نوجوان نسل اکثر یہ گلہ کرتی ہے کہ ہمیں اس ملک نے کیا دیا ؟ہمارے لیے اس معاشرے نے کیا کیا ہے؟ہمارے بڑوں نے ہمارے لیے کیا کیا؟یہ سارے سوالات ہیں تو بڑے ہی اہم لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ان سوالات کا کوئی مثبت اورتسلی بخش جواب مل پائے گا۔اس لیے میں اپنے آپکو ان منفی سوالات سے دور رکھنے کے لیے اکثر خودسے یہ سوال کرتا رہتا ہوں ۔کیا میں نے اپنے وطن کے لیے آج تک کچھ کیاہے؟میرے بڑوں نے تواپنا سب کچھ قربان کرکے میرے لیے ایک آزاد خودمختار ریاست کا انتظام کیا تھا کیا میں نے اس ریاست کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کرادار ادا کیا؟جواب ملتا ہے نہیں آج تک ایسا کچھ نہیں کر پایا ۔
جس کے بعد قلم اُٹھا کر لکھنے بیٹھ جاتا ہوں کہ شائد میرے قلم سے نکلا کوئی جملہ ملک و قوم کے کام آجائے۔ لیکن میرے دوست اکثر پوچھتے ہیں کہ میںکالم کیوں لکھتا ہوں ؟ مجھے کالم لکھنے سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے ؟میرے کالم کوئی پڑھتا بھی ہے کہ نہیں ؟وغیرہ وغیرہ۔ایسے منفی سوالات مجھے شدید پریشان کردیتے ہیں مجھے لگتا ہے کہ اس معاشرے میں اہل قلم کا کوئی مقام نہیں رہا ور اس وقت میرے پاس دوستوں کو دینے کے لیے کوئی تسلی بخش جواب موجود نہیں ہوتا اس لیے خاموشی سے وقت گزارنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن کچھ دوست ضد کرلیتے ہیں تو مجھے کوئی نہ کوئی جواب دینا پڑتا ہے ،کالم لکھنے کی جو وجوہات میں دوستوں کو بتاتا ہوں سوچا آج آپ کے سامنے بھی رکھتا چلوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ میری تحریروں کو پڑھنے اور چھاپنے والے ہی سب سے قربیی دوست ہیں۔
ان میں سے اکثر دوست فون کالز، ای میلز، اور ایس ایم ایس کے ذریعے میری حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ اپنی قیمتی اصلاحی و تنقیدی آراء سے نوازتے رہتے ہیں ،کسی نے کیا خوب کہی ہے کہ حوصلہ افزائی کرنے والے چند سچے تعریفی الفاظ انسان کے لیے اتنے ہی مفید ثابت ہوتے ہیں جتنا کہ سانس لینے کے لیے آکسیجن کام کرتی ہے ،میں سمجھتا ہوں کہ یہی آکسیجن میری تحریر میں جان ڈالتی ہے اورمجھے لگاتار لکھتے رہنے پر مجبور کرتی ہے ،آج میں اپنے پڑھنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ پہلی بار میری رہنمائی اورافزائی کس شخصیت نے کی ،میں نے لکھنا بھی اسی شخصیت سے متاثرہونے کے بعدشروع کیااور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ آج تک میری رہنمائی و حوصلہ افزائی کررہی ہے۔وہ شخصیت ہے میرے استاد محترم جناب ایم اے تبسم صاحب کی ،یوں تو ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے لیکن پھربھی مختصر سا تعارف کرواتا چلوںجناب ایم اے تبسم سیئنرصحافی و کالم نویس اورنوجوان کالم نویسوں کی ابھرتی ہوئی تنظیم کالمسٹ کونسل آف پاکستان کے مرکزی صدرہیںاوربہت اچھے شاعربھی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی شخصیت کو بے پناہ خلوص وشفقت اورعقل وشعور کی دولت سے نوازرکھا ہے ،میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ان کی قربت نصیب ہوئی ،آج کے حسد بھرے دور میںایم اے تبسم جیسے لوگ بہت کم ملتے ہیں ،دوسروں کے کندھوں کا استعمال کرکے اپنا قد بڑا کرنے والے تو بہت ہیں لیکن ایسے لوگ آج نایاب ہوچکے ہیں جو دوسروں کا قدبڑا کرنے میںاپنے کندھوں کا استعمال کرتے وقت خوشی محسوس کرتے ہیں،آج گرتے کو سہارا دینے والے کم اور ٹانگ کھینچ کر گرانے والے بہت ہیں ، اپنے استاد محتر م کی تعریف کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں ۔بس اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ وہ لگاتار میری شخصیت کونکھارنے میں مدد کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے میرے لکھنے کی اور یہی جواب ہے اس سوال کا کہ میں کالم کیوںلکھتا ہوں، دوسرا سوال تھا کہ مجھے لکھنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے ؟جس کا جواب یہ ہے کہ میںسمجھتاہوںکہ اہل قلم نے ہر دور میں مثبت کردار ادا کیا ہے لیکن آج دور جدید میں لوگو ں کا کتاب و قلم سے رشتہ بہت کمزور ہوگیا، اس رشتے کو مضبوط کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اگر یہ رشتہ مزید کمزور ہواتوعلم و شعور ہم سے روٹھ جائیں گے اور اگر ایسا ہوا تو جہالت ہماری آنے والی نسلوں کا مقدر بن جائے گی ۔
Poor Childs
لہٰذا اپنے بچوں کو جہالت سے بچانے کے لیے اہل قلم کو جدوجہد کرنا ہوگی اور کسی بھی جدوجہد کو شروع کرنے سے پہلے ذاتی فوائد کو مدنظر رکھنا ناکامی کی پہلی وجہ بن سکتی ہے اس لیے میں نے آج تک یہ سوچا ہی نہیں کہ میری ذات کو لکھنے سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے،میں تو ابھی اہل قلم کی دنیا میں کچی جماعت کا طالب علم ہوں ،اگر ابھی سے فوائد کا حساب کرنے لگوں گا تو امتحان میں فیل ہوجائوں گا، میرے خیال میں فیل ہونے والا طالب علم اپنے اساتذہ کی خصوصی توجہ سے محروم ہو جاتا ہے جومجھے کسی صورت منظور نہیں ۔ تیسرا سوال یہ تھا کہ کوئی پڑھتا بھی ہے کہ نہیں؟اس سوال کا جواب بہت مختصر ہے کہ شائد ابھی کوئی نہیں پڑھتا اور جس دن لوگوں نے پڑھنا شروع کردیا اس دن دوستوں کو اس سوال کا جواب بھی خود ہی مل جائے گا کہ مجھے لکھنے کا کیا فائدہ ہے کیونکہ اسی دن فائدے اور نقصانات سامنے آنا شروع ہوجائیں گے ، ضروری نہیں کہ وہ دن میری زندگی میں ہی آئے لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب لکھنے والوں یعنی اہل قلم کو ان کی زندگی میں ان کا اصل مقام حاصل ہوگا،اگر میری زندگی میںایسا ہوگیا تو میں سمجھوںگا کہ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا کیونکہ جس دن اہل قلم کو ان کا اصل مقام حاصل ہو گیا۔
اس دن معاشرے سے ظلم و ناانصافی کاصفایا ہوجائے گا اور جو معاشرے ظلم و ناانصافی سے پاک ہوں ان کوترقی وخوشحالی سے دنیاکی کوئی طاقت دور نہیں رکھ سکتی ۔میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ کرے ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ظلم وناانصافی سے پاک ایک خوشحال معاشرہ وارثت میںچھوڑیں تاکہ ان کو یہ گلے کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے کہ ان کے بڑوں نے ان کے لئے کچھ نہیں کیا ۔