اسلام آباد(جیوڈیسک)سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ججوں کے معاملے میں جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کی رائے حتمی ہے، جبکہ اٹارنی جنرل کہتے ہیں صدارتی اقدام پر کسی عدالت کو فیصلے کا اختیار نہیں۔
ججزتقرری سیمتعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے کی ۔جسٹس اعجاز افضل نے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی راے تو واپس ہوسکتی ہے لیکن جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات واپس نہیں ہوسکتیں۔ صدرججوں کی تقرری سے متعلق سمری کو وزیراعظم کی رائے کی طور پر نہیں لے سکتا۔
صدارتی وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ کمیشن اور کمیٹی کے فیصلے میں صدر کو کوئی غلطی نظر آئے تو وہ اس پر کیسے عمل کرسکتا ہے۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئین پاکستان صدرکواپنی صوابدید استعمال کرنیکا اختیاردیتا ہے،
اگر کسی شخص کے بارے میں کرپشن یا بد عنوانی کی شکایت ملے تو صدر بطور جج اس کی نامزدگی سے انکار کر سکتا ہے۔ ججوں کی سفارشات کے حوالے سے صدرکا فیصلہ حرف آخر ہے۔
جسٹس طارق پرویز نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں انہوں نے بھی شرکت کی تھی اور ووٹ بھی دیا تھا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ووٹ دینا ان کی غلطی تھی جسے وہ تسلیم کرتے ہیں۔