پاکستان میں سب سے زیادہ پسندکیاجانے والا کھیل کرکٹ ہے۔جس وقت کرکٹ کے میچ ہو رہے ہوں تو اس وقت شہروں اور دیہاتوں میں گلیاں سنسان اور بازار ویران ہوجاتے ہیں اور اگر میچ پاکستان اور بھارت کا ہوتو پھر گلیاں اور بازار ہی نہیں سکول اور دفاتر میں بھی حاضری برائے نام کی ہوتی ہے اور جو کوئی حاضر ہوجائے تو وہ بھی میچ دیکھنے یا سننے میں مشغول ہوتا ہے۔بھارت سے جب بھی میچ ہوتا ہے تو اس وقت تماشائیوں کی حالت مارو اور مر جاؤسے زیادہ بری ہوتی ہے۔ ہار نہ تو پاکستانی عوام کو اور نہ ہی بھارت کے لوگوں کو پسند ہے ہرکوئی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ کمزور دل حضرات توان میچوں میں اپنی جان تک گنو ابیٹھتے ہیں۔
اب پھر اسی ماہ میں پاکستان کی ٹیم بھارت کا دورہ کررہی ہے ۔ جس کے لیے پاکستان کی ٹیم کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔ پاکستان کی کرکٹ کا سب کچھ کرتا دھرتا ایک ادارہ ہے جس کا نام پی سی بی ہے یعنی پاکستان کرکٹ بورڈ۔ پاکستان نے ہمیشہ کرکٹ کے لیے اچھے اچھے کھلاڑی پیدا کیے ہیں۔ جنہوں نے اپنا آپ کرکٹ کے میدان میں منوایا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آجکل نامور کھلاڑیوں کے ساتھ جبکہ ان کا دور آخری مراحل میں ہے اور پی سی بی نے ان کے ساتھ غلط رویہ رکھاہوا ہے۔ مجھے پچھلے وقت کی زیادتیاں یاد کرانے کی ضرورت نہیں کہ اس وقت کے نامور کھلاڑیوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔ میں حال ہی میں پی سی بی کی طرف سے زیادتی کا شکار ہونے والے ورلڈ کلاس کھلاڑیوں کا ذکر کررہا ہوں۔
محمد یوسف ایک ورلڈ ریکارڈ ہولڈر کھلاڑی ہے اس نے ایک سیزن میں سب سے زیادہ رنز بنا نے کاریکارڈ قائم کیاہوا ہے مگر پی سی بی ایسے کھلاڑی کو مسلسل ڈی گریڈ کررہی ہے اور سفارشی اور اپنے رشتہ داروں کو کھلانے میںمصروف ہے۔ محمدیوسف آج بھی پاکستانی ٹیم کے بہت سے کھلاڑیوں سے بہتر ین بیٹسمین ہے۔اگر اس کو نہیں کھلانا تو کم از کم عزت سے ایک میچ کھلا کر اس کو ریٹائرمنٹ ہی دلا دے۔
محمد یوسف کے علاوہ عبدالرزاق سے بھی زیادتی ہورہی ہے۔ عبدالرزاق ایک اچھا آلراؤنڈر ہے۔ جس نے جب بھی اس کو موقع دیا اس نے اپنی پرفارمنس سے سچ ثابت کرکے کے دکھایا۔ حال ہی میں آسٹریلیا کے خلاف ٹی ٹونٹی میچ کا آخری اوور کرواکر میچ ٹائی کرایا اور پھر سپر آوور میں پاکستان کو میچ ون کرایا۔ اس کھلاڑی کے ساتھ پہلے ٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں ناانصافی ہوئی۔اب دورہ بھارت میں اس کوسلیکٹ نہ کرکے بورڈ کے میرٹ کا پول کھل گیا۔ حالیہ فیصل بنک ٹی ٹونٹی کپ میں عبدالرزاق کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔اس نے اپنا لوہا پاکستان کے ڈومسٹیک سیزن میں بھی منوایاہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ شاید اس کا کوئی رشتہ دار بورڈمیں شامل نہیں ہے یا پھر اس کی کوئی تگڑی سفارش نہیں ہے۔
شاہد خان آفریدی اس دورے کے تیسرے کھلاڑی ہے جو انا کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ شاہد آفرید ی کا انڈیا کے خلاف شاندار ریکارڈ ہے اور ایک اطلاع کے مطابق ون ڈے ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے بھی ان کو ون ڈے ٹیم میں شامل کرنے کی سفارش کی تھی مگر پھر بھی ان کو شامل نہیں کیا گیا۔ ایسے کھلاڑی کا پتا نہیں ہوتا کسی بھی وقت فارم میں آسکتا ہے اور انڈیا کے خلاف تو اس کی گیم ہی بہت شاندار ہوتی ہے جسکا منہ بولتا ثبوت انڈیا میں ہونے والا ورلڈکپ ہے جس میں انہوں نے ایسی ٹیم جو کسی بھی صور ت اس ورلڈکپ کے مطابق نہیں تھی پھر بھی اس ٹیم سے پاکستان کو وکٹری سٹینڈ تک پہنچایا تھا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیٹرن انچیف صدرمملکت ہوتا ہے شاید اسی لیے کہ صدر کے پاس ٹائم کم ہوتا ہے ۔ اس لیے اس کے پاس وقت نہیں کہ وہ اس کرکٹ بورڈ کا بھی کچھ خیال کرسکے ۔شاید اسی وجہ سارا کچھ چیئر مین کے ہاتھ میںہوتا ہے اور آج کل تو بورڈ میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو خود اپنے کرکٹ کے دور میں سفارش سے کھیلے یا پھر ایک دو انٹر نیشنل میچ پاکستان کے لیے کھیلے ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ایسے ہی لوگوں نے پاکستان کی کرکٹ اور اچھے کھلاڑیوں کو ضائع کیا ہے ۔جن کی مثال باسط علی، قاسم عمر، عمران نذیر کی شکل میں موجود ہے۔
بھارت سے کوئی بھی میچ ہو وہ پاکستانی عوام کے لیے ورلڈکپ کے فائنل سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔میری بھی ہر پاکستانی کی طرح دلی دعا ہے کہ پاکستان کی ٹیم دورہ بھارت سے کامیا ب ہوکر لوٹے اور ہندوستان میںپاکستان کا سبزہلالی پرچم بلند کرے۔ اس دورے کے لیے جو ٹیم سلیکٹ کی گئی ہے کیاوہ میرٹ پر ٹیم سلیکٹ کی ہے؟ نہیںکیونکہ ان میں تین چار کھلاڑی سفارشی ہوسکتے ہیںاور دوچار آؤٹ آف فارم بھی ہوسکتے ہیںجو باقی بچے ہیں ان کھلاڑیوں کی کارکردگی سے انڈیا جیسی ٹیم کو شکست دینا مشکل ہے۔
Abdul Razzaq
کسی بھی دورے سے پہلے کرکٹ بورڈ کے ترجمان بڑے بلند و بانگ دعویٰ کرتے ہیں جیسے اب کہا جا رہا ہے کہ ہم نے ٹیم اگلے ورلڈکپ کو مدنظر رکھ سلیکٹ کی ہے اور جب ایسے سفارشی کھلاڑی پرفارمنس نہیں دیتے تو پھر بڑے آرام سے دوبارہ سینئر کھلاڑیوں کو شامل کرلیا جاتا ہے اورپھر یہی بورڈ کے سلیکٹر بڑی بے شرمی سے اپنے کیے دھرے کو دوسروں کے کندھو ں پر ڈال دیتے ہیںیا پھر جب رزلٹ مثبت کے بجائے منفی آتا ہے تو پھر کھلاڑیوں اور ٹیم مینجمنٹ کو قصوروار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ جبکہ اُس شکست کی ساری ذمہ داری ٹیم سلیکشن پر ہوتی ہے۔ سہیل تنویر کی مثال آپ کے سامنے ہے ورلڈ ٹی ٹونٹی کپ میں کیا پرفارمنس دی ہے؟ پھر بھی وہ ٹیم کا حصہ ہے عبدالرزاق جو میچ ونرپلئیر ہے اس کے ساتھ بورڈ ناانصافی پر ناانصافی کر رہا ہے۔اگر پاکستان کو انڈیا سے” امن کی آشا”والی دوستی نبھانی ہے تو پھر اس سے بھی کمزور ٹیم بھیجی جاسکتی ہے اور اگر مقابلہ کرنا ہے تو پھر کرکٹ بورڈ کو اپنی رشتے داری اور سفارش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف میرٹ پر کھلاڑی سلیکٹ کرنا ہونگے۔
تحریر : عقیل خان آف جمبر aqeelkhanpathan@gmail.com