غزہ پر حملہ ، اسرائیل نہ کیا کھویا کیا پایا

Israel Attack Gaza

Israel Attack Gaza

اِس وقت بظاہر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درامد شروع ہو چکا ہے، جس کے تحت اسرائیل تمام عسکری کارروائیاں روکنے اور ٹارگٹ کلنگ ختم کرنے کیلئے اِس شرط پر رضامند ہوگیاکہ حماس اسرائیل میں اور سرحدی علاقوں پر اپنے حملے روک دے گا،اِس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ تمام فلسطینی دھڑے غزہ سے اسرائیل اور سرحدی علاقوں پر راکٹ اور دوسرے حملے روک دیں گے،اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم اُس امریکی تجویز پر رضامند ہوئے ہیں کہ طاقت کے استعمال سے پہلے وہ مصر کی طرف سے جنگ بندی کے منصوبے کو ایک موقع دیں اور حالات کو قابو میں لانے کیلئے امن کی طرف قدم اٹھائیں،مصر کے وزیر خارجہ کامل امر نے قاہرہ میں اپنی امریکی ہم منصب ہیلری کلنٹن کے ساتھ ایک نیوز کانفرس میں جنگ بندی کا اعلان کیا۔

بعد میںاقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے بھی ایک اجلاس میں اسرائیل اور حماس پر زور دیا کہ وہ جنگ بندی پر سنجیدگی سے عمل درآمد کریں اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ غزہ کیلئے ایمرجنسی امداد فراہم کریں،امریکی صدر بارک اوباما نے معاہدے کو تسلیم کرنے پر اسرائیلی رہنماؤں کی تعریف کی اور کہا کہ وہ اسرائیلی دفاعی نظام کو اور بہتر بنانے کے لیے مزید رقم فراہم کرنے کی کوشش کریں گے،اُدھر جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان کے بعد فلسطینیوں نے جشن مناتے ہوئے ہوئی فائرنگ کی،ایک بین الاقوامی نیوز ایجنسی کے مطابق راتوں رات شہر کا نقشہ ہی بدل گیا اور وہ لوگ جنھوں نے ہوائی حملوں سے بچنے کیلئے پناہ لے رکھی تھی، سڑکوں پر نکل آئے ،لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت حملوں میں تباہ ہونے والی عمارتوں کی مرمت اور صفائی کا کام بھی شروع کر دیا گیا ہے جبکہ حماس نے اپنی فتح کا جشن منانے کیلئے جمعرات کو عام تعطیل کا اعلان بھی کیا۔

دوسری طرف جنگ بندی کے معاہدے کے بعد اسرائیل کے وزیرِ دفاع ایہود باراک کا اسرائیلی ریڈیو پر دھمکی آمیز بیان بھی نشر کیا گیا جس میں کہا گیا کہ” یہ کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں بلکہ چند سمجھوتے ہیں، جو نو دن یا نو ہفتے قائم رہ سکتا ہے، لیکن اگر یہ قائم نہ رہا تو ہم جانتے کہ پھر ہم کیا کریں گے، اگر کوئی فائرنگ ہوئی تو ہم اپنی کارروائی دوبارہ شروع کر دیں گے۔”جبکہ حماس کے سیاسی رہنما خالد مشعل کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جارحیت ناکام ہو گئی ہے، جلا وطن فلسطینی رہنما خالد مشعل نے قاہرہ میں ایک اخباری کانفرنس میں واضح کیا کہ ”اگر اسرائیل پاسداری کرے گا تو ہم بھی پاسداری کریں گے، اگر وہ خلاف ورزی کرے گا تو پھر ہمارے ہاتھ لبلبی پر ہوں گے۔” اُن کا کہنا تھا کہ معاہدے میں حماس کے مطالبات مان لیے گئے ہیں،خالد مشعل نے مزید کہا کہ غزہ کے تمام راستے کھول دیے جائیں گے ۔

جس میں مصر کی طرف کا راستہ بھی شامل ہے،انھوں نے ثالثی کے کردار کیلئے مصر کا شکریہ بھی ادا کیا ، واضح رہے کہ جنگ بندی پر رضامند ہونے کا اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب اسرائیل کے شہر تل ابیب میں ایک بس پر بم حملے میں21 کے قریب افراد زخمی ہوئے ، اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک ہفتے سے جاری پرتشدد تصادم میں 160کے قریب فلسطینی شہید ،1500سے زیادہ زخمی ہوئے،جبکہ املاک کی تباہی وبربادی کا نقصان علیحدہ ہے،اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق 14 تا 21 نومبر تک جاری رہنے والی غزہ پر آٹھ روزہ اسرائیلی بمباری کے جواب میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے متعدد اسرائیلی شہروں کو راکٹ حملوں کا نشانہ بنایا ،جس سے کل 1143 اسرائیلی تعمیرات کو نقصان پہنچا ، عبرانی زبان کے کثیر الاشاعت روزنامے ”یدیعوت احرونوت” کے مطابق فلسطینی مجاہدین نے تل ابیب کے ایک علاقے ”ریشون لیٹسیون” پر بھرپور راکٹ حملے کرکے صرف اِس ٹاؤن میں 172 رہائشی یونٹس کو شدید نقصان پہنچایا ، اِن اعدادوشمار سے اسرائیلی وزارت داخلہ کے اُن دعووں کی نفی ہوتی ہے جس میں تل ابیب میں انتہائی کم نقصانات کا اعلان کیا گیا تھا۔

قابل غور بات یہ ہے کہ صہیونی دہشت گردوں نے ایک بار پھر فلسطین کی تحریک آزادی، حماس کے مجاہدین کو وحشیانہ دہشت گردی کا نشانہ کیوں بنایا؟ اور کیوں غزہ سمیت مختلف علاقوں پر اسرائیلی جنگی طیاروں کے حملوں میں بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کیا،جن میں حماس کے فوجی سربراہ احمد الجباری بھی شامل ہیں، تجزیہ نگاروں کے نزدیک ویسے توغزہ پر اسرائیل کے حملوں کا فوری محرک فلسطینی انتظامیہ کی اقوام متحدہ میں مبصر کی حیثیت سے درخواست پر اعتراض بتایا جاتا ہے، لیکن اصل محرک حماس کی تحریک مزاحمت ہے جس نے اسرائیل کو عالمی برادری میں بالکل تنہا کردیا ہے، خطے میں بدلتی صورتحال بالخصوص مصر میں اخوان کی کامیابی نے اسرائیل کے گرد گھیرا تنگ کردیا ہے۔

Israeli Prime Minister

Israeli Prime Minister

لبنان کی حزب اللہ نے بھی ایران کے تعاون سے اسرائیل کو محصور کردیا ہے، تاہم نیا حملہ اِس حوالے سے بہت اہم ہے کہ فلسطینی شہرغزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی جارحیت کو وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اپنی انتخابی فتح کا ایک زینہ بنانا چاہتے تھے،لیکن حماس کے جوابی حملوں نے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور اُس کے پاس امن معاہدے کی علاوہ باعزت واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا،یوں یہ جنگ صہیونی وزیراعظم کی پیش آئند پارلیمانی انتخابات میں شکست کی نوشتہ دیوار دکھائی دیتی ہے،مرکزاطلاعات فلسطین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو حکومت نے اپنے ووٹروں کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ غزہ کی پٹی میں حماس کو ختم کرکے دم لے گی، لیکن موجودہ جنگی ہزیمت نے نیتن یاہو کے ووٹروں کو سخت مایوس کیا اور یہ جنگ صہیونی وزیراعظم کے گلے کا ہار بننے کے بجائے شکست کی صورت میں ماتھے کا شرمناک داغ بن چکی ہے۔

بعض مبصرین کے نزدیک اِن حملوں کی ایک وجہ یہ تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو حماس کو اشتعال دلانے کیلئے بے چین و مضطرب تھے تاکہ وہ اپنے ووٹروں کو یقین دلا سکیں کہ اُن کی حکومت اسرائیلی شہریوں کی حفاظت کیلئے ہر حریف کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے،اسرائیل میں عوامی مقبولیت کے حوالے سے کیے گئے تازہ ترین سروے میں نیتن یا ہو کی مقبولیت صفر ہو کررہ گئی ہے اور صہیونی عوامی حلقے حماس کے ساتھ فائر بندی کے معاہدے کو وزیراعظم اور حکمراں جماعت لیکوڈ پارٹی کی شکست فاش سے تعبیر کررہے ہیں۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ حالیہ اسرائیلی جارحیت ”آپریشن پلر آف ڈیفنس”کا مقصدگذشتہ اسرائیلی آپریشن ”کاسٹ لیڈ”سے مختلف نہیں جو دسمبر2008 سے جنوری2009 تک جاری رہا، تین ہفتوں پر محیط اِس آپریشن میں اسرائیل نے فلسطینی سرزمین پر عسکری دھاوا بول دیا، نہ صرف املاک بلکہ شہریوں پر بھی گولہ باری کی اور ایسے حربے استعمال کیے جنہیں اقوام متحدہ بھی جنگی مظالم قرار دیتی ہے ، لیکن طاقت کے بھرپور استعمال کے باوجود اسرائیل اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا اور اب تین سال بعد دوبارہ جنگی کارروائی میں ذلت و ہزیمت اسرائیل کا مقدر بنی ہے،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل غزہ اور لبنان کی جنگوں میں ناکامی کو باوجود اُن سے سبق سیکھنے میں ناکام رہا ہے، جبکہ اسرائیلی درندوں کو بہت پہلے ہی یہ سبق سیکھ لینا چاہئے تھا کہ وہ لوگوں کو قتل کر سکتے ہیں، شہروں کو تباہ و برباد کر سکتے ہیں ، لیکن کسی نظریے کا خاتمہ نہیں کر سکتے ،حماس ایک نظریئے ایک تحریک کا نام ہے،جس سے وابستہ ہر فلسطینی اپنی ریاست کے قیام اور قومی خودمختاری کے جذبات سے سرشار ہے ۔

لہٰذا غزہ کے حریت پسندوں کی جدوجہد اور اُن کے خلاف اسرائیل کی سفاکانہ کارروائیوں کو حقائق کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے، کیونکہ یہ محض دو یکساں اخلاقی پوزیشن رکھنے والے فریقوں کا تنازع نہیں ،نہ ہی یہ دو ملکوں کا کوئی سرحدی اختلاف ہے، آپ اِسے کسی غلط فہمی کے سبب شروع ہوجانے والا جھگڑا بھی نہیں کہہ سکتے، حقیقت یہ ہے کہ اِس میں ایک طرف ثابت شدہ غاصب، ڈاکو ،قاتل اور منصوبہ بندی کے ساتھ ارتکاب جرم کرنے والے مجرم اور اُس کے پشت پناہ ہیں ،تو دوسری طرف وہ مظلوم لوگ ہیں جو یقینی طور پر اِن درندوں کے ہاتھوں قتل و غارت گری کا نشانہ بنتے چلے آرہے ہیں،آج غزہ میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی اِسی سفاکانہ کھیل کا حصہ ہے،دنیا جانتی ہے کہ یہ وقتی جنگ بندی اِس مسئلے کا حل نہیں،آگ اور خون کے کھیل میں یہ محض ایک عارضی وقفہ ہے،اسرائیلی وزیر دفاع کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ یہ خونی کھیل کسی وقت بھی دوبارہ دہرایا جاسکتا ہے،چنانچہ عالمی ٹھیکداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اِس تنازع کو مستقل طور پر حل کرنے کیلئے غاصب کو غاصب اور مظلوم کو مظلوم تسلیم کریں اور ظالم سے مظلوم کو اُس کا حق دلوائیں۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ فلسطین کی موجودہ صورتحال نئی نہیں ہے،اپنے قیام کے آغاز سے اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کا جوقتل عام شروع کیا تھا، اُس میں وقفے ضرور آتے رہے، لیکن اگر اِن وقفوں کو نکال دیا جائے تو معلوم ہو تا ہے یہ وہ قتل عام ہے جو 1948ء کواسرائیل کے قیام سے تاحال جاری ہے، اسرائیل دنیا کا انوکھا ملک ہے جو دوسروں کی سرزمین پر انھیں بے دخل کر کے آباد کیا گیا اور اِن آبادیوں کو اسرائیل کا نام دیا گیا، وقت کے ساتھ ساتھ یہودی مزید زمینوں پر قابض ہوتے گئے اور فلسطینی اپنی زمینوں سے بے دخل، صرف اتنا ہی نہیں، اُن کی بہت بڑی آبادی کو فلسطین سے نکال دیا گیا جو آج بھی لبنان، اردن، شام اور دوسرے ممالک میں بے گھر فلسطینیوں کے مہاجر کیمپ میں بے چارگی کی زندگی بسر کررہے ہیں، دوسری طرف غزہ کی پٹی پر کنٹرول رکھنے والی اسلامی تنظیم حماس امریکی و مغربی حکام کی مصالحت کی ہر کوشش کو ”فلسطینی عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش” سے تعبیر کرتی ہے، اسرائیل کی حالیہ 6 برسوں میں متعدد جارحانہ کارروائیوں کے باعث وہ ایسا سوچنے میں حق بجانب ہے۔

اصولی طور پر حریت پسندوں کا یہ مؤقف درست ہے کہ جارح اور غاصب اسرائیل سے اُس وقت تک مذاکرات نہیں ہو سکتے جب تک اسرائیل ارض فلسطین پر غیر فلسطینی یہودی آباد کاروں کی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ بند نہیں کرتا، دنیا جانتی ہے کہ جائیداد کے اصل مالک جائیداد پر ناجائز قابض عناصر کے ساتھ کبھی مذاکرات نہیں کیا کرتے، ارض فلسطین پر اسی ناجائز قبضے کے خلاف فلسطینی 65 برس سے برسر پیکار ہیں، 1948 سے اب تک اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کا امن تہ و بالا ہے اور فلسطینی اپنی ہی دھرتی کی جیل نما ایک پٹی میں محصور ہیں،جبکہ امریکہ ، یورپ اور روسی یہودیوں نے اْن کی دھرتی پر عالمی اداروں اور طاقتوں کی مدد سے قابض ہونے کے بعد فلسطین کے اصل باسیوں کو وہاں سے نکالنے کا سفاکانہ عمل شروع کر رکھا ہے۔

لہٰذا اس تناظر میں مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوئی کوشش اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک معاہدوں کے مطابق اسرائیل کے متوازی فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوجاتی اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اسرائیل کے سرپرست امریکہ اور اُس کی پروردہ ریاست اسرائیل فلسطینی عوام کے حق رائے دہی کا احترام کرے اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلے جس میں اسرائیل کو غیرقانونی دیوار مسمار کرنے کا حکم دیا گیا ہے پر عمل کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں محصور فلسطینیوں کا محاصرہ ختم کرنے کے اقدامات کرے،ساتھ وہ کیمپ ڈیوڈ، او سلو اور شرم الشیخ معاہدوں کے تحت جس آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے اعلامیہ کاری کیا گیا تھا، اُس پر دیانتداری سے عمل کرے، حماس رہنماؤں کا یہ بھی مطالبہ ہے ،جب تک یہ مطالبات پورے نہیں ہوتے فلسطینی اپنی جدوجہد جاری رکھنے کیلئے پرعزم رہیں گے ،حقیقت یہ ہے کہ غزہ اور اسرائیل کا عسکری لحاظ سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔

Palestine

Palestine

ایک مختصر سی آبادی جو غزہ میں ہر طرف سے محصور ہے، لیکن اس کے باوجود حماس کے وابستگان اور فلسطینی مجاہدین اسرائیل اور اُس کے پشت پناہ امریکہ کے سامنے اپنی جرأت ایمانی کی بدولت ڈٹے ہوئے ہیں ، فلسطینی گزشتہ 65 برس سے حالت جنگ میں ہیں ، تمام تر بے سروسامانی کے باوجود اُن حوصلے بلند ،عزم جوان اور ادارے غیرمتزلزل ہیں اور وہ زندگی کی آخری سانس تک فلسطین کے تحفظ وبقاء کی جنگ لڑنے کیلئے صہیونی غاصبوں سے معرکہ آرائی میں مصروف ہیں۔

تحریر : محمد احمد ترازی