سالوں سے یہاں یہی ڈھونگ رچایا جا رہا ہے ۔پانچ دس سال گزرتے ہیں، سیاست دان اپنی اور اپنے چہیتوں کی جیبیں بھرتے ہیں عوام لٹتے اور پٹتے رہتے ہیں حالات اتنے خراب اور ماحول اتنا غیر یقینی ہو جاتا ہے کہ عوام سوچنے لگتی ہے کہ اس سے تو آمریت ہی بہتر تھی نتیجہ میںآمریت آ جاتی ہے۔آمریت اپنی باری پوری کرتی ہے تو پھر جمہوریت یاد آنا شروع ہو جاتی ہے، کیونکہ تب تک جمہوریت کی ”برکت”کے اثرات سیاستدان استعمال کر چکے ہوتے ہیں اور انہیں اس ”جمہوریت ”سے مزید ”برکت”سمیٹنے اور نئے ٹھیکوں کی ضرورت محسوس ہونا شروع ہو جاتی ہے۔لہذا ایک بار پھر ” رہنمایان قوم ”پاکستانی قوم کو جمہوریت کے نام پر بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے ہیں اوران کی مدد سے ملک کے تمام وسائل پر قابض ہو کر حقیقی جمہوریت کے فوائد عوام تک پہنچنے نہیں دیتے یہاں تک کہ پھر آمریت آ جاتی ہے اور اس طرح یہ چکر ختم نہیں ہوتا،جو گزشتہ ساٹھ ،پینسٹھ سال سے جاری ہے،جس میں عوام گونگے تماشائی ہیں۔
ملک میں جمہوریت کے دعویداروں اور ان کے قصیدہ گو دانشوروں سے سوال ہے کہ کیاوہ اصل جمہوریت کو برداشت کر سکتے ہیں؟؟؟ (کیا ہماری سیاسی جماعتیں منشور کی سیاست کر سکتی ہیں؟؟؟ (کیا ہماری سیاسی جماعتیں خاندانی جاگیر سے نکل کرصحیح معنوں میں عوامی جماعتیں بن سکتی ہیں؟؟؟ (کیا ہماری سیاسی جماعتیں اپنی جماعت میںالیکشن کروا کرپارٹی ممبران میں سے اہل ،قابل اور باکردار لوگوں کو سامنے لا سکتی ہیں؟؟؟ (کیا ہماری سیاسی جماعتیں عدلیہ اور انتظامیہ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے سے باز آ سکتی ہیں؟؟؟ (کیا ہماری سیاسی جماعتیں ملک میں علاقائیت،لسانے،برادری اور ذاتی مفادات سے بلند ہو کر سیاست کر سکتی ہیں؟؟؟ اگر ان سوالات کا جواب نفی میں ہے تو پھر اے اہل عقل و دانش خدارا اس سراب سے باہر آ جائیے اور اپنا فیصلہ کن حقیقی کردار ادا کیجئے۔۔۔! اس ملک میں جعلی جمہوریت کے دعویداروں کو لگام دیجئے۔۔۔ملک کو لٹنے اور قوم کو پاگل ہونے سے بچائیے۔۔۔!عوام کے شعور کو بیدار کیجئے ۔۔۔! اُنہیں ان کی طاقت کا احساس دلائیے۔۔۔!اس کرپٹ و فرسودہ سیاسی انتخابی نظام کی قباحتوں سے عوام کو آگاہ کریئے۔
حقیقی جمہوریت اپنانے کی طرف ہر ذی شعور کو راغب کیجئے ۔۔۔!سیاستدانوں کے خوشامدی اور حاشیہ بردار بننے سے باز آ جائیے۔۔۔! قوم کو حقیقی جمہوریت کا راستہ دکھلائیے۔۔۔! کیونکہ اگر اس قوم نے اپنے حالات کو خود بدلنے کے لئے آج قدم نہ اٹھایا توپھر کوئی بھی شخص آنے والے مورخ کے قلم کواس قوم اور عوام کو بزدل،کاہل،لاپرواہ،بے حس،سست رو اور مفاد پرست کا نام دینے سے نہیں روک سکے گا۔ نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے ”اے پاکستان والو” تمہاری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں