وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی نے گزشتہ روز بھی حسب معمول ایک اور جارحانہ بیان داغ ، فرماتے ہیں جنہیں دعویٰ ہے کہ میری کرسی پربیٹھ جائیں ،میں چلینج کرتاہوںکہ بلوچستان کے حالات کوئی ٹھیک نہیں کر سکتا”پہلے تو میں جاننا چاہوں گا کہ جناب کس کرسی کی بات کررہے ہیں ؟اگراشارہ وزارت اعلیٰ کی طرف ہے تو یہ کرسی جناب کی نہیں عوام کی ہے جس پرجناب نے عوامی مینڈیٹ کا قتل کرتے ہوئے قبضہ کررکھا ہے لیکن یہ یاد رکھیں کہ یہ قبضہ تاحیات نہیں ہے بلکہ صرف پانچ سال کاہے۔ جس کے بعد اگر آپ اس کرسی کو نہ بھی چھوڑنا چاہیں تو بھی کوئی بات نہیں کیونکہ یہ کرسی خود آپکو چھوڑ دے گی۔
اگر آپ پھر بھی راضی نہیں تو پھر اس کرسی کو گھر لے جائیے گا جہاں اربوں کھربوں گئے وہاں دو چار ہزار کی کرسی چلی جائے تو کیا۔ میری تو اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ کرسی کو زبان ملے اور وہ خود بولے کہ میں کسی اور کے بیٹھنے کے قابل نہیں رہی اس لیے مجھے اسلم ریئسانی کے ساتھ جانے دیا جائے میں ان کی جدائی برداشت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ مجھ سے سچی محبت کرتے ہیں اور سچے چاہنے والے مقدر سے ملتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ نے میرے نصیب میں سچا چاہنے والا لکھ ہی دیا ہے توخدا را اسے مجھ سے جُدانہ کیا جائے ورنہ میں اپنی پوشیش پھاڑ دوں گی،اپنے کیل باہر نکال لوں گی جو میرے اُوپر بیٹھے گا اس کی پینٹ ،شلوارتو پھاڑ ہی دوں گی۔ قارئین محترم محبت کرنے والے کسی بھی حد سے گزر سکتے ہیں۔
لہٰذا بہتر یہی ہے کہ محبت کرنے والوں کے درمیان دیوار نہ کھڑی کی جائے،مجھے لگتا ہے کہ میں بھی کباب میں ہڈی بنتا جا رہا ہوں اس لیے آئیں ہم بات کرتے ہیں ریئسانی صاحب کے دور اقتدارکی۔ جناب کو پانچواں سال ہے قتدار کے مزے لیتے ہوئے اور اب جناب اپنی کارکردگی بتانے کی بجائے یہ خبر دے رہے ہیں کہ بلوچستان کے حالات کوئی ٹھیک نہیں کرسکتا ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ بندے کواپنی بات کرنی چاہے ۔ ضروری نہیں کہ اگر رئیسانی صاحب بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے تو کوئی اور بھی کچھ نہیں کرسکتا۔عوام کو غیب کی خبریں دینے کی بجائے رئیسانی صاحب یہ بتائیں کہ بحیثیت وزیراعلیٰ بلوچستان جناب نے اپنے فرائض کتنی حد تک پورے کیے۔ان کا فرض تھا کہ صوبے میں امن وامان قائم کرتے ،عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف فراہم کرتے لیکن بدقسمتی سے وہ اور ان کی کابینہ صوبے کے مسائل کوحل کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔
Aslam Raisani
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ جانتے تھے کہ ان سے بلوچستان کے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے تو پھرانھوں نے وازارت اعلیٰ چھوڑ کیوں نہ دی ؟اب جب کہ ان کی حکومت کی معیاد ختم ہونے کو ہے تواپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا یہ کہنا کہ بلوچستان کے حالات کوئی بھی ٹھیک نہیں کرسکتاکہیں یہ ثابت کرنے کی کوشش تو نہیں کہ بلوچستان کوان سے بہتر کوئی اور وزیراعلیٰ نہیں مل سکتا ؟ راقم کی اسلم ر یئسانی کی خدمت میں ہاتھ باندھ کر اپیل ہے کہ اگروہ اور کچھ نہیں سکتے تو کم از کم عوامی حلقوں میں مایوسی نہ پھیلائیں کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام میں مایوسی گناہ ہے۔