حامد میر ایک بہادر صحافی

Hamid Mir

Hamid Mir

حامد میر ایسے بہادر صحافی اورصحافت کے شہسواروں کو مائوں نے کم ہی جنم دیا ہے۔ اس نڈر جوان کی زبان اور قلم کی کاٹ ایسی ہے کہ بڑے اونچے اونچے ایوانوں میں زلزلے پیدا کر دیتی ہے۔حامد میر پاکستان کی صحافت کی تاریخ کا ایسا نام ہے جسے کِبر کی قوتیں لاکھ بار بھی مٹا دینے کی کوشش کر یں یہ مٹنے والا نام نہیں ہے۔ حامد میر نے 25سالوں میں صحافت کی دنیا میں وہ نام پیدا کیا ہے جو کم صحافیوں کے حصے میں آیا ہے۔لوگ ساری ساری زندگیاں اس پیشے میں گذار چکے ہیں مگر پھر بھی حامد میر جیسا مقام حاصل نہ کر پائے۔یہ ربِ کائنات کی عطاء ہے جو کسی کسی کو ہی حاصل ہو سکی ہے۔

ایک نڈر صحافی ہونے کی وجہ سے حامد میر کو مسلسل تھریٹ ملتے رہے ہیں،وجہ ان دھمکیوں کی حامد میر کا حق کیلئے آواز بلند کرنا رہا ہے۔جب پرویز مشرف جیسے آمر کے خلاف حامد میرنے آواز ٹھائی تو سب کو معلوم ہے کن لوگوں نے حامد میر کو مختلف قسم کی دھمکیوں سے نوازا …..جب مسنگ پرسنز کے لئے حامد میر بولا توبھی ان ہی لوگوں نے حمد میر کو ڈرایا دھمکایا۔خروٹ آباد کے واقعے پرکن لوگوں نے حامد میر کودھمکیاں دیں …سب جانتے ہیںمگر ان لاڈلوں سے کوئی پوچھنے والا پیدا ہوا ہے؟؟؟مگر یہ نڈر جوان اپنی لگن کا سچا ،حق بولنے پر کبھی خائف نہیں ہوا کیونکہ اس کا پکا ایمان ہے کہ موت تو اُسی لمحہ آئے گی جس لمحہ لکھی گئی ہے اور پھر مارنے والے سے جِلانے والا عظیم طاقت کا مالک ہے۔ حامد میر نے اداروں اور ایجنسیوں کو فون پر دھمکیاں دینے والوں کے نمبر تک دیئے اور لوگ ٹریس بھی ہوے۔یہ نمبر ایک سکورٹی ادارے کے افسران کے تھے ،مذکورہ ادارے کی طرف سے کہا گیا کہ یہ بعض جذباتی عناصر کا انفرادی تھاعمل تھا،ادارے کی حامد میر سے کوئی مخالفت نہیں ۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دہشت پھیلانے ولے لوگوں کے کرتوت سامنے آنے کے بعد ادارے نے ان لاڈلوں کے خلاف کیا کوئی کاروائی کی۔ جواب یقیناََنفی میں ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ صاحب چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں،یہ وہ لوگ ہیں جو ہزاروں لوگوں کو گُم کر دیں یا قتل کر کے کہیں پھینک دین ان پر ہزاروں بے گناہوں کے خون معاف ہیں ۔وزارت داخلہ اپنی یقین دہانیوں کے بعد کیا کرتی رہی۔ افضل چیمہ کے ساتھ ان لوگوں نے کیا کیا سب کو معلوم ہے ۔ ان واقعات سے پہلے کئی صحافی ان اداروں کے ہاتھوں قتل کیئے گئے کسی نے ان کا کیا بگاڑ لیا۔

Sindh Police

Sindh Police

ملک میں صحافیوں کے خلاف غنڈا عناصر جو چاہتے ہیں کر گذرتے ہیں جنہیں حکومتوں کی مکمل پشت پناہی حاصل رہتی ہے کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے۔جیو نیوز کے ولی بابر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔جس کو ایک سیاسی تنظیم کے غنڈوں نے بھری سڑک پر قتل کر دیا۔جب وہ ٹاگیٹ کلر پکڑا گیا اور تمام ثبوت بھی سامنے آگئے تو اُس تنظیم کے روبوٹوں اسے گرفتار کرنے والے پولس کے اہلکاروں کو نا صرف قتل کر دیا بلکہ اُن تمام گواہوں کو جن کی تعداد پانچ تھی ایک ایک کر کے قتل کر دیا۔ حکومت سندھ اور پولس ان کو تحفظ دینے کیلئے تیار دکھائی نہ دی۔ بلکہ آخر میں قتل ہونے والے گواہ نے جو ایک ریڑھی والا بتایا جاتا ہیں دس ٹھکانے ان روبوٹ قاتلوں سے بچنے کیلئے بدلے مگر وہ اپنی جان نہ بچا سکا۔

آج صحافت ایک ایسا میدان ہے جس کو ہر آمرنہ ذہنیت اپنا خطر ناک دشمن سمجھتی ہے۔ جو ان کے کالے کرتوتوں کا آئنہ دکھانے سے خوف ذدہ نہیں ہے۔ صحافت کے شہسواروں کو اگر ان کا بس چلے تو پیدا ہونے سے پہلے ہی ان کی سانس روک دیں ۔صحافی چاہے کسی طبقے سے بھی تعلق رکھتا ہو وہ اپنے کٹمنٹ کا پکا ہوتا ہے ۔ ملک و قوم کا درد دل میں بسائے سچائی کی راہ چلتارہتا ہے ۔یہ لوگ سفاکوں ظالموں،بے ایمانوں اور لٹیروں کے تو گویا دشمن ہوتے ہیں۔مگر صحافت غریبوں مظلوموں اور پسے ہوے عوام کی دوست اور ان کے دل کی دھڑکن ہے ۔اصل صحافی ظالموں کے مظالم کی بلا کسی خوف و تردُد کے کھل کر مخالفت کرتا ہے۔

اگر ہم ماضی کے تمام آمروں کا یاآمر نما جمہوریت کے دعویداروں کاجائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان سب نے صحافت اور صحافیو ں کو اپنا غلام بنانے کی نا کام کوششیں کیں اور وہ تمام کے تمام لوگ صحافیوں اور صحافت سے ٹکرانے کے بعد خود ہی پاش پاش ہوتے رہے۔ شورش کاشمیری سے لے کر حامد میر تک جتنے بھی صحافت کی صحیح خدمت کرنے والے ہیں اور تھے انہوں نے اپنے جسم و جان کی پرواہ نہ کرتے ہوے ہمیشہ وقت کے فرعونوں سے ٹکر لی ہے…..اور سُرخ روئی کا تاج اپنے سروں پر پہنا ہے، اور پھر حامد میر تو خود ایک نڈر صحافی کے فرزند ہیں ۔جن کے لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ “مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سکھائے” ہر آمر نے اورہر آمر نماں سیاست دان نے اور اس کے زیرِ اثر چلنے والے اداروں نے صحافت کا گلا دبانے کی بھر پور کوشش کی ۔

اُس میں ایوب خان ہو یا زیڈ اے بھٹو،جنرل ضیا الحق نے تو صحافیوں کو سر عام کوڑوں کی سزائوں سے بھی سر فراز کر دیا ، پرویز مشر ف بھی صحافت کے شہسواروں کو زیر کرنے کی زبردست کوششیںکیں، پرویز مشرف جس نے ابھرتے میڈیا کو دبانے کی کوشش کی تو خود ہی دب کے رہ گئے ۔موجودہ سرکار کا رویہ بھی آج میڈیا کے خلاف رعونت آمیز ہے۔کیونکہ وہ بھی تو بے ایمانوں کی آماجگاہ ہے اور نرسری ہے۔

اپنے کرتوتوں کو چھپانے کے لئے آج حکومت چھوٹے چھوٹے اخباروں کے بھی پیچھے پڑجاتی ہے۔ماضی میں ان اخباروں کے سچ لکھنے والے قلمکاروں کے آرٹیکل روکنے کی سختی کے ساتھ تنبیہ کی جا تی رہی تھی۔ کیا عجب دور ہے کہ لوگوں کو سچ کہنے پر گردن زدنی ٹہرایا جا رہا ہے۔حکومت کے اعلیٰ ترین ایوانوں سے خاص طور پر اینکر پرسن کی مخالفت پر شدت کے ساتھ غصے کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے۔ حامد میر سے قبل ایک اور بے باک میڈیا پرکام کرنے والے نڈر اینکرپرسن ڈاکٹر شاہد مسعود کو اونچے ایوانوں سے قتل کی دھمکیا ں دی جاتی رہی تھیں۔ کہ ”پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دیںاور کہا ہے کہ دوبئی کی بجائے پاکستان آکر پروگرام کر کے دکھائو تو تمہیں دیکھ لیں گے۔

اب یہ بات بھی آمریت کی ذہنیت رکھنے والوں پر واضح ہوجانی چاہئے ،سچ کہنے والے فزیکلی توکمزور ہوتے ہیں مگر ذہنی طور پر بہت مضبوط ہوا کرتے ہیں۔صفِ اوّل کی قیادت کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بے ایمانوں کی بے ایمانیاں اجاگر ہونے دینے سے ان کے قد کاٹھ میں اضافہ ہی ہوگا۔بے ایمانوں کے مکروہ چہرے بے نقاب ہونے دیں۔ کیونکہ ایک وقت آتا ہے کہ جب محل ومکان ،دولت پیسہ اور زمینیں سب بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں،اور انسان اپنے حساب کتاب میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔

Malala Yousafzai

Malala Yousafzai

آج الفاظ اور قلم کی طاقت ہر ہتھیار پر بھاری ہے۔یہ تو سیاست دانوںجنرلوں کی ہر چھوٹی بڑی خبر کی خبر رکھتے ہیں۔ان کے قلم کی کاٹ ضمیر کی ہر دبیز تہہ کو کاٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر کوئی اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو بہت ہی آسان ہے۔کلہاڑا چلانے والوں کو قلم کی کاٹ کا تو اندازہ ہونا ہی چاہئے۔یہ بھی حقیقت ہے صحافت کا گلہ دبانے والے خود اپنے پھندے تیار کر رہے ہوتے ہیں۔حامد میر کے عزم کو آزمانے ولوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ یہ بازو تو آزمائے ہوے ہیں ۔ملالہ یوصف زئی کے واقعے کے بعد حامد میر کے دشمنوں کوایک بہانہ ہاتھ آچکا ہے۔جس کو وہ کام میں لاتے ہوے بار بار اس قسم کی مذموم حرکتیں کر کے قدرت کے ہاتھ کو آزماتے رہیں گے۔

تحریر : پرفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید